• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اس وقت بدترین دہشت گردی کی زد میں ہے اور اس دہشت گردی کواندرون ملک موثر مذہبی اور غیر مذہبی جماعتوں، ان کے پیروکاروں اور ان سے متفق عوام الناس کی مکمل حمایت سے بھی بہرہ ور ہے۔ بیرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر اس کا ساتھ دینے والوں کے وجود سے انکار ممکن نہیں،افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک اس کے بڑے گڑھ ہیں جن میں افغانستان کو اس معاملے کا مرکزی مقام حاصل ہے۔ افغانستان کی تقریباً 3300برس پر مشتمل تاریخ اس جان لیوا نظریاتی اور قبائلی جبریت کے لئے شہ رگ کے مرتبے پر فائز ہے۔پاکستانی قوم اور طالبان کی جنگ براہ راست ہے۔ ان دونوں فریقوں کے درمیان اسباب اور محرکات کے پیچیدہ کیکھڑ میں پڑنے کے بجائے ہم پاکستانیوں کا قومی پیمانے پر اپنی صفیں سیدھی کرنا ہمارے دینی ایمان اور قومی بقاء کی اوّل و آخر پکار اور بنیاد بن چکا ہے۔ بے رحمی کو شرمندہ کرتے بلکہ اس کی تدفین کرتے ہوئے ایف سی کے23 جوانوں کو شہید کرنے کے بے ننگ و نام لرزہ خیز ’’انداز‘‘ نے ہمارے دینی ایمان اور قومی بقاء کے اس نصب العین کی حقانیت طے کردی ہے ،چنانچہ ملک کے اندر منور حسن، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالعزیز، حافظ محمد سعید صاحبان جیسی مقتدر شخصیات ،ان کی جماعتیں اور ان سے متفق عوام میں سے ’’پاکستانی قوم اور طالبان‘‘ کی اس جنگ میں کون ریاست کی فیصلہ کن حمایت میں کھڑا ہے؟ اور کوئی نیمے دروںنیمے بروں کی کیفیت میں ہے۔ کون خاموش حمایت کی شکل میں اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال رہا ہے۔ اس مناظرہ سازی یا اس اختلاف کو پار کرنے کے لئے قطعی طور پر وقت باقی نہیں رہا، جو کسی بھی صورت میں ’’پاکستانی قوم اور طالبان‘‘ کی اس جنگ میں پاکستانی قوم کے ساتھ نہیں وہ طالبان کے ساتھ ہے، نوعیت اورمقدار کا مسئلہMatterہی نہیں کرتا۔پاکستان کی دھرتی پہ یہی فطری صف بندی ہے!
’’پاکستانی قوم اور طالبان‘‘ کے مابین فیصلے کی اس فطری صف بندی میں طالبان کی جانب کھڑے مذہبی اور سیاسی رہنما ان کی جماعتیں ان کے حامی عوام ان کی طلباء و غیر طلباء تنظیمیں یہ سب ملک کے اندر سے طالبان کے ساتھ بر سر پیکار پاکستانیوں کے مقابل رزم آراء ہوں گے۔ اقلیتیں ، اہل تشیع،اہل سنت و الجماعت کے تمام گروپس، پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، دیگر تمام طالبان مخالف بمعہ پاکستانی عوام کی اکثریت کے،لکیر کےاس طرف اپنے ایمان اور بقاء کا آخری معرکہ سرکریں گے، کون شہید ہے، کون نہیں؟ آئین اسلامی ہے یا نہیں؟ مختلف قومیتوں کے پشتون’’امیر‘‘ اور’’مجاہد‘‘ مذہبی پیش گوئیوں کے آثار ہیں یا نہیں؟افغانستان میں طالبان اور پاکستان میں مولوی فضل اللہ نے سوات میں اپنی اپنی حکمرانی کے ادوار میں ان علاقوں کو جنت نظیر بنادیا تھا؟ عوام کو صرف روٹی، انصاف اور تحفظ درکار ہوتا ہے انہیں کسی دوسری شے سے کوئی غرض نہیں ہوتی؟ یہ امریکہ کی گریٹ گیم ہے؟ ہمیں پاکستان میں ’’اسلام کا نفاذ‘‘ مطلوب ہے ،اس حوالے سے50،60 ہزار افراد کی مزید موت بھی’’دین کے قیام‘‘ میں کوئی مہنگا سودا نہیں؟ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اسلامی طلبا تنظیم لاکھوں پاکستانی طالبعلموں کے لئے اسلام کی’’دیوار چین‘‘ ہے اس نے گزشتہ چالیس پچاس برسوں میں ’’اسلام‘‘ بچا کر پاکستانی طلباء کو’’ایمان‘‘ کی چھتری مہیا کررکھی ہے؟ ٹاک ٹاک اور فائٹ فائٹ ہی واحد راستہ ہے؟ پاکستانی حکومت کو امیر المومنین ملا عمر سے خود رابطہ کرنا چاہئے؟ روس کے خلاف افغان جہاد خدا کے منکروں کے عبرت ناک انجام کا نام ہے؟ ہم اب امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل سے بھی نپٹ لیں گے؟ کسی سکول میں دوپٹہ اوڑھنے پر پابندی سے جس ’’بے حیائی ‘‘ کو آپ فروغ دینا چاہتے ہیں ہم ایسے غیر اسلامی افعال کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے،’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی ضد میں’’حیا ڈے‘‘ منا کر ہم امت مسلمہ کی عزت و غیرت محفوظ کرتے رہیں گے؟ پاکستان کائنات میں ایک روحانی عنصر کے طور پر وجود میں لایا گیا، بڑی بڑی ہستیوں کو عالم خواب میں اس کی بشارت ہوئی۔طالبان کی حامی ان جماعتوں اور رہنمائوں کے اس طرز کے بیسیوں سوالات کی پیدائش، اس طرز کے اسلامی نصب العین اور اس اسلامی نصب العین کے قالب میں پاکستانی مسلمانوں کو مکمل طور پر ڈھالنا’’اعلائے کلمتہ الحق ہی نہیں‘‘ امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کے ناگزیر فریضے کی ادائیگی ہے، قیام پاکستان کے فوراً بعد خصوصاً ملکی آئین میں قرارداد مقاصد کی شمولیت کے بعد ان مذہبی جماعتوں نے اس حوالے سے پاکستان کی ریاست کو ایک دن بھی سکون سے چلنے نہیں دیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روس کے خلاف افغان مجاہدین اور’’ غلام کشمیر ‘‘کے لئے پرائیویٹ لشکروں کے ذریعے ’’جہاد‘‘ کے سائبان بھی پاکستانی معاشرے پر تان دئیے گئے، مولانا مسعود اظہر جیسے حضرات دوبارہ نمودار ہوئے جو ہندوستان کو’’اکیلے‘‘ ہی فتح کرنے کے عزم پر آج تک قائم ہیں، اب ایک بار پھر انہوں نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے شروع کردئیے ہیں۔ طالبان سے نبرد آزما پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام کو بطور قدرتی قانون کے یقین کرلینا چاہئے کہ ملک کے اندر طالبان کی یہ حامی جماعتیں ،ان کے پیروکار، ان سے متفق عوام مذہبی شدت پسندی اور اس کی بائی پروڈکٹ سماجی جبریت کے بل بوتے پر پاکستان کی ہر اینٹ کو سوفیصد یرغمالی بنا چکے ہیں۔ طالبان چاہے وہ پاکستانی، افغانی یا دیگر قومیتوں سے متعلق ہوں براہ راست پاکستانی ریاست کے باغی، اس پر حملہ آور اور اس سے متحارب ہیں۔ ایک دوسرا پہلو، ملکی اور غیر ملکی طالبان کی پاکستانی ریاست سے براہ راست بغاوت کی موجودگی عملاً ہمارے وطن، افواج پاکستان اور اکثریتی پاکستانی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے لیکن ان دنوں ایک قومی المیے کے وجود کے باعث ہماری آنکھوں کی پتلیاں بار بار سکتے کی حالت میں چلی جاتی ہیں۔ جناب منور حسن اور جناب لیاقت بلوچ نے طالبان کے خلاف حربی محاذ پر شہید ہونے والے ہمارے فوجی فرزندوں کو برملا ’’شہید‘‘ کہنے سے انکار کیا، منور حسن صاحب نے تو دو تین دن کے وقفے سے اپنی اس’’حق گوئی‘‘ کو دھرایا بھی تاکہ’’امت مسلمہ‘‘ کے لئے تجدید دین‘‘ کے ناگزیر تقاضے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ افواج پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے جماعت کو معافی مانگنے کے مطالبہ پر عزیزی فرید پراچہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں نہایت لاپرواہ دیدہ دلیری کے ساتھ کہا ’’کس بات کی معافی؟‘‘۔
جنرل مشرف کے کیس سے لے کر طالبان کے ساتھ معرکے میں افواج پاکستان کو بے پناہ جہالت، بے پناہ بغض اور بے پناہ مکاری کے ساتھ ’’عدل‘‘ کی مختلف تھیوریوں اور آئینی تقدس کی ’’محافظت‘‘ جیسی اصطلاحات کے پردے میں قومی اور بین الاقوامی پیمانے پر نفسیاتی توہین اور تضحیک کے سلسلے کا ہدف بنالیا گیا ہے جس کے تسلسل میں طالبان ان کی حامی جماعتوں کے رہنمائوں اور لکھاریوں کی جانب سے بے حد کھلی جارحیت میں اضافے پر اضافہ ہورہا ہے قومی سطح پر سوائے ایم کیو ایم کے کسی نے افواج پاکستان کی طالبان کے ساتھ اس براہ راست جنگ میں میدان میں آکے نعرہ جہاد بلند نہیں کیا، پنجاب میں پیپلز پارٹی کا طرز عمل عملاً اس حوالے سے وطن سے لاتعلقی کی حدود کو چھو رہا ہے، وہ اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی مسلمان جرات رندانہ کے قریب بھی پھٹکتی دکھائی نہیں دیتی؟ بلاول کی آمد پر یہاں کی قیادت نے کیا گل کھلانے ہیں، فی الحال یہ موضوع کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں مگر پیپلز پارٹی پنجاب کو طالبان کے لئے بلاول بھٹو زرداری کی نظریاتی اپروچ کے عملی اظہار سے صوبائی دارالحکومت کی فضائوں میں ارتعاش ابھی تک پیدا کردینا چاہئے تھا، شاید پنجاب کی قیادت کو اپنی آنکھوں کے پانی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
(ن) لیگ اور پنجاب میں دہشت گردی، (ن) لیگ کی پالیسی کا’’حقیقی چہرہ‘‘ قومی یکجہتی کااندرون ملک عدم امکان جیسے پہلوئوں پر بات نہیں ہوسکی، ایم کیو ایم کے علاوہ طالبان مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تباہ کن’’سستی‘‘ کی پالیسیوں کو بھی زیر بحث نہیں لایا جاسکا تاہم قوم اجتماعی طور پر اپنی افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہے، قوم کو اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا ہر طرح سے ادراک ہوچکا ہے۔
تازہ ترین