• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ سے پوچھا جائے کہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ خطرناک جرم کون سا ہے، تو یقیناً سب کا ایک ہی جواب ہوگا ’’دہشت گردی‘‘۔ مگر جناب! ٹھہرائیے۔ اپنے آپ کو اتنا لائق فائق سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ آپ کا جواب بالکل غلط ہے۔ دہشت گرد سو پچاس بندے پھڑکا دیں، کروڑوں کی املاک تباہ کردیں، کوئی خاص جرم نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ سب تو معمول بن چکا ہے۔ لہٰذا غیرمعمولی اور خطرناک ترین جرم یہ ہے کہ آپ پتنگ اڑاتے ہوئے پکڑے جائیں، چند دن ہوئے گوجرانوالہ سے ایک جاننے والے نے فون کیا کہ اس کا دس سالہ چوتھی جماعت کا طالب علم بیٹا پتنگ بازی کے جرم میں حوالات میں بند ہے، کسی کو کہہ سن کر گلوخلاصی کروا دیں۔ یہ بھی بتایا کہ وہ پتنگ اڑا نہیں رہا تھا۔ آٹھ، دس فٹ ڈور سے بندھی پتنگ لے کر گھر سے نکلا ہی تھا کہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ تفصیلات سامنے آئیں تو انکشاف ہوا کہ اس ہولناک جرم میں 29افراد پکڑے گئے تھے جن میں پرائمری اسکول کے چار بچے بھی شامل تھے۔ عدالت نے بچوں کو تو ضمانت پر رہا کردیا ہے اور بڑوں کو جیل بھجوا دیا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ پولیس سربراہ کی ہدایت پر شہر کی پولیس نے پتنگ بازی جیسے قبیح جرم کے خلاف مہم میں رات دن ایک کر رکھا ہے۔ چھاپوں پر چھاپے پڑ رہے ہیں، اور پولیس فورس کے شیر جوان 1135پتنگیں اور ڈور کی 35عدد ریلیں ضبط کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ماتحتوں کی اس شاندار کاکردگی پر پولیس سربراہ پھولے نہیں سما رہے تھے اور زیادہ سے زیادہ پتنگیں اور ڈور کے رول قابو کرنے والے ایس۔ایچ۔او صاحبان کو تعریفی سرٹیفکیٹ ہی نہیں نقد انعامات سے بھی نوازا گیا۔ شاید ایک آدھ تو کسی بڑے قومی اعزازکا مستحق بھی ٹھہرے۔ کیونکہ کارنامہ ہی بہت بڑا ہے۔ دہائی خدا کی، پتنگ بازی جیسا سنگین جرم اور وہ بھی سرعام۔
ہم بھی نہ جانے کس دنیا میں رہتے ہیں۔ لوگ آگے کی طرف جارہے ہیں اور ہمارا منہ پیچھے کی جانب ہے۔ یہ بسنت اور پتنگ بازی جو کبھی برصغیر کا طرہ امتیاز ہوا کرتی تھی، اب پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ اور اب اس کے شائقین امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس سمیت پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں، 16؍فروری کو سان فرانسیسکو میں ہونے والی بسنت اور پتنگ بازی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، قریبی شہروں سے بھی شائقین امڈے چلے آئے تھے، ہزاروںکا مجمع تھا اور لوگوں نے دل کھول کر ہلا گلہ کیا۔ نہ جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ تہوار اور میلے ٹھیلے کسی بھی کلچر کا حصہ ہوتے ہیں۔ جن میں شامل ہوکر لوگ اپنے دکھوں، دردوں اور محرومیوں سے وقتی طور پر آزاد ہوجاتے ہیں۔ جہاں ہر کوئی اپنے اپنے پریشر ککر پر سے کچھ لمحوں کے لئے ’’ویٹ‘‘ اٹھا دیتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند برس پہلے تک پنجاب بالخصوص لاہور کی بسنت نے عالمگیر شہرت حاصل کرلی تھی۔ شہر کے تمام بڑے ہوٹل اور ان کی چھتیں مہینوں پہلے بک ہوجاتی تھیں۔ اندرون شہر یوسف صلاح الدین کی تاریخی حویلی میں ہونے والی تقریب مقامی مہمانوں کے لئے ہی نہیں، غیرملکیوں کے لئے بھی ایک یادگار تجربہ ہوا کرتی تھی۔ راقم نے متعدد غیرملکی سفارت کاروں کی زبانی اس تقریب کی ستائش سنی ہے۔
سات برس پہلے بسنت پر پابندی لگی تو وجہ یہ بتائی گئی کہ پتنگ اڑانے کے لئے سوتی ڈور کی بجائے دھاتی تار استعمال ہونے لگی ہے، جو گلا کاٹ دیتی ہے۔ بے شک یہ بہت خطرناک بات تھی۔ اس کی وجہ سے گزشتہ سات برس میں چودہ اموات بھی ہوئیں، جو بے حد افسوسناک ہیں۔ مگر اس کا حل پتنگ اڑانے پر پابندی نہیں دھاتی ڈور بنانے والوں کو نشانہ عبرت بنانے میں مضمر تھا۔ مگر اتنا تردد کون کرتا؟ سو آسان راستہ ڈھونڈھ نکالا۔ پتنگ اڑانے پر ہی پابندی عائد کردی جائے، نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسریا۔ مگر اس پابندی سے لاہوریے، خاص طور پر اندرون شہر والے بہت دکھی ہیں، اور ان کا یہ گلہ بھی درست ہے کہ دھاتی ڈور کے تمام حادثات شہر کی بڑی سڑکوں پر موٹر سائیکل سواروں کو پیش آئے ہیں، اندرون شہر تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تو پھر انہیں بسنت سے محروم کیوں کیا گیا؟ بھاٹی دروازہ کے جم پل بابا فضل گزرے وقتوں کی بسنت اور اس کی رونقوں کو یاد کرکے آبدیدہ ہوگئے۔ کہنے لگے، بائوجی! ہم بسنت کا انتظار پورا سال کیا کرتے تھے اور اسے تہواروں کا دروازہ کہا جاتا تھا، کیونکہ اس کے بعد میلوں کا سیزن شروع ہوجاتا تھا۔ میلہ چراغاں بسنت کے ساتھ جڑا ہوتا تھا۔ باغبانپورہ میں حضرت شاہ حسین کے مزار پر لگنے والا یہ میلہ کسی زمانے میں شالامار باغ کے اندر بھی لگا کرتا تھا۔ پھر ہارس اینڈ کیٹل شو شروع ہوجاتا تھا۔ جس پر پنجاب کی پوری حکومت اپنی سب توانائیاں صرف کردیتی تھی اور اس کی رونقیں ہفتوں چلتیں۔ باب فضل ٹھنڈی سانس بھر کر بولے، کیا زمانے ہوتے تھے جی، لاہورئے چھ مہینے گھروں میں اور چھ مہینے میلوں ٹھیلوں میں گزار دیتے تھے۔ باباجی یکایک چپ ہوگئے۔ سر نیہوڑ لیا، گویا کہ ماضی کی حسین یادوں میں الجھ گئے ہوں۔ دفعتاً سر اٹھایا اور بولے، بائوجی، ایک بات بتائیں، اگر کوئی خدانخواستہ گاڑی کے نیچے آکر مرجائے، تو کیا شہر بھر کی گاڑیوں پر پابندی لگادی جائے گی کہ وہ سڑک پر نہیں آسکتیں؟
سیاست میں کیسے رہیں گے؟ اس بارے میں تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ البتہ کلچر کی حد تک تو بلاول بھٹو بازی لے گئے۔ یکم سے لے کر 15؍فروری تک پورے سندھ میں کلچر کا وہ گھڑ مس مچا کہ نگاہوں کو خیرہ کر گیا، بلاول اور بختاور کے لئے امکانات کے نئے در بھی وا ہوتے ہوئے دکھائی دئیے۔ خدانخواستہ سیاست میں نہ بھی جم سکے، ماڈلنگ میں تو ضرور کامران ٹھہریں گے۔ تقریبات ساری اچھی تھیں۔ البتہ اس کا اہتمام ضرور کیا گیا کہ غریب غرباء کو ان سے ذرا دور ہی رکھا جائے۔ شام غزل کا ٹکٹ دس، آٹھ اور چھ ہزار کا تھا۔ جو عام سندھی مہینے میں بھی نہیں کماتا۔ 8/9؍فروری کو ساحل سمندر پر منائی جانے والی بسنت میں ہاتھ البتہ قدرے ہولا رکھا گیا۔ ایک پلس یہ بھی کہ حمزہ شریف سوچ بچار ہی کرتے رہتے رہے اور بلاول نے بسنت کا اہتمام کر ڈالا۔ دونوں روز کراچی کے ساحل پر ہر طرف رنگ برنگی پتنگوں کی بہار تھی۔ لوگ اپنی پتنگیں بھی لائے تھے۔ جو نہ لاسکے انہیں موقع پر ڈور سمیت مفت فراہم کی گئیں۔ ہر طرف بو کاٹا کی پکار اور فریحہ پرویز کے امر گیت ’’دل ہوا بو کاٹا‘‘ کی جھنکار، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ کراچی والوں نے جی بھر پتنگیں اڑائیں اور کاٹیں اور بسنت بہار سے لطف اندوز ہوتے رہے، سندھ کی دیکھا دیکھی پنجاب والوں کو بھی انگیخت ہوئی۔ اور چھانگا مانگا کے جنگل میں پورے دو ہفتوں 21؍فروری تا 5؍مارچ) کے بسنت میلے کا اعلان ہی نہیں، باقاعدہ سرکاری نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا۔ قصور کے ڈی سی او کو انتظامات کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی۔ریلوے والے بھی الرٹ تھے، پھر یکایک نہ جانے کیا ہوا کہ شہر سے کوسوں دور چھانگا مانگا کے جنگل میں بھی بسنت کا رسک لینے کی ہمت نہ ہوئی اور تمام سرکاری حکم نامے، منصوبہ بندیاں اور انتظامی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔
آپ بسنت منائیں یا نہ منائیں، امیتابھ بچن نے تو منا بھی لی، اور منائی بھی بڑے انوکھے انداز سے۔ ان کی پوتی یعنی ابھیشک اور ایشوریا کی بیٹی ارادھیا دو برس کی ہوچکی ہے۔ چنانچہ 4؍فروری کو بسنت پنچھی کے دن ان کے گھر پر سرسوتی پوجا کا اہتمام کیا گیا۔ ہندو متھالوجی میں سرسوتی علم کی دیوی کا نام ہے۔ صبح ہی صبح ایک بہت ہی پرائیویٹ قسم کے فنکشن میں، جس میں ان کے پریوار اور ملازمین کے سوا کوئی نہیں تھا، امیتابھ جی نے ننھی پوتی کو سلیٹ اور چاک کا ایک ٹکڑا گفٹ کیا۔ سب نے تالیاں بجائیں اور مبارک باد دی۔ یوں اس شبھ گھڑی ننھی ارادھیا کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس موقع پر امیتابھ جی نے اپنے بلاگ پر لکھا۔ ’’بچہ دو برس کا ہوجائے تو اسے لکھنے پڑھنے کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ یہ ہماری تہذیب بھی ہے اور روایت بھی اور بہت خوبصورت بھی ہے۔ ارادھیا نے بھی کمال کردیا، فوراً چاک کا ٹکڑا اٹھایا اور سلیٹ پر الٹی سیدھی لکیریں ڈالنا شروع کردیں‘‘۔
تازہ ترین