• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماہ جنوری میں شروع ہونیوالے ان مذاکرات کی ڈور ٹوٹتی دکھائی دے رہی ہے جو ریاست پاکستان اور ریاست سے برسر پیکار کالعدم تحریک طالبان کے مابین شروع ہوئے تھے۔ گو کہ ان مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ روشن نہ تھے مگر پھر بھی یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید ملک کو امن نصیب ہو سکے لیکن یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ آپریشن کسی بھی مسئلے کا مکمل حل نہیں لیکن فریق مخالف کو مناسب مطالبات کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کل تک آئین پاکستان کے تحت مذاکرات کی بات ہو رہی تھی لیکن طالبان نے کسی مرحلے پر یہ نہیں کہا کہ وہ آئین پاکستان کے تحت مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔اب آتے ہیں اس آپریشن کی جانب جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کہہ رہے تھے کہ اس کی کامیابی کے امکانات 40فیصد ہیں جبکہ اس رائے پر مختلف آراء موجود ہیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ بات بھی ہمارے محل نظر رہنی چاہئے کہ وہ قبائلی علاقہ جسے فاٹا کہاجاتا ہے، اس میں مہمند ایجنسی سے لے کر چترال تک کا جو علاقہ ہے وہ انتہائی دشوار گزار پہاڑی راستہ ہے اور اس کی سرحدیں افغانستان کے صوبے کنڑ سے ملتی ہیں اور درمیان میں ایک انتہائی مشکل دریائے کنڑ بھی حائل ہے جبکہ دوسری جانب صوبہ کنڑ جس کا دارالحکومت اسد آباد ہے، وہ افغانستان کے صوبے ننگر ہار سے جڑتا ہے جس کا دارالحکومت جلال آباد ہے۔ افغانستان کی پینتیس سالہ جنگی تاریخ کا اگر مطالعہ کیاجائے تو یہ علاقہ انتہائی مشکل فوجی علاقہ رہا ہے۔ سوویت افواج کی کامیابی کی راہ میں بھی یہی مشکل علاقہ حائل تھا جبکہ اس وقت کے افغان جنگجو سوویت فضائیہ سے مرعوب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغان جنگجوئوں کو اسٹنگر میزائل ملے تو اس ہتھیار نے اس جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہوئے سوویت افواج کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ نائن الیون کے بعد چودہ سالہ جنگ میں بھی پنج شیروادی، تورا بورا اور صوبہ کنڑ مشکل ترین فوجی محاذ میں شامل رہے۔ یہی وہ وجوہات ہوں گی جن کی بنیاد پر یہ رائے سامنے آئی ہوگی کہ اس علاقے میں آپریشن کی کامیابی کے امکانات مشکل ہیں لیکن امریکہ نے مشکل ترین محاذوں پر بھی فضائی طاقت کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔ القاعدہ کو تورا بورا سے پسپا کیا تو ابھی تک یہ تنظیم دوبارہ وہ طاقت حاصل نہیں کرسکی تو کیا وجہ ہے کہ افواجِ پاکستان فضائی طاقت اور ریاست پاکستان سیاسی حکمت کو اختیار کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل نہ نکال سکے، گو کہ وہ ایک بہت مشکل محاذ ہے لیکن افواج پاکستان کی یہ صلاحیت رہی ہے کہ اس نے ہر دور میں مشکل محاذ پر دفاع کیا ہے۔ جنگ افغانستان کے دوران سوویت طیاروں کی مداخلت کو فضائی طاقت سے روکا اور بہترین جنگی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن جو افغان پاکستان بارڈر پر سرحد کہلاتی ہے، اس کا کامیاب دفاع کیا۔ بلا شک و شبہ ہماری فوج تربیت کے اعتبار سے بھی خاصی معتبر ہے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بھی اور فوج کا ہمیشہ یہ عزم رہا ہے کہ اس نے فوجی تربیت کے سہارے اپنے وسائل کی کمی کو پورا کیا ہے۔ جب بھی کسی قوم پر مشکل وقت پڑتا ہے تو اقوام کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ جب بھی اس طاقت کے خلاف ریاست طاقت استعمال کرے گی تو اس کا ردِعمل کراچی کے ساحلوں سے لے کر خیبرپختونخوا کے پہاڑوں تک سامنے آئے گا لہٰذا اس مشکل سے نکلنے کے لئے قوم کو قربانیاں دینا ہوں گی۔ آئین پاکستان کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ آئین اس بات کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے کہ ملک کے قوانین کو بتدریج شریعت محمدی ﷺ کے مطابق بنایا جائے۔ سیاسی حکمت کا تقاضا ہے کہ آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کے حقیقی اختیار کے ساتھ کام کرنے دیا جائے اور اس کی سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام تعلیم کے اندر مناسب اصلاحات لا کر پورے ملک میں مساوی نصاب اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا قابل عمل تعلیمی نظام وضع کیاجائے جس تک ہر غریب اور امیر کی رسائی ہوئی۔ ملک کی داخلی سلامتی کے اداروں کی ضروریات کو فوری طور پر پورا کیا جائے اور ان سے اظہارِ یکجہتی کے لئے سیاسی جماعتیں جو ریاست کی اساس ہوتی ہیں، اپنے عمل اور قول سے ثابت کریں۔ طالبان سے نظریاتی اختلاف اور اتفاق کرنے والی تمام جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس وقت اپنے نظریاتی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر اپنے قومی اور ملی جذبات کا اظہار کریں۔ اس ضمن میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے افواجِ پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں شاہراہِ قائدین پر ایک ریلی کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ اس جذبے کو تمام سیاسی جماعتوں کو اختیار کرنا چاہئے اور وہ اس قسم کے پروگرام کا اعلان کرکے نہ صرف افواج پاکستان کا حوصلہ بڑھا سکتی ہیں بلکہ ریاست دشمن قوتوں کو یہ پیغام دے سکتی ہیں کہ ہم پاکستان کی جغرافیائی وحدت اور اس کے نظام کے محافظ ہیں۔ جو بھی تبدیلی آئے گی وہ ووٹ کی طاقت سے آئے گی ۔ یہ عمل بتدریج ارتقاء پذیر ہوگا۔
تازہ ترین