• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت میں ایک نجی اسپتال کے جنرل وارڈ میں داخل ہوں اور آپ کے لئے یہ قصہ لکھ رہا ہوں خاصا زخمی ہوں۔ میرے سر پر، بائیں بازو اور دائیں ٹانگ پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ گھونسا لگنے سے میری بائیں آنکھ کالی ہو گئی ہے۔ اگر میرا دایاں بازو ٹوٹا ہوتا تو پھر ممکن نہیں تھا کہ میں آپ کے لئے ایک عدد قصہ لکھ سکتا۔ میں سب کام دائیں بازو سے کرتا ہوں جس میں میرا دایاں ہاتھ لگا ہوا ہے۔ میں دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرتا ہوں۔ دائیں ہاتھ سے بالنگ کرتا ہوں۔ دائیں ہاتھ سے وال چاکنگ کرتا ہوں۔ شہر کی دیواروں پر نعرے اور گندی اورغلیظ باتیں لکھنے کو انگریزی میں وال چاکنگ کہتے ہیں۔ دائیں ہاتھ سے سر کھجاتا ہوں۔ میں دائیں ہاتھ کی سیدھی یا ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے کی کوشش نہیں کرتا۔ میں دائیں ہاتھ میں چمچہ یا کفگیر پکڑ کر ڈبے یا کنستر سے گھی نکالتا ہوں۔ کوئی وی آئی پی نظر آجائے تو دائیں ہاتھ سے اس کو سلام کرتا ہوں جب جی چاہتا ہے تب دائیں ہاتھ سے اپنے آپ کو ایک آدھ چپت رسید کر دیتا ہوں دنیا کا ہر کام دائیں ہاتھ سے کرنے کے باوجود لوگ مجھے بائیں بازو کا آدمی سمجھتے ہیں۔ میں نے ان کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ میں کسی زاوئیے سے بائیں بازو کا آدمی نہیں ہوں حتیٰ کہ وہ کام جو آپ سب بائیں ہاتھ سے کرتے ہیں، میں دائیں ہاتھ سے کرتا ہوں۔مگر بے سود! میرے آشنا، ناآشنا مجھے پھر بھی بائیں بازو کا آدمی سمجھتے ہیں۔ طالبان کے ایک کمانڈر بنام ق فی سبیل اللہ نے مجھے کہلوا بھیجا ہے کہ پاکستان کو خلافت طالبانی بنانے کے بعد ہم تجھے اتنی گولیاں ماریں گے کہ سلمان خان سے پوچھنا پڑے گا کہ تو سانس کہاں سے کس چھید سے لے۔ اگر نصیب خراب ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ یہ الگ یہ بات کہ اب پاکستان میں کوئی بھی خدا کو (نعوذ باللہ)لفٹ نہیں کراتا۔ کوئی خدا حافظ نہیں کہتا۔ پاکستانی بھول چکے ہیں کہ ہمارا بھی کبھی ایک خدا ہوا کرتا تھا۔ ہم محبتوں میں اسی کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ ہمارے قومی ترانے میں بھی اسی خدا کا ذکر ہے۔ اقبال کی خودی میں بھی اسی خدا کا ذکر ہے۔ جسے ہم نے پاکستان سے خدا حافظ کر دیا ہے۔
اگر میں ایم این اے یا ایم پی اے ہوتا، وزیر اعلیٰ یا وزیر ادنی ہوتا تو آج شہر کے ایک نجی اسپتال کے جنرل وارڈ میں پڑا ہوا نہیں ہوتا۔ میں یورپ یا امریکہ یا عرب امارات کی کسی لگژری اسپتال کے وی آئی پی روم میں پاکستانی سرکار کے اخراجات پر داخل ہوتا اور گوری چٹی نرسوں کے جمگھٹے میں ہوتا۔ میں نجی اسپتال کا نام آپ کو ہر گز نہیں بتائوں گا۔ یہ پالیسی کے خلاف ہے میں نے نوجوانوں کی دیکھا دیکھی بڑھاپے میں انگریز بننے کی کوشش کی تھی۔ نتیجے میں سر، ٹانگیں اور بازو تڑوا کر اس نجی اسپتال میں داخل ہوں اور وہ بھی اپنے خرچ پر۔ میں ایک دقیانوسی اور روایت پسند آدمی ہوں۔ میں بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک دیسی عاشقوں کے دن مناتا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ میں نے ویلنٹائن ڈے منایا تھا حالانکہ وہ بدبخت مجنوں، فرہاد، رانجھا اور مہینوال کی طرح خود عاشق نہیں تھا۔ وہ چرچ کے پیچھے مخفی کمروں میں لڑکے لڑکیوں اور عورتوں مردوں کو تخلیہ میں ملنے کے انتظامات کرتا تھا۔اب ہمارے معاشرے میں یہ کام کئی ہوٹل اور ریسٹ ہائوس اور گیسٹ ہائوس کرتے ہیں۔ ویلنٹائن کی شامت تب آئی جب اس نے شاہی خاندان کی شہزادیوں کو اپنے سائبوں اور باورچیوں اور خادموں کے ساتھ تنہائی میں کچھ وقت ساتھ گزارنے کے مواقع مہیا کئے، پکڑا گیا۔ عدالت نے اسے سزائے موت کی سزا سنا دی۔ عیاشوں کو دھچکا لگا۔ انہوں نے سوگ منایا۔ اس سے پہلے کہ ویلنٹائن کی وبا یورپ اور امریکہ میں پھیلے عدالتوں نے ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی لگا دی صدیوں بعد انیس سو ساٹھ کے عشرے میں بنیادی حقوق کے نام پر ویلنٹائن ڈے پر سے پابندی اٹھائی گی ویلنٹائن کو ہم تک پہنچنے میں تیس چالیس برس لگ گئے پچھلے دس پندرہ برس سے ہم بڑی چاہ اور دھام دھوم سے ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔ اپنی عمر اور بزرگی کی لاج رکھتے ہوئے میں صرف مجنوں، فرہاد، مہینوال اور رانجھے کے دن مناتا تھا خاص طور پر مجنوں کا دن منانے کے لئے میں سر میں خاک ڈال کر بیابانوں کا رخ کرتا تھا ویرانوں میں بھٹکتا رہتا تھا۔ فرہاد کا دن منانے کے لئے سب سے پہلے میں اپنے پرانے دوست فرہاد زیدی سے ملتا تھا اور اس کے بعد پھاوڑا لیکر پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالنے کے لئے چل پڑتا تھا۔ وائے قسمت! بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک مجنوں کی طرح گریبان چاک کرکے، سر میں خاک ڈال کر میں ویرانوں میں بھٹکتا رہا مگر مجھے لیلیٰ نہیں ملی۔
پھرایک ایسا وقت بھی آیا جب میرے لئے مجنوں بن کر پاکستان بھر میں بھٹکنے کے لئے جگہ تنگ پڑ گئی۔ میں جہاں بھٹکنے جاتا وہاں سے دھکے دے کر نکال دیا جاتا۔ کمانڈو قسم کے مسٹنڈے چوکیدار بتاتے وہ زمین ایک بڑے رئیل اسٹیٹ ہولڈر کی ہے۔ یہاں دریا ٹاؤن بنے گا ایک مرتبہ میں نے ایک مسٹنڈے سے پوچھا ’’کیا اس ملک میں خدا کی زمین کا کوئی ٹکڑا باقی بچا ہے جہاں مجنوں بھٹک سکیں؟‘‘ جواب میں مجھے اس اسٹیٹ ہولڈر کے ایک دریا ٹائون کے پرائیویٹ لاک اپ میں چھ دن بند کر کے لتر اور چھتر مارے گئے تھے۔ ان حالات میں مجنوں بن کر بھٹکنا میں نے چھوڑ دیا۔کراچی کے اطراف جتنے بھی چھوٹے بڑے پہاڑ تھے وہ بلڈر مافیا کے چوہوں نے دن رات کتر کر ریتی بجری بنا دیئے ہیں ایسے میں فرہاد بن کر کسی پہاڑ کو تیشے سے کاٹ کر دودھ کی نہر نکالنے کا ارادہ میں نے ترک کر دیا۔ تب میں نوجوانوں کے دیکھا دیکھی ویلنٹائن کے چکر میں پڑ گیا۔ میں بازار سے گلاب کا پھول، چاکلیٹوں کا ڈبہ اور سینٹ کی بوتل لے آیا اپنے دور کا میں مجنوں اور فرہاد سوچ میں پڑ گیا کہ یہ تحائف دوں تو کس کو دوں؟ سندھ اسمبلی کی ایک ایم پی اے خاتون جو کہ مجھ سے بظاہر چالیس پینتالیس برس چھوٹی لگتی ہے، مجھے بہت اچھی لگتی ہے جب بھی سندھ اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے یا کوئی فنکشن ہوتا ہے وہ میرے گھر کے قریب ایک بیوٹی پارلر آتی ہے اور وہاں سے بن سنور کر اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کرنے جاتی ہے۔ اتفاق سے ویلنٹائن ڈے کے روز اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا گیا تھا خوبصورت ایم پی اے مزید خوبصورت بننے کے لئے بیوٹی پارلر آئی ہوئی تھی۔ اس کی گاڑی بیوٹی پارلر کے قریب کھڑی ہوئی تھی۔ میں نے تحائف اٹھائے اور بیوٹی پارلر کے پاس نیم کے درخت کے قریب رک کر اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا کچھ دیر کے بعد وہ پری بن کر باہر آئیں اس سے پہلے کہ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھتیں میں دوڑ کر ان کے پاس گیا پھول، چاکلیٹ اور سینٹ کی بوتل خاتون کی طرف بڑھاتے ہوئے میں نے کہا ’’میڈم آج ویلنٹائن ڈے ہے۔ محبتوں کا عالمی دن ہے۔ یہ تحائف قبول کیجئے‘‘۔
اس سے پہلے کہ خاتون کچھ کہتیں، خاتون ایم پی اے کے دو گن مین مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے مجھے بہت مارا۔ گھونسوں سے مارا، لاتوں سے مارا، بندوقوں کے بٹ سے مارا، گاڑی میں بیٹھتے ہوئے خاتون نے اپنے گن مینوں سے کہا ’’دیکھنا، بڈھا کہیں مر نہ جائے‘‘۔
مگر میں مرتانہیں،میں ایک نجی اسپتال کے جنرل وارڈ میں پڑا ہواہوں۔
تازہ ترین