• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اس سے زندگی میں کبھی نہیں ملا، مجھے صرف یہ پتہ ہے کہ اس کا نام ملک ریاض حسین ہے، ملک ریاض حسین کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ دوسرے سیالکوٹیوں کی طرح اس کا دماغ بھی تیز ترین ہے، اس نے ہاؤسنگ کے شعبے میں کمال عروج پایا ہے اس نے لوگوں کورہنے کیلئے اعلیٰ ترین رہائش گاہیں فراہم کیں، اس کی حکمرانوں سے دوستیاں ہیں، وہ روزآنہ لاکھوں افراد کوکھانا کھلاتا ہے، ہزاروں افراد کا علاج کرواتا ہے، کئی قیدیوں کورہائی دلواتا ہے، جب پاکستانیوں کوصومالی قزاق پکڑ لیتے ہیں تو رقم کی ادائیگی کا شرف ملک ریاض حسین کوحاصل ہوتا ہے، ملک ریاض کی کامیابیوں نے نہ صرف ان کی زندگی سہل کی بلکہ کئی لوگوں کی زندگیوں میں بہار آئی۔ اس بہار کوآپ چھاؤں کہہ سکتے ہیں اس چھاؤں تک پہنچنے کیلئے ملک ریاض حسین کوبہت دھوپ برداشت کرنا پڑی۔ آج میں اس کا ماضی کا صرف ایک ورق آپ کے سامنے رکھوں گا کہ دنیا کے کامیاب ترین افراد کے ماضی ایسے کئی اوراق سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان کا ماضی گردش حالات کی گواہی دے رہا ہوتا ہے ۔ ان کے چہروں پر نظر آنے والے سکون کے پیچھے بے سمت مسافت کی کئی تلخیاں ہوتی ہیں کہ
دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہے
بس ایسا ہی ہے دنیا کے کامیاب ترین نظر آنے والے افراد خاک چھان کر کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہیں، ان کے چہرے ماضی میں خاک آلودہ ضرور رہے ہوتے ہیں۔ قسمت مہربان ہوتی ہے یا محنت رنگ لاتی ہے پھر ہی جاکے کہیں چہروں پر خوشیوں کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔ ملک ریاض حسین جو پاکستان کے اہم ترین سیاسی کھلاڑیوں کے مابین صلح جو کا کردار ادا کرتا ہے اس کے تلخ ماضی میں سے ایک ورق یہ ہے کہ وہ بہت غریب تھا، اتنا غریب کہ گھر چلانے کیلئے بھی کسی کی مدددرکار ہوتی تھی ا سکی بیٹی بیمار ہوئی تو محض دوائی لینے کیلئے اسے بیوی کے جہیز میں آیا ہوا تانبے کا لوٹا بیچنا پڑا۔ وہ اپنی زندگی میں سے ہاشمی نام کے آدمی کو نہیں نکال سکتا ۔ جی ہاں ! مسٹر ہاشمی وہ شخص تھا جس نے ملک ریاض حسین کے مشکل ترین دور میں اس کا اتنا ساتھ دیا جتنا سایہ بھی نہیں دیتا، ہاشمی صاحب اپنے ایک دوست خالد سے ایک دن کہنے لگے کہ خالد صاحب آپ کے پاس گاڑی ہے۔ اس نے کہا ہاں ہے۔ اس کی ہاں کے جواب میں ہاشمی صاحب نے کہا کہ بس ذرا افشاں کالونی تک جانا ہے۔( افشاں کالونی راولپنڈی کا ایک عام سا محلہ ہے) مسٹر ہاشمی نے گھر کا سودا سلف لیا، گاڑی میں رکھا اور پھر دونوں دوست افشاں کالونی چلے گئے ، ہاشمی صاحب نے ایک گھر کے سامنے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا، وہ سودا سلف اٹھا کر گھر میں گئے اور دوتین منٹ بعد آگئے، کچھ دنوں بعد ہاشمی صاحب نے پھر خالد کوزحمت دی پھر یہ سلسلہ جب مہینوں تک پھیلنے لگا تو ایک روز خالد نے ہاشمی صاحب سے پوچھا… ہار کہیں تم نے دوسری شادی تونہیں کررکھی؟…‘‘ اس پر ہاشمی صاحب نے کہا …نہیں، یہ میری بہن کاگھر ہے، میرے دوست ملک ریاض حسین کاگھر ہے اور میں نے اپنے دوست کی بیوی کوبہن کہہ رکھا ہے۔ آج کل ملک صاحب کے حالات اچھے نہیں ہیں، میں صرف گھر کاسودا سلف ہی نہیں دیتا بلکہ اس گھر کا کرایہ بھی دیتا ہوں، ہاں یہ میرا اپناگھر ہے کیونکہ یہ میرے دوست کاگھر ہے…‘‘ خیر یہ سلسلہ بہت عرصہ جاری رہا۔ اس دوران ایک روز ملک ریاض حسین، ہاشمی صاحب کے پاس آئے توخالد بھی وہاں موجود تھا، ہاشمی صاحب نے تعارف کروایا کہ ملک صاحب یہ میرا دوست خالد ہے، میں اسی کی گاڑی میں آتا ہوں، ہاشمی صاحب نے دوسرے آدمی کا تعارف نہ کروایا۔ جب وہ چلا گیا تو خالد نے پوچھا کہ آپ نے میرا تعارف تو کروادیا، اس آدمی کانہیں کروایا۔ اس پر ہاشمی صاحب نے کہا کہ یار! یہ میرا وہی دوست ہے ملک ریاض حسین، جس کے گھر افشاں کالونی میں جاتا ہوں چند ورز بعد ملک صاحب پھر آئے اور کہنے لگے کہ اگر تم مجھے کچھ پیسے دو تو میں کچھ گلیوں کا ٹھیکہ لے لوں، ہماری بہتری ہوجائے گی، ملک صاحب کو پیسے مل گئے ، ٹھیکہ بھی مل گیا مگر اس دوران ہاشمی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ وقت گزرتا رہا، ملک ریاض حسین ترقی کی منازل طے کرتا رہا، دوسری طرف ہاشمی صاحب کی رحلت کے بعد ان کے گھر میں غربت نے بسیرا کرلیا،اسی غربت میں دوتین سال گزر گئے۔ ہاشمی صاحب نے اپنے بچوں کوکبھی ملک ریاض حسین کا نہیں بتایا تھا۔ اس لئے ان کے بچے ملک صاحب سے آشنا نہیں تھے ۔ عالم غربت میں ان کے گھر ایک دن ایک ایسا شخص آیا جس کے آگے پیچھے گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں، ہاشمی صاحب کے فرزند شبیہہ نے اس شخص کا استقبال کیا، اسے بٹھایا اور پھر پوچھا حکم؟ اس پر ملک ریاض نے کہا کہ میں آپ کا ماموں ہوں، شبیہہ کو پھر سمجھ نہ آئی کہ یہ کونسا ماموں ہے جسے ہم نے آج تک نہیں دیکھا ، نوجوان کی پریشانی کو سمجھتے ہوئے ملک صاحب نے کہا کہ اپنی والدہ کو بلاؤ ان سے کہو کہ ماموں ریاض آیا ہے۔ شبیہہ اندر گیا، ماں کو بلایا، ماں آئی تووہ دونوں ایسے ہی ملے جیسے بہن بھائی ملتے ہیں، اس نے فاتحہ کی اور کہا کہ پرسوں بیٹے کومیرے پاس بھیج دیں۔ شبیہہ ملک صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے شبیہہ کودس شاندار گھر دکھائے اور کہا کہ ایک پسند کرلو، نوجوان کے پسند کئے گئے گھر میں سارا سامان ڈلواکرملک ریاض حسین نے ہاشمی صاحب کی بیوہ اور ان کے بچوں کوبلایا، کھانے کی دعوت کی اور پھر خود اس گھر میں چھوڑ کرکہا ، آج سے یہ گھر آپ کا ہے پرانے گھر کا سامان وہیں چھوڑ دو، ملک ریاض حسین نے یہی نہیں کیا، اپنے دوست کے تینوں کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے ڈال دیئے۔ اب وہ تینوں بچے بحریہ ٹاؤن کے ملازم ہیں۔
ملک صاحب کو ہاؤسنگ میں عورج ملا توان کا میرے ایک دوست ظفر شاہ سے پنگا ہوگیا ۔ ملک صاحب نے طاقت کابھرپور استعمال کیا جیسے دولت مند افراد کرتے ہیں۔ ظفر شاہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کیا جائے ، میں نے کہا کہ جھکنا نہیں، ہمیں کسی دولت مند شخص کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔ وقت گزرگیا مگر اس دوران ظفر شاہ نے ملک ریاض حسین کے خلاف مقدمہ کردیا، جب ملک ریاض حسین نے خود کو مقدمے میں الجھتا دیکھا توایک دوست کے ذریعے صلح کا پیغام بھجوایا، ظفر شاہ نے مجھے فون کیا کہ ملک ریاض حسین صلح کرنا چاہتا ہے، معافی کا طلب گار ہے، میں نے ظفر شاہ سے کہا کہ کوئی قیمت لئے بغیر اس سے صلح کرلو کیونکہ ملک ریاض حسین نے پاکستانیوں کے ساتھ بہت نیکیاں کی ہیں، وہ کئی مریضوں کا علاج کرواتا ہے، سخاوت کرتا ہے، لاکھوں افراد کوکھانا کھلاتا ہے، بس ایسے شخص کو معاف کردینا چاہیے ،خیر یہ صلح ہوگئی ۔ اس صلح کے پیچھے پتہ نہیں ایسے کتنے افراد کی دعائیں ہوں گی جن کا علاج ملک ریاض حسین نے کروایا، جنہیں کھانا بحریہ دسترخوان سے نصیب ہوتا ہے۔
ملک ریاض حسین کی تمام کامیابیاں ایک طرف مگر انہیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب جائیداد پر جھگڑنے والے دوافراد حضرت علیؑ کے پاس پہنچے تو انہوں نے دونوں کو لیٹ جانے کا حکم دیا۔ جب وہ لیٹ گئے توان کے گرد لکیر کھینچ کر حضرت علیؑ نے فرمایا کہ ’’… تمہاری جائیداد اتنی ہی ہے، یعنی قبر کی جگہ ہی آپکی جائیداد ہے اور تم دونوں یہ بتاؤ کہ کبھی اپنی جائیداد میں سے کسی یتیم بچے یابیوہ عورت کوکچھ دیا ہے ؟ …‘‘ ملک ریاض حسین کو حضرت علیؑ کا یہ قول سامنے رکھنا چاہیے اور پھر سوچنا چاہیے کہ انہوں نے امیروں کیلئے تو بڑے بڑے بنگلے بنائے، کیا انہوں نے یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کیلئے کوئی کالونی، کوئی فیز بنایا ہے، یہ سوال صبح وشام ان کے سامنے ہونا چاہیے اور یہ سوچ بھی کہ کبھی وہ بھی افشاں کالونی کے ایک چھوٹے سے مکان میں کرائے پر رہتے تھے، جس کا کرایہ بھی کوئی دیتا تھا، جس میں سودا سلف بھی کوئی ڈالتا تھا۔ نیلما ناہید درانی کا شعر بہ محل ہے ۔
دل میں اک جنگ تھی جو جاری رہی
کوئی توشخص تھا خفا مجھ سے
تازہ ترین