جاں نثار اختر بڑے خوبصورت شاعر تھے۔ دلکش کلام کہنے والے تھے جو ان کی ایک غزل کے دو شعر بڑے خوبصورت اور دل میں اترنے والے ہیں۔ آج ہمارے ملک کے حالات کے عین مطابق ہیں اور ان اشعار میں پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے غم چھپے ہوئے ہیں۔ ان کی اذیت کی کہانی۔
ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے
بکھر گیا ہے کچھ اس طرح آدمی کا وجود
ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے
آج پاکستان کے جو حالات ہو چکے ہیں اس میں واقعی لگتا ہے کہ یہ زندگی کوئی بد دعا لگے ہے۔ ا دھر طالبان سے مذاکرات ہو رہے ہیں، دوسری طرف دہشت گردی جاری ہے۔ آج اس ملک کا بچہ بچہ نفسیاتی اذیت میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ خوف کے مارے ذہنی مریض ہوتے جا رہے ہیں ۔ کٹی ہوئی لاشیں، دھڑسے غائب سر اور کہیں دھڑ ہے تو کہیں سر نہیں، بازو کٹے ، ٹانگیں کٹی ہوئی ،یہ آج ہمارا معاشرہ ہو چکا ہے ہر شخص ایک خوف میں مبتلا ہے۔ پتہ نہیں اسے اگلے روز کا سورج بھی دیکھنا ہے یا نہیں؟۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ روز بروز ملک میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور علاج گاہیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک طرف ہماری حکومت ہے جس نے ذہنی صحت کے شعبے کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے۔ پورے پنجاب میں صرف ایک مینٹل اسپتال ہے جسے عرف عام میں پاگل خانہ بھی کہتے ہیں۔ کبھی چار نمبر بس کا آخری اسٹاپ ہوتا تھا اور لاہور کے لوگ اکثر دوستوں کو چھیڑتے ہوئے کہتے تھے کہ اسے 4 نمبر بس پر بٹھا دو، کیونکہ چار نمبر بس پاگل خانے جاتی تھی۔ پھر ہمارے لوگوں کو تھوڑا شعور اور عقل آئی اور پاگل خانے کا نام ذہنی مریضوں کی علاج گاہ ہو گیا اور پھر مینٹل ہیلتھ اور ہاسپیٹل ہو گیا۔ پاکستان میں صرف دو چار مینٹل ہیلتھ کے اسپتال ہیں جبکہ بعض ٹیچنگ اسپتالوں میں چھوٹے موٹے سائیکاٹری یونٹ ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کی ایم ایس ڈاکٹر نصرت حبیب کے بقول چھوٹے شہروں میں تو ذہنی صحت کی کوئی علاج گاہیں نہیں‘‘۔
ذرا سوچیں کے پی کے اور بلوچستان میں کوئی مینٹل اسپتال نہیں اور حکومت فرماتی ہے کہ ہم صحت کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ پتہ نہیں کس وی آئی پی کے گھر یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں، نام نہیں لوں گا بعض اہم سیاستدانوں کے گھروں میں بھی ذہنی مریض موجود ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ یہ بظاہر ایک بہت معمولی واقعہ تھا مگر اس نے پنجاب میں ذہنی مریضوں کی علاج گاہ بنا ڈالی۔ پنجاب میں ذہنی مریضوں کی علاج کا خیال سب سے پہلے مہاراجہ دلیپ سنگھ کے زمانے میں حکومت کے ڈاکٹر ہونگ برجر نے پیش کیا تھا۔ وہ اپنی کتاب مشرق میں 35برس میں تحریر کرتے ہیں۔ ’’لاہور کے ڈائریکٹر آف پولیس میجر میک گریگر ایک روز گھوڑے پر سوار ہو کر بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک ذہنی طور پر معذور عورت نے انہیں روک لیا، کچھ کہا نہیں۔ ریذیڈنٹ کو جب اس واقعہ کا پتہ چلا تو اس نے حکم جاری کر دیا کہ دربار کو ذہنی مریضوں کے لئے ایک پناہ گاہ تعمیر کرنی چاہئے چنانچہ اسپتال بن گیا۔ شروع میں صرف پانچ مریض تھے۔ جنہیں دیکھنے کے لئے لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ آج تو ہر گلی میں آپ کو پاگل نظر آتے ہیں۔ حکومت مہنگائی، دہشت گردی، بم دھماکوں اور خودکش حملوں نے آج ہر کسی کو ذہنی مریض بنا ڈالا ہے۔ 1861ء میں دہلی کے پاگل خانے کے مریضوں کو بھی لاہور منتقل کردیا گیا اور چند برسوں میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوا کہ انہیں 1863ء میں سردار لہنا سنگھ کی چھائونی میں رکھنا پڑا۔ پہلے پاگل خانہ امرتسر روڈ پر بھی رہا۔ 1871ء میں حکومت نے ایک خصوصی انکوائری کرائی کہ پتہ کیا جائے کہ لوگ کیوں پاگل ہو رہے ہیں تو بات سامنے آئی کہ لوگ منشیات کا استعمال بکثرت کر رہے ہیں۔ کئی لوگ مالیخولیا اور مرگی کے امراض میں مبتلا ہیں اور گہرے صدمے سے لوگ جنوبی بن رہے ہیں۔ آج حکومت نے کبھی اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ اب ہمارے لوگ کیوں پاگل ہو رہے ہیں؟ انہیں کس معاشی اذیت میں اور عذاب میں حکومت نے مبتلا کر رکھا ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں۔
پورے ملک میں صرف300ماہر نفسیات یعنی ڈاکٹر ہیں۔ چھوٹے شہروں میں آپ کو ماہر نفسیات ملتا نہیں، پورے ملک میں آپ کو بچوں کے ماہر نفسیات نہیں ملتے جبکہ ہمارے ہاں پیدائش سے لے کر18 سال تک کی عمر کے بچوں کاعلاج بچوں کے ڈاکٹرز اور چلڈرن اسپتال میں علاج کیا جاتا ہے۔ یہ فارمولا چلڈرن اسپتال نے بنایا کہ پیدائش سے لے کر 18برس تک کے نوجوان بچوں کے زمرے میں آتے ہیں اور پاکستان میں اس عمر کے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ بچوں کے ماہرین نفسیات کی تعداد صرف چھ ہے۔ آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ چرچل آئن اسٹائن اور کئی معروف لوگوں کا دماغ کا ایک حصہ کام کرتا تھا۔ پاکستان میں ڈیپریشن کا مرض عروج پر ہے اور ہمارے لوگ آج بھی پیروں، فقیروں اور مزارات پر جا کر اس کا علاج تلاش کرتے ہیں ۔آج لوگ آئے دن خودکشی اور ایک دوسرے کو مارتے رہتے ہیں اس کی بھی بنیادی وجہ ڈیپریشن ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک میں ذہنی مریضوں کے لئے کم از کم تین چار جدید علاج گاہیں بنائے اور موجود مینٹل اسپتال کو مزید بہتر کرے۔ یہاں ہر روز او پی ڈی میں چھ سو سے آٹھ سو مریض آ رہے ہیں۔ جو بڑے خطرے والی صورتحال ہے۔ ہمارے ملک کے دیہی علاقوں کی خواتین زیادہ تر ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ خاوند تشدد کرتا ہے، ساس تنگ کرتی ہے پھر دوران زچگی خواتین کو ایک خاص قسم کا ڈیپریشن ہو جاتا ہے۔ اس طرح چالیس پچاس سال کے بعد بھی بہت زیادہ ڈیپریشن میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ اس وقت چادر اور چاردیواری کی بہت بات کرتے ہیں کیا ذہنی مریض میں خواتین کے لئے موجودہ پاگل خانے کے علاوہ ایک علیحدہ اسپتال کی ضرورت نہیں، کیا ہم نے سرکاری سطح پر کوئی ایسی زبردست علاج گاہ بنائی ہے جہاں پر ذہنی مریضوں اور نشہ کرنے والوں کے لئے مکمل سہولیات ہوں۔ افسوس کہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج تک ہم 20 کروڑ افراد کے لئے صرف300ماہر نفسیات پیدا کر سکے۔ یاد رہے ماہر نفسیات ڈاکٹرز ہوتے ہیں جو ادویات بھی دیتے ہیں اور سائیکالوجسٹ صرف تھراپی کرتے ہیں، وہ ڈاکٹر نہیں ہوتے اور ادویات نہیں دے سکتے۔ پاکستان میں ہر سال چھ ہزار سے 8ہزار لوگ خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پشاور میں ذہنی اسپتال 1950 میں قائم ہوا تھا اب شاید بند کر دیا گیا ہے۔ اب سندھ میں حیدر آباد میں ایک مینٹل اسپتال ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مینٹل ہیلتھ ایکٹ 2001 کو پوری شدت کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ ماضی میں ڈاکٹر ہارون رشید مرحوم نے اس سلسلے میں بہت کام کیا تھا۔ ان کے والد پروفیسر رشید چوہدری بھی بڑے معروف ماہر نفسیات تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر سعد بشیر ملک ایک مدت سے ذہنی صحت کے ہفتے تو منا رہے ہیں مگر حکومت کی کان پر جون تک نہیں رینگتی۔