• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1964ء میں ایوب کے دور میں روسی وزیراعظم آنجہانی خردشیف نے پاکستان کے حالات پر طنزیہ کہا تھا کہ ہم سوشلسٹ اللہ کو نہیں مانتے مگر پاکستان کا نظام اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے۔ ہماری نئی نسل کیلئے اطلاعاً عرض ہے وہ دور پاکستان کی تاریخ کا سنہرا دور کہلاتا تھا کہ 1965ء کی جنگ میں پاکستان نے اپنے سے دس گنا بڑے بھارت کو تنہا شکست دی کر اسےناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ اس وقت ہماری معیشت کے استحکام کااندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہمارے روپے کی قیمت بھارت سے20 فیصد زیادہ تھی ہم کسی کے مقروض بھی نہیں تھے۔ ڈالر پونے 5 روپے میں ملتا تھا۔ہم بنک،انشورنس میں پورے ایشیاء میں سب سے آگے تھے۔ ہماری قومی ایئرلائن کا شمار دنیا کی جدید ترین ایئرلائنوں میں ہوتا تھا۔ ہماری تعلیمی درسگاہوں میں عرب شہزادوں کے علاوہ دور دور سے نوجوان تعلیم حاصل کرنے آتے تھے،ہم نے برس ہا برس عرب ممالک کی فوجوں کو جدیدتربیت سے آراستہ کیا۔ پاکستان پورے خطے میں پُرامن ملک سمجھا جاتا تھا مگر آج ہم ماضی سے موازنہ کریں تو من حیث القوم رجعت قہقری سے دوچارہیں۔ ہم پر طرح طرح کی پابندیاں اور لیبل لگ چکے ہیں۔ بیرونی ملکوں سے سیاح تو کجا ان کی فضائی پروازیں تک ہمارے ملک میں نہیں آتیں جبکہ اس زمانے میں کراچی ،یورپ اور ایشیاء کو ملانے والا واحد ہوائی اڈہ تھا۔ امریکہ، جاپان، چین، سنگاپور سمیت عرب ممالک کیلئے کراچی کا ہوائی اڈہ لازم وملزوم ہوتا تھا۔ ہمیں اس طرح تنہا کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ بھارت کا ہے جسے ہم نے 1965 ء کی جنگ میں شکست دی تھی۔ اب وہی بھارت ہم سے بدترین بدلہ لے رہا ہے اور وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی طرز پر پاکستان کے مزید ٹکڑے کرنے کے درپے ہے۔ میں نے دو ہفتے پہلے بھی اپنے کالم میں نشاندہی کی تھی۔ اگر پاکستان میں امن اور خوشحالی چاہئے تو ہماری حکومت کو ایسی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ بھارت کی طرف خود پہل کر کے خلوص ِ دل سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے ورنہ ہمارا ملک بھارتی دشمنی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا۔ اس کی وجہ ہمارے اندر ضمیر فروش عناصر ہیں جو خود ہمارے ہی ملک میں رہتے ہیں اس لئے اسے باہر سے دشمن تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ۔
آج میں جس مسئلے کی طرف قوم اور حکومت کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ کرکٹ کی نئی سیاسی چال ہے ۔بگ تھری کی ریس میں ہمارے بورڈ کے چیئرمین جو تازہ تازہ عدلیہ سے بحال ہوئے تھے جلد بازی میں بھارتی چالوں کو نہ سمجھ سکے اور جنوبی افریقہ جس نے خود بھارت سے پنگا لیا تھا آخر وقت میں جب بھارت ہمارے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا تھا ہم نے نہ جانے کیوں انا کا مسئلہ بنا کر اس کو پھر اپنا مخالف بنا لیا جبکہ خود جنوبی افریقہ نے بھارت کا ساتھ دے کر پاکستان کو بالکل تنہا کر دیا صرف سری لنکا پاکستان دوستی میں وہ بھی تنہا رہ گیا ۔ آج تک یہ بات سمجھ سے بالا ہے ہر دور میں صدر ِ پاکستان جو کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف ہوتے ہیں کیوں اس عام کھیل کو جو پاکستانی قوم کے خون میں رچا بسا ہے اپنے دوستوں کو نوازنے میں پیچھے نہیں رہتے ۔ مرحوم ضیاء الحق صاحب نے اپنے جنرل توقیر ضیاء کو بورڈ کا سربراہ بنایا تو صدر پرویز مشرف نے اپنے امریکی پاکستانی نژاد دوست نسیم اشرف کو ، تو پاکستان پیپلزپارٹی نے اعجاز بٹ اور پھر ذکاء اشرف کو، اب نواز شریف صاحب نے بھی کچھ ایساہی کیا ہے ۔ آخر ہم اپنے بڑے بڑے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو جنہوں نے پاکستان کا جھنڈا دنیائے کرکٹ سے تعلق رکھنے والے ممالک میں نہ صرف لہرایا بلکہ ابتدائی دور میں ہی تمام کرکٹ کے جغادریوں کو انہی کی سر زمین پر شکست سے دوچار کر کے اپنا لوہا منوایا، نظر انداز کر کے اور انہیں ماضی کے اندھیروں میں ڈال کر کیوں بھول گئے اور ہم نے اور اپنے نان پروفیشنل بہی خوائوں کے ہاتھوں کرکٹ کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ۔ ہم نے طرح طرح کے تجربے کر کے، اچھےکھلاڑیوں کا حق مار مار کر اور اپنے اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو بار بار آزما کر قوم کی دکھتی رگ پر تابڑ توڑ تجربات کئے۔ جس میں ہمارے بعض کھلاڑی اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے جوا کھیل کر پاکستان کا نام بدنام کرنے سے بھی باز نہیں آئے۔ تقریباً ہر کھلاڑی اس کی زد میں ضرور نظر آیا ۔ اگرچہ بھارت کے اس نئے اسکینڈل جو موجودہ کپتان دھونی اور اس کا ساتھ دینے والے چوٹی کے کھلاڑی سامنے آ چکے ہیں مگر آئی سی سی کیوں خاموش ہے۔ اس کی وجہ بھی صاف ہے، بھارت خود اس کی صدارت لے چکا ہے جس کا داماد آئی پی ایل کے سٹوں میں پوری طرح ملوث ہے۔ کوئی بھارت کا یا اس کے کھلاڑیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ بہرحال اب بھی ہم کو بھارت کے بگ تھری کے معاملے میں عقلمندی کا ثبوت دینا پڑے گا ۔وہ یہ ہے کہ دیگر 8ممالک کی طرح اپنے مستقبل کو بچا کر ساتھ دے کر پاکستانی کھلاڑیوں کو کرکٹ کے میدان سے دور نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر آج پاکستانی عوام اپنے اسٹیڈیم میں میچ نہیں دیکھ سکتے اور باہر کے ممالک سے ٹی وی کے ذریعے دیکھتے ہیں تو خدانخواستہ کل ہم پر سیکورٹی رِسک کا بہانہ بنا کر آئی پی ایل کی طرح ہمارے کرکٹرز کو ہی کھیل سے دور کروا دیں۔ ویسے بھی بھارت کے چہیتے بنگلہ دیش کی بھی دلی خواہش ہے کہ پاکستان کو کرکٹ کے میدان سے بھی باہر کر دیا جائے۔ ہمیں امید ہے کہ نجم سیٹھی صاحب بہت بردبار شخصیت ہیں وہ پاکستان کا وقار بحال کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ میرا ان کو ذاتی مشورہ ہے کہ وہ بھارت کی طرح آئی پی ایل کی طرز پر پی پی ایل کھیلوں کا آغاز کریں ۔ بے شک اس میں ابتداء میں پاکستانی ٹیمیں کھیلیں گی۔ کم از کم 18کروڑ پاکستانی اپنے اپنے شہروں میں اسٹیڈیم آباد کر کے دوبارہ اپنے کھلاڑیوں کے حوصلے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ شوق بھی پورا کر لیں گے۔ ہمارے سرکاری اور نجی کاروباری شعبے اس حب الوطنی میں پاکستانی کرکٹ بورڈ کا بھرپور ساتھ دیںگے اور پاکستان میں کرکٹ کو زندہ رکھیں گے۔
تازہ ترین