• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوعُ الارض کی حسرت اور کثرت کے ماروں کی مسرت دیدنی ہے،ڈرون حملے کی دعائیں کرنے والوں کی پُکار پر خودآشفتہ سر طالبان نے لبیک کہا اور ایف سی اہلکاروں کو قتل کرکے مذاکرات کے حلقوم پر چھری پھیر دی۔ یوں جنگ و جدل کی تمنا کرنے والوں کی دلی مُراد بر آئی۔عمران خان کہتے ہیں ،جنرل کیانی کے بقول آپریشن کے نتیجے میں کامیابی کے امکانات محض 40فیصد ہیں۔بالفرض محال اگر فوجی کارروائی کے ذریعے جیت کے امکانات 200فیصد بھی ہوں تو ایسی جیت سے کیا حاصل جس کے نتیجے میں ہم لوگوں کے دل ہار جائیں۔ہم نے باجوڑ اور سوات میں آپریشن کے دوران بھی پہاڑوں پر تو فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے لیکن پختونوں کے سینوں میں دھڑکتے دل میں پاکستانیت کا پرچم سرنگوں ہو گیا۔میرے وہ دوست جو گرم سرد مشروبات سے جی بہلاتے ہوئے لاہور ،اسلام آباد یا کراچی میں بیٹھ کر نواز شریف کو چرچل بننے کے مشورے دیتے ہیں اور جارحانہ تقریروں کے نمونے تیار کر کے پیش کرتے رہتے ہیں،وہ وزیرستان نہ جائیں کم از کم مالاکنڈ ،دیر یا سوات کی سیر کر لیں ۔رشکئی انٹرچینج سے موٹروے سے نیچے اترتے ہی مردان کے بعد درگئی کی چیک پوسٹ پہنچیں گے تو لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کی بھر پور ’’عزت افزائی‘‘ اور اس کے بعد مجبور و مقہور مسافروں کے جذبات و احساسات دیکھ کر عقل ٹھکانے آجائے گی۔اگر پہلے کیے گئے آپریشن کامیاب رہے اور مریض روبہ صحت ہوا تو ضرور کریں یہ سرجری ،لیکن اگر آپ نے ا سٹریچر پر لیٹے جاںبلب مریض کو پہلے ہی مصنوعی نظام تنفس پر زندہ رکھا ہوا ہے،تو ایک بار پھر چیر پھاڑ پر اصرار کیوں؟محترم عطاء الحق قاسمی صاحب نے چند روز قبل اصول پسندی اور حماقت کا فرق واضح کرنے کے لئے ایک مثال دی تھی اگرچہ انہوں نے یہ مثال جس تناظر میں حوالے کے طور پردی تھی،میں اس نقطہ نظر سے اختلاف رکھتا ہوں مگر یہ تمثیل بہت خوبصورت ہے۔اگر آپ اپنے ڈرائیور کے ساتھ کار میں جارہے ہیں،اچانک سامنے سے ایک ٹرک آ جائے اور ڈرائیور ٹس سے مس نہ ہو۔آپ کے چیخنے چلانے پر گاڑی سڑک سے نیچے اتار کر ڈرائیور اپنے اس عمل کا دفاع کرتے ہوئے کہے،سر!غلطی تو ٹرک ڈرائیور کی تھی وہ رانگ سائڈ سے آ رہا تھا،میںٹھیک راستے پر تھا تو کار نیچے کیوں اتارتا۔کیا آپ کے خیال میں ڈرائیور کی اس منطق کو اصول پسندی کا نام دیا جا سکتا ہے؟ حکومت پاکستان بھی ان دنوں اصول پسندی کے نام پر غلطی کا ایسا ہی عدیم النظیر مظاہرہ کرنے جا رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ایف سی اہلکاروں کو قتل کرکے سنگین جرم کا ارتکاب کیا،ان کےبےشمار اقدامات کا دفاع نہیں کیا جا سکتا،ان کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدرو قیمت نہیں کیوں کہ وہ باغی ہیں مگر ریاست تو ماں ہے جو اپنے شہریوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔اسرائیل نے اپنے ایک فوجی گیلاد شالیت کے بدلے فلسطین کے ہزاروں قیدی رہا کر دیئے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ ریاست ہار گئی؟بھارت کا طیارہ اغوا ہوا تو کیا بھارت نے اپنے شہریوں کی زندگیاں بچانے کی خاطر مسعود اظہر کو رہا نہیں کیا؟اگراس وقت بھارتی حکومت بھی ڈٹ جاتی کہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ دہشت گردوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے تو کیا اسے عقلمندی کہا جاتا؟ریاستیں اور حکومتیں اٹکل پچو سے نہیں فہم و فراست اور دوراندیشی سے چلائی جاتی ہیں ۔میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اس وقت مسئلہ مذکرات یا فوجی کارروائی میں سے کسی ایک راستے کے انتخاب کا نہیں،مسئلہ ہمارے مقتدر حلقوں کی جبلت و فطرت کا ہے۔مسئلہ طالبان کو مارنے کا نہیں ،طالبان کی ماں کو قائل کرنے کا ہے کہ وہ بالغ بچوں کی نافرمانی سے سبق حاصل کرے اور مزید بچے جننا چھوڑ دے ۔ایسی صورت میں طالبان کا قلع قمع کرنے کی خواہش احمقانہ ہے کہ جب ان کی ماں بدستور حالت زہ میں ہے اور بچے پیدا کرتی چلی جا رہی ہے۔ابھی تو ایک تحریک طالبان پاکستان ہے میں تو اس وقت سے خوفزدہ ہوں جب سارے لشکر اور تمام سپاہ دھوکہ دیئے جانے کے احساس پر بندوق تھام کر میدان جہاد میں قطار اندر قطار اتر آئیں گی اور ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ابھی تو ان باغیوں سے نمٹنے کا مرحلہ بھی آئے گا جو فی الوقت ہمارے کاغذوں میں جہادی ہیں لیکن کسی بھی وقت پالیسی تبدیل ہونے کی صورت میں فسادیوں کی فہرست میں دھکیلے جا سکتے ہیں۔مجھے تو جہاد کے ان علمبرداروں پر بھی تعجب ہوتا ہے جو مومن ہونے کے باوجود ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جا رہے ہیں اور پراکسی وار میں اپنے بچے مروا رہے ہیں۔
میرے ملک کے عظیم دانشور مذاکرات کی بات کرنے والوں کو فوراً طالبان کا حامی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں، کتنی مرتبہ مذاکرات کیےجائیں،مذاکرات ناکام ہوگئے تو اب کیا کریں؟ انہی دانشوروں سے جب جمہوریت کی نااہلی کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ بھاشن دیتے ہیں،جمہوریت ناکام ہو تو پھر بھی اس کا حل جمہوریت ہی ہے۔اسی راستے پر چلتے رہنے میں ہی عافیت ہے۔لیکن مذاکرات کے ضمن میں وہ یہ دلیل سننے کو تیار نہیںکہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میںپھر مذاکرات کیے جائیں۔فوجی آپریشن کی صورت میں فوج کی ایک کثیر تعداد کو دلدل میں جھونکنے کا مشورہ دینے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہمارے ایک خلیجی ملک کے مہربان دو ڈویژن فوج کرائے پر لینے کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں، ایران نے سرحد پار کر کے کارروائی کرنے کی دھمکی دی ہے، بلوچستان میں جس مریض کا آپریشن کیا گیا اس کی ناگفتہ بہ حالت کا یہ عالم ہے کہ سرجن کے منہ موڑتے ہی مریض کے دم توڑنے کا خدشہ ہے،سوات اور باجوڑ میں بھی یہی پوزیشن ہے ،کیا اب وزیرستان اور مہمند ایجنسی میں بھی پولیس کی جگہ فوج کو مستقل بنیادوں پر تعینات کرکے اسے بیرونی جارحیت سے دفاع کی صلاحیت سے محروم کرنے کے ارادے ہیں؟تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس جنگ میں حقیقی کامیابی کے امکانات روشن ہوتے تو لوگ یہ سوچ کر قربانیاں دینے کو تیار ہوجاتے کہ چلیں کسی طریقے سے امن تو آئے گا۔لیکن آپ کو کوئی غلط فہمی ہے تو نیک محمد کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی ویڈیوز یو ٹیوب پر دیکھ لیں یا پھر اس وقت کے کور کمانڈر پشاور جنہوں نے نیک محمد سے معاہدہ کرکے اسے ہار پہنایا، زندہ ہیں ،ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ لڑائی میں پلہ کس کا بھاری تھا۔میں ان دنوں لوئر دیر میں ہوں ،تحریک انصاف کے رہنما بشیر خان ایڈووکیٹ نے چرچل کی کتاب میں سے اپنے پردادا حاجی ہدایت اللہ کا تذکرہ دکھاتے ہوئے بتایا کہ چرچل نے انہیں بلایا تو وہ گھوڑے پر بیٹھے رہے نیچے نہیں اترے،چرچل نے کہا میں آپ کو جندولہ کا نواب بنانا چاہتا ہوں،انہوں نے کہا،مجھے تمہاری نوابی نہیں چاہئے۔جس پر اس نے لکھا کہ اس قوم پر کوئی بات مسلط کی جا سکتی ہے نہ اسے جنگ کے ذریعے شکست دی جا سکتی ہے۔مالاکنڈ کے گورا قبرستان میں کتنے ہی برطانوی فوجیوں کی قبریں موجود ہیں جن کے مردہ اجسام کے ساتھ ہی غلبہ پانے کی حسرتیں بھی دفن ہو گئیں۔ کسی نے پختونوں کی فطرت سے متعلق سچ کہا ہے کہ پٹھان کو آپ پیار کے ساتھ جہنم میں بھی لے جانا چاہیں تو چلا جائے گا لیکن زبردستی کریں گے تو یہ جنت میں جانے سے بھی انکار کر دے گا۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ مار نہیں پیار کا فلسفہ اپنا کر دل فتح کرنا چاہتے ہیں یا پھر ان طالبان کے خون سے مزید طالبان پیدا کرکے سب کچھ ہارنا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین