• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی’’باز گشت‘‘ پھر سنائی دے رہی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے حکمت و تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے والی قوتوں کے آگے بند باندھ دیا ہے۔یہ لائق تحسین امر ہے کہ حکومت نے اب تک آپریشن کے حوالے سےکوئی غیر حکیمانہ فیصلہ نہیں کیا جس سے ملک وملت کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔حکومت کا موقف ہے کہ طالبان غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کردیں تو مذاکراتی عمل میں پیش رفت ممکن ہوسکے گی۔طالبان کے بھی تحفظات دور کیے جائیں تو مذاکرات جلد کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔طالبان نے1973ء کے تحت مذاکرات کوتسلیم کرلیاہے۔اب دوطرفہ ’’جنگ بندی‘‘کی طرف بات بڑھ رہی تھی۔ حکومت کا یکطرفہ جنگ بندی کا مطالبہ ناقابل فہم ہے ۔
دوطرفہ جنگ بندی سے ہی مسئلہ حل ہوگا۔اب حکومت نے شمالی وزیرستان پر بمباری کرکے حالات کو مزید گمبھیر کردیا ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی تذکرہ کیا تھاکہ حکومت اور طالبان دونوں کومذاکرات میں عملی پیشرفت کیلئے ذمہ دارانہ طرز عمل کاثبوت دینا چاہئے اور یہی کامیابی کی کلید ہے۔ مذاکرات مخالف قوتیںپیپلز پارٹی،ایم کیوایم اور اے این پی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیلئے خاصا’’شور‘‘کررہی ہیں۔حالانکہ گزشتہ پانچ سالہ اپنے دور میں ان اتحادی جماعتوں کو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی ’’ہمت‘‘ نہیں ہوئی کیونکہ یہ پارٹیاں سمجھتی تھیں کہ آپریشن مسئلے کاحل نہیں ہے۔آج یہی جماعتیں امریکہ کی ’’خوشنودی‘‘ یا محض پوائنٹ اسکورنگ کیلئے ’’آپریشن‘‘کرنے کا شور مچارہی ہیں۔اس وقت ملک کوجوسنگین خطرات درپیش ہیں وہ جنرل (ر)پرویزمشرف اور گزشتہ حکومت میں انہی اتحادی جماعتوں کادیاگیا ’’تحفہ‘‘ہے جسے قوم برداشت کررہی ہے۔ مئی کے الیکشن میںعوام نے مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ ملک میں امن وامان کاقیام یقینی بنائے گی۔پاکستان میں امریکی مداخلت کاخاتمہ ہوگااور ہماری اپنی آزاد خارجہ پالیسی ہوگی جس پر عمل پیرا ہوکر ترقی وخوشحالی کے راستے پر ملک گامزن ہوگا۔پوری قوم طالبان، حکومت مذاکراتی عمل کی پشت پر کھڑی ہے۔اب حکومت پاکستان کو’’مذاکراتی عمل‘‘کو تیزی سے آگے بڑھاکر ملک دشمن قوتوں کے عزائم کوناکام بناناہوگا۔پاکستان میں ’’دہشت گردی‘‘کے واقعات کا تعلق افغانستان میں امریکی ’’دہشت گردی‘‘ کے واقعات سے جڑاہوا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ پاکستان پر شمالی وزیرستان میں آپریشن پر زور دے رہاہے مگر پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے ہمیشہ احتیاط کا دامن تھامے رکھا اور اس کے مطالبے پر کان نہیں دھرا۔ایک ایسے وقت میں جبکہ طالبان سے حکومتی مذاکرات خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہے تھے کراچی اورایف سی کے23اہلکاروں کے افسوسناک اورروح فرسا واقعہ سے مذاکراتی عمل کو شدید دھچکا لگا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوسکیں گے؟ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سابق آرمی چیف کے حوالے سے قبائلی علاقوں میں ’’فوجی آپریشن‘‘ کی کامیابی کے40فیصد امکانات کے بیان سے اس کے متوقع نتائج کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ملک کے سنجیدہ سیاسی وقومی حلقے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن کی کامیابی کے امکانات روشن نہیں ہیں تو پھر آخر کیوں ایسی’’دلدل‘‘میںچھلانگ لگائی جارہی ہے جس سے دوبارہ واپس نکلانہیں جاسکتا۔ایف سی کے 23اہلکاروں کے بہیمانہ قتل کاواقعہ یقیناً افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ ایسے واقعات ’’امن عمل‘‘کیلئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔طاقت اور خونریزی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ طاقت سےکبھی غلبہ نہیں پایا جاتا ہمیشہ معاملات کا حل تدبر سے نکالاجاتا ہے۔بلوچستان میں بھی ایسی کارروائیوں سےخاطر خواہ نتائج نہیں نکلے بلکہ حالات مزید دگرگوں ہوئے۔سوات اور لال مسجدآپریشن بھی کسی سرخروئی کا سبب نہیںبنا۔سوات میں ابھی بھی ایک لاکھ فوج موجود ہے۔وہاں کے لوگوں کو آج تک امن نصیب نہیں ہوا۔ ان گنت لوگ ابھی بھی اپنے علاقوں میں واپس نہیں جاسکے۔ لال مسجد آپریشن میں ایسے دردناک مناظر سامنے آئے کہ پوری پاکستانی قوم دکھ اور کرب میں مبتلاہوگئی۔ ہمارے بعض ایسے ’’دانشور‘‘جواس وقت لال مسجد آپریشن کیلئے زمین وآسمان کے قلابے ملارہے تھے آج وہ پھرشمالی وزیرستان پر ’’چڑھائی‘‘ کا راگ آلاپ رہے ہیں۔ حالانکہ لال مسجدآپریشن بھی پاکستانی قوم کوغمگین کرگیا۔ اب قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کرکے کیا ہم ایک نئے خوفناک ’’منظرنامے‘‘ کو تشکیل نہیں دے رہے ’’آپریشن فوبیا‘‘ کاشکار چند دانشور اور مذاکرات مخالف قوتیں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔
وہ مذاکرات کوکامیاب ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ان کی دلی خواہش ہے کہ حکومت جلد از جلد مذاکرات کو ’’خیرباد‘‘کہہ کر قبائلی علاقوں پر چڑھ دوڑے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے۔تاریخ شاہد ہے کہ قبائلی علاقوں کو’’انگریز‘‘ فتح نہ کرسکے۔’’فوجی کارروائی‘‘سے امریکہ افغانستان اور عراق سے کچھ حاصل نہیں کرسکا۔برطانیہ اور سوویت یونین فوجی کارروائی کے ذریعے افغانستان کو’’زیرنگیں‘‘نہ کرسکے۔آخر ہم کیوں اپنے قبائلی علاقوں میں آپریشن کرکے مزید تباہی وبربادی کودعوت دے رہے ہیں؟قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی کامیابی اور ناکامی دونوں کافائدہ امریکہ اور بھارت کوہوگا۔پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو ملک کے وسیع ترمفاد میں کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہئے جس سے حالات سنبھلنے کی بجائے مزید خرابی کی طرف گامزن ہوں۔پاکستان کی قیادت کو موجودہ نازک اور کٹھن صورتحال میں صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔2014ء کا سال جنوبی ایشیاء کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ افغانستان سے امریکی ونیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظر ہمیں آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے۔ اگر ہم نے قبائلی علاقوں کو’’میدان جنگ‘‘بنالیا تو پورا ملک شدید بدامنی کی لپیٹ میں آسکتاہے۔کراچی اوربلوچستان میں پہلے ہی حالات خراب ہیں۔آخر کس کس جگہ پر ہم’’فوجی آپریشن‘‘کریں گے؟ قبائلی علاقوں کے ساتھ کراچی اور بلوچستان میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوگیا توپھرکیاہوگا؟کیااس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچاہے؟
واقفان حال کا کہنا ہے کہ امریکہ قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی میں’’فوجی آپریشن‘‘کا خواہاں ہے۔ اس کاایجنڈا ہے کہ پاکستانی فوج اورعوام کولڑایاجائے۔وہ چاہتا ہےکہ پاکستان’’افراتفری‘‘اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہے اور جب پورے ملک میں ’’کشیدگی‘‘عروج پر ہوتوپھریہاں جمہوریت کو ’’چلتا‘‘ کیا جائے۔ پاکستان کو بھی’’بنگلہ ماڈل‘‘بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔پاک فوج ہماراقابل قدر ادارہ ہے اسے کمزور کرنے کی بیرونی سازشیں کی جارہی ہیں۔جمہوریت آمریت سے ہزار ہا درجے بہتر ہوتی ہے۔بدترین جمہوریت میں بھی حالات کی بہتری کی صورت نظر آجاتی ہے۔ مگر آمریت ملک کو تاریکیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیتی ہے۔پاکستان کی سول قیادت کوماضی کے تجربات سے سیکھناچاہئے اور آمریت کی راہ ہموار نہیں کرنی چاہئے۔اگر اب بھی سیاسی قیادت نے فہم وفراست کاثبوت نہ دیا توفوجی بوٹوں کی ’’دھمک‘‘قریب سے آتی سنائی دے رہی ہے۔آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔
ہم نے ملک کو مضبوط ومستحکم کرنا ہے تو مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا ہوگا۔اب اس کے سواکوئی چارہ کار نہیں۔قبائلی علاقوں میں امن کی بحالی سے سول اور فوجی قیادت کو کراچی اور بلوچستان میں حالات کی بہتری کوموقع ملے گا۔یہ احمقانہ سوچ ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی محاذ کھول کر ملکی سلامتی اور وقار کو دائوپر لگادیا جائے؟امن مذاکرات میں ’’ڈیڈلاک‘‘ پیدا ہونافطری عمل ہے۔ 12سال سے جاری عالمی طاقتوں کی سازشوں کو قابوپانے میں کچھ وقت تو مزید لگے گا۔حکومت اور طالبان دونوں جانب سے صبروتحمل کا مظاہرہ ضروری ہے۔حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی کاکہناہے کہ دہشت گردی بند کی جائے تو مذاکرات کریں گے۔رستم شاہ مہمند کے مطابق آپریشن ہوا تو حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔اکوڑہ خٹک میں اجلاس کے بعد پروفیسر ابراہیم اور یوسف شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایاکہ عین وقت پر مذاکرات سے انکار پر افسوس ہوا۔اگر حکومت نے آپریشن کیا تو خونریزی بڑھے گی۔ مشاورت سے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔کیا’’فوجی آپریشن‘‘سے مسائل حل ہوجائیں گے؟پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کوقبائلی علاقوں کے حوالے سے کسی بھی بڑے اور اہم فیصلے سے قبل اس پر سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔موجودہ صورتحال پر خوب سوچ وبچار ہونا چاہئے کہ اگر آپریشن ناکام ہوگیا جس کی طرف پہلے سے ہی ’’اشارے‘‘ مل رہے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ امریکہ خطے میں بھارت کی ’’بالادستی‘‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔ تو پھر ہمیں آپریشن کی ایسی سعی لاحاصل کاکیا فائدہ؟یہ تو الٹا ہمارے لئے تباہ کن ہے۔
9فروری کے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں یہ اسٹوری شائع ہوئی ہے کہ پاکستانی حکومت صرف آپریشن مخالف قوتوں کو’’دکھانے‘‘کیلئے مذاکرات کاسلسلہ کررہی ہے۔ فروری کے آخریامارچ میں بالآخر قبائلی علاقوںمیں فوجی آپریشن کیاجائے گا۔اس خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کی کیاسوچ ہے اور انہوں نے پاکستان کیلئے کیا’’گیم پلان‘‘بنایا ہواہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ ہماری سول اور فوجی قیادت موجودہ چیلنجوںسے کس طرح عہدہ برا ہوتی ہے؟
تازہ ترین