• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا آئین تو یہ کہتا ہے کہ مملکت کے تمام شہری بلاامتیاز رنگ، نسل، جنس اور مذہب یا عقیدہ مساوی حیثیت کے حاملین ہیں لیکن بالفعل Favauritismکی پاکٹس ہر شعبہ زندگی میں موجود ہیں جس طرح ہر کنبے میں کچھ لاڈلے ہوتے ہیں اس طرح مملکت پاکستان میں بھی کچھ طبقات خصوصی استحقا ق رکھتے ہیں۔ اپنی نوعمری میں ہم نے مقدس گائیوں Cowsکے ریوڑ دیکھے ہیں جو چاہے اناج کو خراب کر دیتے ،چاہے فصلوں کو اجاڑ دیتےکوئی ان کی طرف لٹھ لہرانے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا حتیٰ کہ اگر وہ مٹھائی کی دکان میں منہ ماری کرتیں تو مٹھائی والا خوشامد و ثواب میں مٹھائی کو اور آگے کر دیتا ۔
وطن عزیز پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنا ہے اس لئے جو طبقہ یا گروہ اسلام کی تلوار لہراتا ہے اس کے بالمقابل ساری تلواریں کند ہو جاتی ہیں ،افواج پاکستان بھی چونکہ اسلام کے اس قلعہ کی اسلامی افواج ہیں لہٰذا ان سے وابستگی رکھنے والابھی ویسا ہی لاڈلا ہے جیسے لاڈلے اول الذکر اسلامی جہادی بھائی ہیں۔ ایسے لاڈلوں کیلئے رائج الوقت اصطلاح ہے ’’ مراعات یافتہ طبقات‘‘ ،اگر ہم اپنےگردونواح کا جائزہ لیں تو ہمیں ایسے کئی طبقات سے واسطہ پڑے گا جن میں موثر تر مذہبی شخصیات اور ان کے جتھے یا گرو نمایاں تر ہیں اگر وہ آئین کو غیر اسلامی قرار دے دیں تو عوامی سطح پر آئین ا پنا تقدس کھو بیٹھتا ہے۔ دیگر قوانین اور قانونی شقیں تو گویا ان کے غلام اور لونڈیاں ہیں۔ ایسے میں اگر عوام یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو تو یہ خیال است ومحال است و جنوں والی بات ہے۔ اس ملک میں وزرائے اعظم تک منتخب ہونے والی شخصیات کو عدالتوں میں پیشیاں ہی نہیں بھگتنی پڑیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھی اپنے شب وروز گزارنے پڑے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ گرفتاری سے بڑھ کر پھانسی گھاٹ تک بھی پہنچنا پڑا ہے جبکہ یہ سب مظالم ڈھالنے والے آئین شکنوں کا گارڈ آف آنر پیش کئے جاتے رہے ہیں۔ آج پرویز مشرف کا معاملہ ہی دیکھ لیں ایک عادی آئین شکن کو عدالتی کٹہرے میں لانے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلے جا رہے ہیں،اپنے ناجائز دور اقتدار میں آئین، جمہوریت ،پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کا گلا گھونٹنے والا کیا کیا نخرے دکھا رہا ہے۔ کبھی اپنے محل میں گھس جاتا ہے کبھی بڑے فوجی ہسپتال میں چھپ جاتا ہے، خود تو خود اس خود ساختہ بیمار کے وکلاء بھی مان نہیں، اپنے بالمقابل وکلاء تو رہے ایک طرف وہ تو صحافیوں کو بھی ایسی ایسی تڑیاں اور دھمکیاں دیتے ہیں کہ گویا وہ’’ را‘‘ اور’’ موساد‘‘ کے ایجنٹ ہوں۔ ایسے میں قانون، عدالتوں یا انصاف پر عام آدمی کا اعتماد کیسے بحال ہوسکتا ہے، جب کالموں پہ کالم لکھے جارہے ہیں کہ پرویز مشرف کو کسی صورت سزا نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس کا سابقہ تعلق ملک کے عسکری شعبے سے ہے یعنی موجودہ نہیں سابقہ تعلق، پر440 وولٹ کا کرنٹ ہے تو اگر یہ عادی ملزم حاضر سروس ہوتا تو طاقت و تقدس کا کیا عالم ہوتا۔
مملکت خداداد میں’’خاکیوں‘‘ کا یہ عالم ہے تو سوچئے ’’سبزیوں‘‘ میں کتنی طاقت ہوگی کیا ان کا ڈسا پانی مانگ سکتا ہے، کتنے بے گناہ اور معصوم انسان ہیں جو جہادی خرمستیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ چرچ اور امام بارگاہیں تو رہیں ایک طرف کہ ان کی اہمیت اکثریتی عقیدے کی نظروں میں قابل التفات نہیں ہے، یہاں مخالف فرقوں کی مساجد اور اولیاء اللہ کے مزاروں میں نام نہاد جہادیوں نے جو خونی کھیل کھیلے ہیں کس میں تاب ہے کہ ان کا حقیقی پوسٹ مارٹم کرسکے۔ پہلے تو ہم یہ ملمع کاری کرتے رہے کہ یہ سب یہود و ہنود اور امریکہ کی سازشیں ہیں۔ کتنازبردست فقرہ ہے کہ’’غیر ملکی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ یہاں امن یا استحکام ہو‘‘ یہ سب ان کے کارندے یا ایجنٹ ہیں جو یہ کروارہے ہیں‘‘ اب جب نام نہاد ’’مذاق رات‘‘ نے کئی پردے فاش کردئیے ہیں ’’موت کے سوداگر‘‘ ننگے ہوئے ہیں تو ان کے ’’ہمنوا‘‘ حلیوں حجتوں کے ذریعے منہ چھپا رہے ہیں۔ ہماری نظروں میں طالبان تو دو ٹوک راسخ العقیدہ اور کھرے لوگ ہیں ہمیں شکایت تو ان کے ہمنوائوں کی منافقت سے ہے جو ان کی وکالت میں برسوں سے ہلکان ہورہےتھے لیکن یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا، پٹھان تو اپنے قول کا پکا ہوتا ہے یہ کیسا’’خان‘‘ ہے جو دوغلی پالیسیاں اپناتا اور دو چہرے دکھاتا ہے۔ ان سے تو وہ مولانا بہتر ہے جو طالبان کو’’قوم کے فرزند‘‘ قرار دیتے ہوئے ذرا نہیں شرماتا اور میڈیا کے سامنے قوم کو سمجھاتا ہے کہ جوتے کھائے جائو لیکن سر نہیں اٹھانا اس لئے کہ اہمیت جوتوں کی نہیں مارنے والے کی ہے۔امریکی ہمیں پھول بھی ماریں گے تو ہمیں پتھروں جیسے لگیں گے اس لئے کہ وہ غیر لوگ ہیں جبکہ’’قوم کے فرزند‘‘ اگر شغل مغل کرلیتے ہیں تو قوم حوصلے سے کام لے بھائی یہ تو دیکھو کہ وہ ہمارے لاڈلے بچے ہیں میر ے آقا میرے سید! ان لاڈلے بچوں کے والد صاحب کو اکوڑہ جاکر اتنا تو کہہ لینے دیں کہ بزرگو! بندہ کبندہ تو دیکھ لیا کرو گلیوں بازاروں اور مارکیٹوں میں رینگنے والوں کے ساتھ تو چلو دل پشوری کرلو سینما میں منڈوا دیکھنے والوں سے بھی’’شغل میلہ‘‘ کرلو کہ وہ عریانی و فحاشی کا حصہ بنے ہوئے تھے لیکن مساجد اور مزارات میں جانے والے تو اسلام سے محبت کرنے والے ہیں، یار انہیں تو کچھ نہ کہو۔ اس سے بھی بڑھ کر اس اسلامی مملکت کے جو محافظ اور مجاہد ہیں کم از کم ان کا احترام تو ملحوظ خاطر رکھو۔ آپ کہتے ہیں کہ ’’آئین کی کوئی ایک چیز بھی اسلامی نہیں ہے ‘‘ جبکہ آپ کا مخالف بلاول بھٹو کہتا ہے کہ’’خود آپ کے اپنے اندر کوئی ایک بات اسلامی نہیں ہے‘‘ اسے بھی معاف کردو کہ ابھی ناسمجھ بچہ ہے اور پھر چونکہ آپ حضرات نے اس کی ماں کو مارا تھا اس لئے اس کا دکھ قابل فہم ہے اور ہاں یہ جو آپ امن جتھوں کے سربراہوں کو ان کےکنبوں سمیت بھون دیتے ہو وہ بیچارے تو غیر جانبدار لوگ ہیں ان پر ترس کھائو۔۔۔۔۔ آپ نے میجر جہانزیب جیسے نوعمر فوجی کو جس بے دردی سے شہید کیا ذرا سوچو اس بیچارے کے ماں، باپ، بیوہ اور ننھے بچوں کے دلوں پر کیا گزری ہوگی؟۔ایف سی کے 23 نوجوانوں کو قربانی کے جانوروں کی طرح لٹا کر آپ نے حالت قید اور بے بسی میں ذبح کردیا، خدا کا خوف کھائو پرویز رشید صاحب ٹھیک کہتے ہیں کہ ہمارے 90 ہزار قیدی اس کافر ملک کی قید میں رہے جیسے نصف صدی سے ہمارا میڈیا دشمن ملک قرار دیتا چلا آرہا ہے لیکن کسی ایک قیدی کو ذبح کرنا تو کیا خراش بھی نہیں آئی وہ سب بالآخر سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹے۔ آپ تو ہمارے اپنے ہیں ہم سے بھی زیادہ پکے سچے مسلمان ہیں بقول سید صاحب اس قوم کے فرزند ہیں اگر آپ اس قوم کے محافظوں سے یہ سلوک کریں گے تو پاکستان آرمی یا فورسز کا مورال کیسے قائم رہ سکے گا؟ جوابی اقدام کے سوا ان کے پاس کوئی آپشن نہیں رہے گا بلکہ پوری قوم اپنی منتخب قیادت کو مجبور کرے گی، شیر بن شیر۔
تازہ ترین