• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یک نکتہ میرا یادداشت ، موجودہ بحران کا حل صرف اور صرف سیاسی، قبائل تا بلوچستان تا کراچی آپریشن ۔ حکومت ابہام اور مخمصے کا شکاراگرچہ آپریشن کے لیے دل موم ہو چکا۔ قبائلی علاقہ جات کی ساتو ں ایجنسیوں کے گرد سرخ دائرہ لگ چکا،انواع و اقسام کے فضائی حملے شدت اختیارکر چکے۔ ’’باوثوق‘‘ ذرائع کے مطابق نشانے ایسے تاکے کہ سکہ بند عسکریت پسند ہی ٹھکانے لگے۔ نقل مکانی جو پچھلے10 سال سے جاری وساری، میں تیزی ۔ آپریشن کے لیے بیرونی کے ساتھ اندرونی دبائو بھی،مفروضہ کہ راہِ نجات آپریشن میں ہی۔ CIA چیف بنفس نفیس پاکستان میں ، موجودہ صورت حال پر سیر حاصل بحث کرنا ان کا فرض ِ منصبی۔دوسری طرف گنگا نے الٹا بہنا ہی تھا،یوں تو فوج کے حق میں جلسے جلوس، ریلیاں، بیانات ایک اچھا عمل اور قومی ذمہ داری بھی،لیکن کیا کیا جائے کہ آپریشن کی حمایت اور تقاضا کرنے والوں کی حب الوطنی اورنیتیں ہمیشہ سوالیہ نشان کی زد میں۔ ان میں بعض لوگ جو بھارت اوردیگر ملکوں میںجا کروطن عزیز کے سینے پر کئی بار مونگ دل چکے، دہشت گردی، قتل وغارت، بھتہ خوری، غنڈہ گرد ی اور فرقہ واریت کی ساری جہتیں متعارف کرائیں۔حال یہ کہ جس روز کراچی سے بوری بند لاش نہ ملے یا رینجرز ، پولیس پر حملہ نہ ہوتو ایک بڑی خبر۔کاش کراچی میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے پولیس وعسکری اداروں کے لیے بھی ایسی ریلیاں نکل پاتیں۔ یہ بات بھی خوش آئند ،چاہے بدنیتی بدرجہ اتم موجود، کہ بھٹو صاحب کے دورِحکومت میں بلوچستان کے پہاڑوں پر چڑھ کر افواج پاکستان کے اوپر بندوقیں تاننے والے آج قافلہ آپریشن میں جوق درجوق رجسٹریشن کروا رہے ہیں۔یہ کیسی مملکت ِخدادادکہ جہاں اسلام سے چڑ،رہزن رہبر ، ڈرون حملے جائز۔جن کی کہنیوں سے بے گناہ پاکستانیوں کا خون ٹپکتا نظر آرہا ہے، ایسوں ہی کے ہاتھ ’’تیسرے ہاتھ ‘‘ سے جڑے دکھائی دیتے ہیں’’کھٹکتی ہوںدل یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘۔
بھائی جان پرویز رشید کے بیانات سے ظاہرکہ شیخ رشید اور رحمٰن ملک کے ’’رتبہ ومقام ‘‘ سے سبق نہیں سیکھا۔ شیخ صاحب ایسے بیانات پر دو دفعہ اپنے حلقے میں عوام کی’’ رغبت ‘‘جھیل چکے ،آج صدق ِ دل سے ایسی توبہ کہ چھاچھ بھی پھونکے بغیر نہیں پی رہے ، تب سے ٹی وی پر ہر فقرہ احساس ِ ندامت سے بھرپور، قوم کوشایدیہی ادا بھا گئی معاف توکردیالیکن بحالی عزت سے پہلے ناکوں چنے ضرورچبوائے ۔رحمٰن ملک نے عزت کے معاملے میںکچھ کمایا ہی نہ تھا، گنواتے کیا ؟بھائی جان ناگفتہ بہ حالات میں چوہدی نثار کو دیکھیں کہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ حکومت کی کسی واردات کو اپنے گلے کا طوق بننے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے پہلی مرتبہ عصر کے وقت اپنی زندگی کا سب سے لمبا روزہ توڑا، اس سے پہلے طلوع ِ آفتاب کے فوراََ بعد کے عادی کہ ؎ ’’یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت ِقیام آیا‘‘۔ بدقسمتی کہ اب ہر بات اور موقف بھی مستقلاََاعتماد کے بحران کی زد میں۔ قبل ازیںجب مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کی تویہ واضح کہ قومی مفاد کے چیلنجز سے پہلو تہی میں ہی عافیت ہے۔ محنت اور مشقت سے جو’’ٹولہ‘‘برائے تبدیلی اپنے گرد اکھٹا کر رکھا ہے اس میں انقلابی روح ٹٹولنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ’’ سٹیٹس کو ‘‘کی روح کو بیدار رکھنے کے ’’مائی باپ‘‘۔ ’’اگرمگر‘‘ کے ساتھ آپریشن کی حمایت،اپنے ارشاداتِ عالیہ ہی کی نفی۔جتنے آپریشن بھی ہوئے حکومتوں کے لئے نقصان کا سبب ہے۔ دورائے نہیں کہ پاکستان کو دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ ، انتہا پسندی کے عفریت سے نجات دلانا ہماری اولین ترجیح اورقومی فریضہ۔سوال یہ کہ کیسے؟کیا یہ ممکن ہے کہ آفت کی اس گھڑی میں قومی سیاسی مذہبی جماعتیں سرجوڑ کر بیٹھیںاوربیچ منجدھارمیں پھنسی قوم کو نکال سکیں؟ تشویش کہ قومی مذہبی سیاسی رہنمائوںکے اندر Will نہ استطاعت۔ابھی کل ہی بھارت نے اپنی بربریت کا اعادہ اس طرح کیا کہ اپنی جیل میں قید ایک معصوم پاکستانی کوبہیمانہ تشددسے شہید کردیا ،مجال ہے حکمرانوں، سیاستدان اور قومی حمیت کے اوپر ریلیاں جلسے اور اُبال کھانے والوں کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ جبکہ ہماری عدالت سے سزا یافتہ بھارتی جاسوس کو پھانسی سے نجات دلوا کر بھارت روانہ کرنے اور دشمن ملک سے تجارتی روابط مستحکم کرنے کے لئے کوشاں۔
سید منور حسن کی اس بات پر غور وغوض کیوں ممکن نہیں کہ مملکتِ خدادادِ پاکستان سے زیادہ آپریشنز کا تجربہ کس کوہے ؟ پچھلے آپریشنزمیںکیا ہی بھیانک نتائج دیکھنے کوملے۔ لال مسجد ، اکبر بگٹی ، کراچی بلوچستان آپریشنز، کارگل سب نے نہ صرف مملکت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا بلکہ حکمرانو ں کی جڑیں بھی کھوکھلی کیں۔ 26/25 مارچ 1971 کی درمیانی رات کو ہونے والا ام آپریشن ہی کہلائے گا، پاکستان کو دولخت کر گیا۔بقول جنرل عمر، سیکرٹری دفاعی سلامتی کونسل ’’مذاکرات کے راستے بند ہوچکے، مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ نے حکومت سے رابطہ منقطع کرکے کھلی بغاوت کا فیصلہ کرلیا ۔پاکستانی فوج پر حملے ہو رہے تھے، فوج کو ضروریات ِ روزمرہ کی سپلائی رُک چکی، آپریشن ناگریز ہوچکا‘‘۔ فوری طور پر فوجی دستوں کی مزید کمک پہنچائی گئی۔آپریشن ’’سرچ لائٹ ‘‘ شروع ہوا ۔ (گو آج کے واقعات کئی چیزوں کی نفی کر رہے ہیں،اس سے قبل جنرل یعقوب خان نے کسی ایسے آپریشنز سے معذرت کر لی)۔ فوج نے مکتی باہنی اور ہندوستانی مداخلت کاروں کا ایسا قلع قمع کیا کہ مشرقی پاکستان کے ہر انچ پر حکومتی رٹ نافذ ہوگئی ،10اپریل کواعلانِ فتح ایسا ہی تھا جیسے جارج ڈبلیوبش کا یکم مئی 2002 کو افغانستان کی فتح کا اعلامیہ۔دونوں دفعہ بظاہر امن ،مگر انجام المناک ۔ 16 دسمبرکو 15 روزہ جنگ کے بعد وطن ِ عزیز دولخت ہوا،اس پیغام کے ساتھ کہ ہم قومی فیصلے کرنے میں لاغراور نحیف۔ بقائمی ہوش وحواس متنبہ کرتاہوں کہ وزیرستان میں داخل ہونے کے راستے درجنوں جبکہ نکلنے کے معدودے چند بھی نہیں۔آبادی کی نقل مکانی سے دہشت گردی میں اضافہ جبکہ باہمی نفرتیں سمیٹنا ناممکن ۔1842 میں برطانوی راج کا سورج نصف النہار پراورروس کی زار حکومت واحد خطرہ، تدبیر آئی کہ افغانستان اور قبائلی علاقوں میں زارِروس کے آگے عسکری دیوار چن دی جائے ۔Elphinstone's Army جو جدید اسلحہ سے لیس اور تربیت یافتہ ،زُعم کے ساتھ جب سرزمین افغانان داخل ہوئی تو 16000 فوجی مروا بیٹھی ۔ برطانوی عسکری تاریخ میں اس سے بڑا سانحہ کبھی وقوع پذیر نہ ہوا۔راج برطانیہ نے اس سے سبق کیا ازبر کیا؟ بجائے دھاک بٹھانے کے ، قبائل کو اپنے حال پر چھوڑ دو۔ فرق طریقہ اپنایا، FCR کا قانون بنایا قبائلی بڑوں کی مدد سے موثر طریقے سے قبائلی نظم ونسق کو اپنا حصہ بنایا۔ عظیم قائدکی عظیم سوچ ہی سامنے رکھ لیںکہ قبائلیوں کو اپنے رسم ورواج کے مطابق زندگی بسر کرنے کی گارنٹی دی، مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔پچھلے67سال ہم کئی آپشنز کو روبہ عمل لا سکتے تھے، ایک پراسس کے تحت مملکت کے اندر تحلیل کرنا بھی ممکن تھا۔پچھلے67سال تو سواورکھو کر گنوا دی، ترکیب نہ تدبیر،اب خوابِ خرگوش سے بیدار ہوکر درست راستہ اختیار کریں تو بہتر۔
تازہ ترین