• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے میں متعدد اہم واقعات رونما ہوئے۔ مہمند ایجنسی میں طالبان نے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے 23اہلکاروں کے گلے کاٹ کر شہید کرنے کی ہولناک ویڈیو جاری کر دی۔ حکومت نے حکومتی کمیٹی کو مذاکرات سے روک دیا۔ بدھ کی رات شمالی وزیرستان میں فضائی حملوں کی اطلاع ملی جس میں حکومتی ذرائع کے مطابق 40 کے قریب دہشت گرد مارے گئے۔ ریاست کے ردعمل کا اشارہ پاتے ہی طالبان کے ہمدردوں کی نیند اڑ گئی۔ سید منور حسن فرماتے ہیں کہ اگر ’’حکومت نے فوجی کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے تو وزیراعظم اس کا باقاعدہ اعلان کریں اور یہ بھی بتایا جائے کہ یہ فیصلہ کس نے کیا‘‘۔ ریاست اپنی عمل داری بحال کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ کسی بھی ریاستی اقدام کے لئے وزیراعظم کا باقاعدہ اعلان کیا کوئی آئینی تقاضا ہے؟ نیز یہ کہ کیا ایسے کسی اعلان کی صورت میں منور حسن حکومت کی تائید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ سید منور حسن حکومت اور فوج کو اس مخمصے میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری اٹھائی جائے یا نہیں۔ دوسری طرف مولانا سمیع الحق کے ترجمان نے ارشاد فرمایا کہ تحریک طالبان نے مولانا سمیع الحق کو جنگ بندی کا اختیار دے دیا ہے۔ یہ بھی خوب رہی۔ گلے کاٹنے کی خبر توطالبان ترجمان بنفس نفیس ذرائع ابلاغ کو دیں اور جنگ بندی کے اختیار کا اعلان اکوڑہ خٹک سے ارسال ہو۔ منور حسن اور سمیع الحق کے ارشادات کے تناظر میں پرویز رشید کا بیان ملاحظہ ہو۔ انہوں نے کھل کر سوال کیا ہے کہ قیدیوں کے گلے کاٹنا کس شریعت میں روا ہے۔ ایسا بہیمانہ سلوک تو بھارت نے بھی پاکستانی جنگی قیدیوں کے ساتھ نہیں کیا تھا۔پرویز رشید کے کلمہ حق سے غالب کے ہم عصر مفتی صدر الدین آزردہ یاد آ گئے۔
کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے
پاکستان اور بھارت دو باقاعدہ ریاستیں ہیںاور حالت جنگ میں بھی کچھ اصول ،ضابطوں کی پابند ہیں۔ طالبان کا تو وجود ہی دہشت کا مرہون منت ہے۔ یہ ایک بے جوڑ تصادم ہے جس میں مذاکرات اور جنگ بندی جیسے الفاظ استعمال کر کے ایک مجرم گروہ کو پاکستان کی قومی ریاست کے مساوی درجہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسے ایک مثال کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو پہلوانوں میں دنگل ہو رہا ہے۔ ایک پہلوان طاقتور ہے اور ایک ہی فیصلہ کن حملے میں حریف کو چت کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے میں کمزور پہلوان کی حکمت عملی قابل فہم ہے ۔ وہ کشتی کو طول دینا چاہتا ہے تاکہ طاقتور پہلوان تھک جائے ، زچ ہو جائے اور کسی کمزور لمحے میں اسے اچانک زیر کرنے کا موقع مل جائے۔ طالبان کمزور پہلوان کی حکمت عملی پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ خود طاقتور پہلوان کی دف میں ایسے خلیفے موجود ہیں جو اکھاڑے کے کنارے پر بیٹھ کرکمزور پہلوان کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ ثبوت اس کا یہ مطالبہ ہے کہ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں بھی آپریشن نہ کیا جائے۔ طالبان کے ہمدردوں نے اب تک ان سے کوئی ایک مطالبہ نہیں کیا۔ سب مطالبات پاکستان کی ریاست سے ہیں۔ سب تقاضے حکومت سے ہیں۔ جسے امن کی خواہش کہا جا رہا ہے اگر وہ امن قائم ہو جائے تو طالبان کے وجود کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست کے سامنے جنگ کا متبادل امن نہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ جنگ کا متبادل طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنا اور پاکستان کی ریاست انہیں سونپ دینا ہے۔ جنگ کا یہ متبادل سید منور حسن اور سمیع الحق کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے ، پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کے لئے یہ صورت حال ناقابل قبول ہی نہیں ، ناقابل تصور بھی ہے۔
ملکی اور غیر ملکی تجزیہ کاروں کی بڑی تعداد یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستان کی ریاست کو آخر طالبان کے ضمن میں اس قدر مصلحت آمیز رویہ اختیار کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ طالبان یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ریاست کے کسی مفروضہ داخلی یا خارجی مفاد کو آگے بڑھانے کا کیا ذکر، وہ تو پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ توقع بھی محل نظر ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی طالبان کسی صورت افغانستان میں 2001 ء سے پہلے کی صورت حال واپس لانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو افغانستان کی مفروضہ طالبانی تصویر پاکستان کے کس کام آ سکتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی خواہش مند ہے اور یہ خواہش غیر ریاستی عناصر کی موجودگی میں پوری نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں روز اول ہی سے جمہوری بندوبست ڈانواں ڈول رہا ہے۔ سیاسی عمل کی اسی پسماندگی سے غیر ریاستی عناصر کے نمونے نے جنم لیا۔ اس آکاس بیل کو نمو پانے کے لئے ناانصافی ، امتیازی قوانین اور محرومی جیسے ماحول کی ضرورت تھی۔ اگر طالبان کو ختم کرنا مقصود ہے تو پاکستان میں ناانصافی ، امتیاز ، معاشی محرومی اور معاشرتی گھٹن جیسے عوامل کو بھی ختم کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ طالبان سے خوفزدہ ہو نہ ہو ، اصطبل کی صفائی سے خوفزدہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے فیصلہ ساز پاکستان کو درپیش بحران کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ان پالیسیوں پر نظرثانی کے لئے تیار ہیں جوگزشتہ عشروں میں پاکستان کو تباہی کے موجودہ دہانے تک لے آئی ہیں۔
1942 ء کا برس تھا۔ ہٹلر قریب قریب پورے یورپ پر قابض ہو چکا تھا۔ روس میں اس کی فوجیں ماسکو کے دروازے پر کھڑی تھیں۔ یورپ میں برطانیہ نامی ایک چھوٹا سا جزیرہ مزاحمت کر رہا تھا۔ لاکھوں یورپی مہاجر مختلف راستوں سے امریکہ کا رخ کر رہے تھے۔ امریکہ جنگ میں داخل ہونے سے گریزاں تھا۔ اس زمانے میں ہالی ووڈ میں ایک فلم تیار کی گئی ’’کاسا بلانکا‘‘۔ یہ فلم 1942 کے سیاسی اور عسکری سوالات کی ٹھیک ٹھیک عکاسی کرتی ہے۔ فلم کے ایک منظر میں رِک (ہمفرے بوگارٹ) رات کی تنہائی میں اپنے کیفے میں بیٹھا شراب پی رہا ہے۔ اس کا ملازم گھڑی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اسے آرام کرنے کی تجویز دیتا ہے مگر خفیہ طور پر فرانسیسی مزاحمت کے حامی بوگارٹ کا ذہن ایک سوال میں الجھا ہوا ہے۔ وہ اپنے ملازم سے پوچھتا ہے۔
’’نیویارک میں کیا وقت ہوا ہے؟‘‘
اس کا مطلب یہ تھا کہ انسانیت کو درپیش اتنے بڑے سوال پر امریکہ کا فیصلہ کیا ہے؟ کیا امریکہ اس لڑائی میں شریک ہو گا یا دور کھڑا انسانیت کی تباہی کا تماشہ کرے گا؟ آج پاکستان کی سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں، تمدنی قوتوں اور دانشوروں سے یہ سوال کرنے کا وقت آگیا ہے کہ ’’اسلام آباد میں کیا وقت ہوا ہے‘‘؟
تازہ ترین