• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت نے یہ ثابت کیا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ کاروبار کو فروغ دینے کیلئے ایسی پالیسیاں مرتب کرنا ہے جن سے ملک میں سرمایہ کاری و صنعت کو فروغ حاصل ہو، ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں اور معیشت ترقی کرے۔ پوری دنیا نے اداروں و صنعتوں کو قومیانے کے عمل کو نجکاری کے ذریعے ختم کرکے قومیائی جانے والی صنعتوں اور اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جس کے حوصلہ افزاء نتائج دیکھنے میں آئے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں قومیائے جانے والے زیادہ تر ادارے حکومتی دخل اندازی، کرپشن، اضافی بھرتیوں، اقرباء پروری اور میرٹ کے خلاف تعینات کئے گئے سربراہان کی وجہ سے آج خسارے کا شکار ہیں جنہیں چلانے کیلئے حکومتیں طویل عرصے سے ان اداروں میں عوام کے ٹیکسوں کے 500 ارب روپے سالانہ جھونک رہی ہے جس کے غریب عوام کسی طرح بھی متحمل نہیں ۔
گزشتہ دنوں کراچی میں اکیسویں صدی بزنس اینڈ اکنامک کلب کے صدر صلاح الدین حیدرنے نجکاری کے حوالے سے وزیر مملکت برائے نجکاری محمد زبیر کے ساتھ کارپوریٹ اداروں کے سربراہوں کی ایک اہم مذاکراتی نشست منعقد کی جس میں کلب کے تھنک ٹینک کے چیئرمین کی حیثیت سے میرے علاوہ عارف حبیب، طارق رفیع، میاں محمد عبداللہ، حسین لوائی، رفیق دائود، علائو الدین فرشتہ، سعد امان اللہ، میاں پرویز اختر کے علاوہ دیگر ممتاز بزنس مینوں نے شرکت کی اور نجکاری کے عمل کو کامیاب بنانے کے لئے وزیر نجکاری کو اپنی سفارشات پیش کیں۔ وزیر نجکاری نے بتایا کہ اسٹیل مل کی موجودہ پیداوار صرف 3% ہے جس کے باعث اسٹیل مل کو روزانہ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے جس کا واحد حل ادارے کی نجکاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نجکاری کے لئے اُن کے سامنے ایک طرف ملائیشیا کی کامیاب مثال ہے جس کے تحت نقصان میں چلنے والے اداروں کی پہلے مرحلے میں تنظیم نو کرنا اور پھر ان کی کارکردگی بہتر بنا کر نجکاری میں دینا ہے۔ وزیر نجکاری نے بتایا کہ پاکستان بزنس کونسل نے بھی نجکاری کے لئے اسی طرح کا نمونہ پیش کیا ہے جس میں نقصان میں چلنے والے اداروں کی ری تنظیم نو کے لئے مکمل اختیارات کے ساتھ ایک خود مختار سیل قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے لیکن پاکستان کے حالات اور کلچر میں ان اداروں کی تنظیم نو یا رائٹ سائزنگ ایک طویل المدت عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کارکنوں کی چھانٹی کے لئے رضاکارانہ اسکیم، گولڈن ہینڈ شیک اور فارغ ملازمین کو معاہدے پر دوبارہ ملازمین رکھنے جیسی اسکیمیں شامل ہیں۔ وزیر نجکاری کے مطابق ایک بینک کی نجکاری کے وقت ادارے کے 26 ہزار ملازمین جن میں زیادہ تر نااہل تھے، کو کم کرکے 13 ہزار تک کردیا گیا تھا لیکن بینک کی ترقی اور منافع کی بدولت آج اس ادارے میں 30 ہزار سے زائد اہل اور تجربہ کار ملازمین کام کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے اپنے حالیہ قرضے کے معاہدے میں ملک کے پبلک سیکٹر کے65 اداروں (PSEs) میں سے 31 اداروں کے 26% حصص انتظامی حقوق کے ساتھ نجکاری کرکے نئی انتظامیہ کو منتقل کرنے کی شرط رکھی ہے جن میں او جی ڈی سی، پی پی ایل، مری گیس، پاک عرب ریفائنری، پاکستان اسٹیل مل، سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیز، پی آئی اے کا نیویارک میں قائم روزویلٹ ہوٹل، پاکستان ریلوے، واپڈا کی بجلی کی تقسیم کار کمپنی، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، فنانشل سیکٹر میں نیشنل بینک، فرسٹ وویمن بینک، نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ، این آئی سی ایل، اسٹیٹ لائف انشورنس، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، سول ایوی ایشن اتھارٹی، کے پی ٹی، پورٹ قاسم اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی شامل ہیں جبکہ پی آئی اے کے 26% حصص کی انتظامی حقوق کے ساتھ نجکاری کی منظوری پہلے ہی دی جاچکی ہے۔
مذاکراتی سیشن کے اگلے روز میں نے وزیر مملکت برائے نجکاری محمد زبیر کو اپنی رہائش گاہ پر ظہرانے پر مدعو کیا۔ اس موقع پر انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ نجکاری کے لئے حکومت نے 4 اصول وضح کئے ہیں جن میں شفافیت، نجکاری میں دیئے جانے والے اداروں کی مانیٹرنگ اور ریگولیٹری فریم ورک، مصنوعات اور خدمات کی بہتر فراہمی اور ملازمین کے روزگار کا تحفظ شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کو اس وقت فنڈ کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے اُنہیں نجکاری سے 30 جون 2014ء تک 150 ارب روپے حاصل کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ وزیر نجکاری نے بتایا کہ او جی ڈی سی کے لندن اسٹاک ایکسچینج میں حصص فروخت کرنے سے حکومت کو تقریباً 100 ارب روپے حاصل ہوں گے، اسی طرح پاکستانی اسٹاک ایکسچینج میں پی پی ایل کے حصص فروخت کرنے سے 10 ارب روپے جبکہ یو بی ایل اور حبیب بینک کے حصص کی فروخت سے 40 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔ وزیر نجکاری کے مطابق ملکی اسٹاک ایکسچینج میں اس وقت حکومتی لسٹڈ کمپنیوں کی مالیت تقریباً 18 ارب ڈالر اور غیر لسٹڈ کمپنیوں کی مالیت 12 ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹائزیشن سے حاصل ہونے والے فنڈ کے علاوہ حکومت جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ، ترسیلات زر اور ایکسپورٹ کو فروغ دے کر مطلوبہ فنڈ حاصل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
پاکستان میں اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا عمل 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع کیا گیا لیکن 22 جنوری 1991ء میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول کی خاطر نجکاری کا عمل شروع کیا جس کے بعد بے نظیر بھٹو اور شوکت عزیز کے دور حکومت میں بھی اداروں کی عملی طور پر نجکاری دیکھنے میں آئی جن میں اتفاق گروپ کی قومیائی جانے والی صنعتیں میاں نواز شریف کو واپس کیا جانا بھی شامل تھا جبکہ اِسی دور میں مسلم کمرشل بینک کو نجی شعبے میں دے کر بینک کے انتظامی حقوق ایک معروف گروپ کو دے دیئے گئے۔ 1993ء میں بے نظیر بھٹو نے نجکاری کے دوسرے مرحلے میں فنانشل، ٹیلی کمیونی کیشن، تھرمل پاور اور آئل اینڈ گیس سیکٹرز کے اداروں کی نجکاری کی جبکہ شوکت عزیز دور میں ملک کے سب سے بڑے بینک کی نجکاری کرکے اسے پرنس کریم آغا خان کی ہولڈنگ کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔ اسی طرح یو بی ایل، ابوظبی گروپ اور پاکستانی نژاد برطانوی بزنس مین سر پرویز کے بیسٹ وے گروپ کو دے دیا گیا۔ بے نظیر دور میں ہی کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کر کے پہلے اسے سعودی الجمیمہ گروپ اور پھر اماراتی ابراج گروپ کے حوالے کردیا گیا۔ اس دور میں مجموعی طور پر 115 یونٹوں کی نجکاری کی گئی تاہم شوکت عزیز دور میں اسٹیل ملز کی نجکاری کے معاہدے کو سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد نجکاری کے عمل کو دھچکا پہنچا جس کے باعث نجکاری کا عمل جمود کا شکار ہوگیا لیکن اس کے باوجود شوکت عزیز نے 2005ء میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن (PTCL) جیسے بڑے ادارے کی نجکاری کرکے ادارے کے انتظامی حقوق امارتی کمپنی اتصلات کے حوالے کردیئے۔
پاکستان میں سرکاری اداروں کی نجکاری کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجکاری کے بعد جن اداروں کو پروفیشنل مینجمنٹ کے حوالے کیا گیا، کرپشن اور حکومتی مداخلت نہ ہونے کے باعث ان اداروں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مثلاً تین بینک خسارے میں چلنے والے وہ ادارے تھے جنہیں چلانے کیلئے حکومت ان اداروں میں ہر سال اربوں روپے جھونک رہی تھی لیکن نجکاری کے بعد آج یہ ادارے پروفیشنل مینجمنٹ کے زیر نگرانی رائٹ سائزنگ اور ری اسٹرکچرنگ کرکے نہ صرف اربوں روپے کا منافع کمارہے ہیں بلکہ حکومت کو خطیر ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ گزشتہ 23 سالوں میں بہت سے اہم، حساس، قیمتی اور منافع میں چلنے والے ادارے کوڑیوں کے مول من پسند افراد، اداروں اور غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیئے گئے۔ منفعت بخش ادارے غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کرتے وقت ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ غیرملکی خریدار ادارے سے منافع کماکر اُسے بیرونی کرنسی میں اپنے ملک بھجوائیں گے جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پرائیویٹائزیشن کا عمل غیر جانبدار اور مکمل شفافیت سے کیا جائے اور اداروں کے انتظامی امور ایسے لوگوں اور اداروں کے حوالے کئے جائیں جو متعلقہ بزنس کا تجربہ رکھتے ہوں تاکہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو منفعت بخش بنایا جاسکے اور وہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ نجکاری میں دیئے گئے اداروں میں نجی انتظامیہ منافع بڑھانے کے لئے اپنی ہی طرح کے دوسرے اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیتی ہیں جس سے عام آدمی شدید متاثر ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نجکاری میں دیئے جانے والے اداروں کی خدمات اور قیمتوں کی مربوط نظام کے تحت نہ صرف مانیٹرنگ کی جائے بلکہ اُن اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ معاہدے کے برخلاف کارکنوں کیساتھ کوئی ناانصافی نہ کریں۔
تازہ ترین