• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے ممبران پارلیمنٹ نے جیسے تیسے کرکے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی خواہش اور قومی ضروریات کے پس منظر میں اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرادئیے ہیں، ان میں کچھ اراکین اسمبلی و سینٹ وہ بھی ہیں جو پہلے ہی اپنی آمدنیوں کے گوشوارے جمع کراتے رہتے ہیں جبکہ کچھ وہ ہیں جن کو ابھی اس کی عادت نہیں پڑی اور شاید انہیں ابھی وزیر خزانہ سے کچھ سخت ریمارکس بھی سننے کو مل سکتے ہیں۔ ممبران پارلیمنٹ کی ٹیکس ریٹرن کی کافی ساری تفصیلات سامنے آچکی ہیں، اس لئے ان اعداد و شمار کو دہرانے کی ضرورت نہیں، ویسے بھی یہ تفصیلات ایسی ہیں جن پر بطور پاکستانی یا ایف بی آر کے نقطہ نظر سے فخر کیا جائے کیونکہ ان کو دیکھنے کے بعد ایسے لگتا ہے کہ ہمارے زیادہ تر ممبران پارلیمنٹ کے مالی حالات تو کافی کمزور ہیں، جیسے معاشی حالات نظر آرہے ہیں اگر یہ واقعی حقیقی ا ٓمدنیوں کے گوشوارے ہیں تو پھر ان کے انتخابات لڑنے کے اخراجات کون برداشت کرتا ہے اور کیا وہ لوگ الیکشن انویسٹمنٹ کرتے ہیں۔ کیا وہ ان کو اپنی ٹیکس ریٹرن میں شمار کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کو سمیٹنا اتنا آسان نہیں، مختصراً یہ کہ کوئی مانے یا نہ مانےIMFنے پورے دبائو کے ساتھ حکومت کو مجبور کرہی دیا کہ ملک میں ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کرنے اور اشرافیہ ( ایلیٹ کلاس خاص کر ممبران پارلیمنٹ) کو ٹیکس ریٹرن دینے کا پابند ضرور کیا جائے، اس حوالے سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایف بی آر کے ذریعے یہ مرحلہ طے کرلیا۔ اب اللہ کرے وہ معاشی بحران اور خاص کر انرجی کے بحران کے حوالے سے بھی کچھ کردیں، اب اسلام آبادمیں معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کے حوالے سے کچھ کام ہوتا نظر آرہا ہے لیکن حکومت طالبان کشیدگی میں اگر اضافہ ہوجاتا ہے تو پھر حالات دوبارہ پہلے کی طرف جاسکتے ہیں۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو، مگر نظر کچھ ایسے ہی آرہا ہے کہ چند ہفتوں میں ’’آر پار‘‘ کا کام ہونے والا ہے۔ اب دونوں فریقوں کے پاس آپشن میں کمی ہورہی ہے۔ ایسے حالات کی صورت میں یہ نظر آرہا ہے کہ رواں مالی سال میں جب دفاعی اخراجات بڑھیں گے اور دوسری طرف ڈٹ سروسز کا بوجھ بڑھے گا تو لاتعداد دعوئوں اور اقدامات کے باوجود نئے مالی سال کے بجٹ میں عوام کو شاید عملی طور پر کوئی ریلیف نہ مل سکے البتہ جو ڈی پی گروتھ ریٹ اور دوسرے شعبوں میں گروتھ کے اعداد شمار زیادہ سامنے آسکیں جس سے عوام کو کوئی غرض نہیں ہے۔
عوام کو تو روٹی اور سیکورٹی چاہئے جو فی الحال تو انہیں پوری ملتی نظر نہیں آتی تاہم مالیاتی ڈسپلن کے لئے کچھ اقدامات دو تین سال کے بعد نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں۔ وہ بھی اس صورت میں کہ آئی ایم ایف یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نامکمل معلومات پر مبنی یا حقائق سے دور رہتے ہوئے کئی ممبران پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشوارے اس طرح وصول کئے جاتے رہے تو پھر عام آدمی ٹیکس دینے کی طرف کیسے آمادہ ہوگا۔ اس سلسلہ میں اگر سابق نگران وزیر اعظم معین قریشی کے دور کی طرح ٹیکس دہندگان او ر نادہندگان کی ڈائریکٹری شائع کی جاتی اور ان میں ہر ٹیکس دہندہ کے اثاثوں سے لے کر تمام معلومات پبلک کی جاتیں تو عالمی ادارے اور عوام دونوں مطمئن ہوسکتے تھے لیکن اس بار ایسا نہیں کیا گیا اس حوالے سے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ممبران پارلیمنٹ کے تمام اثاثوں اور ان کی رہائش گاہ سمیت تمام معلومات دے دی جاتیں تو اس سے ان کے مال و مال کے تحفظ کے حوالے سے خطرات اور خدشات بڑھ سکتے ہیں جس میں بھتہ اور اغواء وغیرہ کی وارداتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے اگر ہمارے حکمرانوں کو ممبران پارلیمنٹ کے جان و مال کے تحفظ کا اتنا ہی احساس ہے تو پھر بے چارے عوام کدھر جائیں، کیا ان کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست اور پارلیمنٹ کی نہیں ہے۔ ویسے تو جس حکومت کے پاس وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ہوں انہیں تو کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئے وہ ***کی حد تک تو سب کو مطمئن کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تو خوش قسمت ہیں کہ ہمارے میڈیا نے فی الحال ہاتھ کچھ’’ہلکا‘‘ رکھا ہوا ہے ورنہ امن وامان کے حوالے سے صورتحال اتنی اطمینان بخش نہیں ہے کہ اسے سراہا جاسکے۔ وزیر اعظم نواز شریف خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے وفاق اور صوبے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور مل کر’’سیکورٹی پالیسی ‘‘ پر عمل کریں مگر وہ اس حوالے سے ابھی پوری طرح کامیاب نظر نہیں آرہے۔ خاص کر اس وقت حکومت اور طالبان کشیدگی اور دوسری طرف بلوچستان کے پریشان کن حالات ، انرجی کا بحران اور دیگر مسائل شاید فوری حل نہ ہوں مگر یہ کبھی نہ کبھی تو حل ہونے ہیں ۔اس کے لئے مساوی معاشی نظام اور نظام عدل لانے کی ضرورت ہے جس کا آغاز اسلام آباد سے ہوگا تو ہر جگہ سے’’سپورٹ‘‘ کی آواز آئے گی ورنہ معاملات یوں ہی چلتے رہیں گے اور ہمارا ازلی دشمن بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گرد اور انتہا پسند ملک قرار دلوانے کی کوششوں میں سرگرم رہے گا۔
تازہ ترین