• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ ٹھوکریں تو کھا، چمک اٹھیں گی منزلیں
پائے طلب کو فکر سلامت روی نہیں
کل تجھ سے چھوٹنے کی خبر ہو رہے گی راز
لیکن یہ بات آج کسی سے چھپی نہیں
فراق گورکھپوری کے یہ اشعار آج طالبان سے مذاکرات کی کیفیت کے حوالے سے حسب حال لگے سوچا قارئین کی نذر کردوں۔ مذاکرات جب شروع ہی ہوئے تھے تو عقلمند لوگوں اور تجزیہ نگاروں کے اس پر کافی تحفظات دیئے پھر ٹیمیں بنائی گئیں۔ طالبان نے اپنی طرف سے ہمارے ہی لوگوںکو نامزد کرکے ان کے ڈھکے ہوئے چہروں سے پردہ اٹھا دیا۔ میاں صاحب نے بھی جس طرح کی ٹیم کی تشکیل دی اور پھر اس کا اعلان کیا اور ٹیم کے ایک ممبر کو اپنا مشیر خاص بھی ایک دو روز قبل نامزد کیا تو اس سے میاں صاحب کے ذہن اور سوچ کی عکاسی بھی عوام الناس ، میڈیا اور تجزیہ نگاروں کے علم میں آگئی، کچھ لوگوں نے تو دونوں ٹیموں کو ایک ہی پیج پر پایااوریہاںتک کہہ ڈالا کہ طالبان کے طالبان سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔کچھ تجزیہ نگار تو یہاں تک آگے نکل گئے کہ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب کے دل میں عرصہ دراز سے چھپی ہوئی خواہش اب برسرعام آگئی ہے اورکسی بھی لمحے مذاکراتی عمل کو تیز کرکے فوری طور پر شریعت کے نفاذ پر دونوں ٹیمیں متفق ہوجائیں گی اور اس طرح شریعت کا نظام نافذ العمل ہو جائے گا اورطالبان کا دیرینہ مطالبہ اورمیاں صاحب کی خفیہ خواہش پوری ہوجائے گی۔ اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی، جتنے منہ اتنی باتیں لوگوں نے مذاکرات کے عمل کی تنقید اور تائید بڑے کھلے انداز میں الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں کی۔ ظاہری طور پر تو مذاکرات کا عمل ابھی بھی رکا نہیں بس اس میں کچھ سستی آئی ہے۔ طالبان کے ہاتھوں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے افراد کا بے دردی سے قتل ساری دنیا کے لئے قابل مذمت ہے۔ جنگوں کے دوران بھی لڑنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ جنگی قیدیوں کی رہائش اور خوراک کا مناسب بندوبست کیا جاتا ہے اور بیماری یا زخم کی صورت میں ماہر معالج کے پاس لایا جاتا۔ جو دیکھنے میں آرہا ہے وہ تو بالکل ہی عجیب ہے۔ ہٹلر کا دور واپس لایا جارہا ہے یا کم از کم اس کی یاد تازہ کی جارہی ہے جہاں لوگوں کو گیس کے ذریعے مار دیا جاتا تھا۔ یہاں تو اس سے بھی زیادہ بربریت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ گلے کاٹ کر ذبح کیا گیا ہے۔ کتنے ظلم کی بات ہے اور اگر یہ سچ ہے تو کتنا گھنائونا جرم اور غیراسلامی اور غیر اخلاقی سلوک ہے اب اس کے ردعمل کے طور پر پاک فوج نے بھی اپنے فرائض کی بجا آوری کی ہے اور 43 کے قریب لوگوں کو ان کے منتقی انجام تک پہنچایا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ دونوں طرف مرنے والے کلمہ گو ہیں اورمسلمان کہلاتے ہیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے والے پہلے اپنے عمل سے شریعت کی پابندی تو دکھائیں۔کیا اسلامی شریعت میں جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔پروفیسرابراہیم صاحب ایک ٹی وی پروگرام میں فرما رہے تھے کہ شریعت کے مطابق بوری میں بند کرکے بھی نہیں پھینکا جاتا۔ بجائے معاملات کی مذمت کرنے کے ان کے درست ہونے کا جواز پیش کیا جارہا ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے۔ میری تو اب بھی دعا ہے کہ خدا فریقین پر اپنا رحم اور کرم کرے۔ مذاکرات کا عمل جاری رہے۔ جنگ بندی ہو۔ انسانی جانوں اور مال کا زیاں رک جائے۔ بے گناہ لوگ لقمہ اجل بننے سے بچ جائیں اور امن کی میز پر بیٹھ کر دونوں فریقین اپنے معاملات خوش اسلوبی سےحل کرلیں۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہے مگر کسی کام کی کامیابی کا دارومدار اسےکرنے والے کی نیت پر ہوتا ہے۔ اگر نیتوں میں فتور ہے تو پھر کامیابی بہت دور ہے۔اگر نیت صاف ہے تو اللہ پاک مدد کرے گا اور مسائل کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا اور اس طرح جانوں کا زیاں رک جائے گا۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں امن کی طرف قدم بڑھائیں، فوری جنگ بندی کی جائے۔اس مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے۔ جنگ میں نہیں۔ جنگ سے عارضی امن قائم ہو جائے گا۔ ایک دوسرے سے لاشوں کے بدلے تو لے لئے جائیں گے مگر مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں نکلے گا۔ مجموعی طور پر اہل علم اور سنجیدہ طبقے نے اس تمام صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اورکافی فکرمندہیں۔عام آدمی فوج کی کارروائی سے بہت خوش ہے اور فوج کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلا رہا ہے۔ عام آدمی کی سوچ بدلہ لینے کی ہوتی ہے اور محاورہ مشہور ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو ! اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں فریقین کے ارباب اختیار نقارہ خدا پر چلتے ہیں یا خدا کے احکامات پر۔
آج جنرل پرویز مشرف کے مقدمے میں مقدمے کو فوجی عدالت میں ٹرانسفر کرنے کی درخواست کا فیصلہ بھی ہوگیا اور آئندہ چارج فریم کرنے کی تاریخ کا بھی اعلان ہوگیا۔ اس دوران کافی دن ہیں اور مشرف کے وکلا سپریم کورٹ سے اس فیصلے کے خلاف رجوع کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ایک دوسری درخواست پر بھی فیصلہ آنا باقی ہے۔ وہ عدالت کے ججوں پراعتراضات ہیں۔ دیکھئے کیسا فیصلہ آتا ہے۔ چونکہ فیصلہ محفوظ ہے اس لئے میں اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتا ہوں حالانکہ آج کل بعض اینکر حضرات جن کا قانون سے دور کا بھی واسطہ نہیں وہ عدالتی فیصلوں پر نہ صرف تبصرے کر رہے ہوتے ہیں بلکہ خود اپنے فیصلے بھی سنارہے ہوتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے اور اس سارے معاملے کو گزشتہ دور میں ہوا دی گئی۔چوہدری صاحب نے اس طرح کے اقدامات کےخلاف کوئی نوٹس نہیں لیااور لوگوں کے حوصلے کھلتے گئے اور اب ان کو واپس کرنا خاصہ مشکل کام ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ کسی بھی کیس کی سماعت سے قبل ہی بیرون عدالت اس کی سماعت شروع ہوجاتی ہے اور فیصلے بھی سنائے جانے لگتے ہیں۔ اس عمل کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے کیونکہ اس طرح فریقین کے کیس کے متاثر ہونے کا خدشہ ہوسکتا ہے، اس موقع پر مرزا غالب کا شعر قارئین کا نذر کرتا ہوں۔
ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے
تازہ ترین