• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعودی عرب کی کسی بھی اعلیٰ شخصیت کی پاکستان آمد کو ہمیشہ سے ہی اہمیت حاصل رہی ہے مگر سعودی ولی عہد شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز اور اُن کے اعلیٰ اختیاری وفد کے حالیہ دورہ پاکستان کو کچھ زیادہ ہی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ مشرق وسطیٰ اور خطے کے دیگر ممالک کی نظریں بھی مرکوز ہیں۔ دورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی ولی عہد کا استقبال کرنے کے لئے وزیراعظم میاں نواز شریف مع سینئر وفاقی وزراء ایئرپورٹ پر خود بنفس نفیس موجود تھے۔ سعودی ولی عہد نے اپنے 3 روزہ دورے کے دوران وزیراعظم کے علاوہ صدر مملکت، وزیر دفاع، مشیر خارجہ اور آرمی چیف سے بھی ملاقاتیں کیں جبکہ سعودی نائب وزیر دفاع شہزادہ سلمان نے اپنے وفد کے ارکان کے ہمراہ دفاع سے متعلق پاکستان کے اہم اداروں جی ایچ کیو، ایئر ڈیفنس کمانڈ آف پاکستان، ایئر فورس، پاکستان آرڈی نینس فیکٹری اور پاکستان ایروناٹک کمپلیکس کامرہ کا دورہ بھی کیا۔ واضح ہو کہ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان سے قبل سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل بھی پاکستان تشریف لائے تھے جبکہ اس سے قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں۔
سعودی ولی عہد کے دورے کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ کی اہم بات پاکستان کی شام اور وہاں کے باغیوں کے درمیان جاری خانہ جنگی کے بارے میں اپنے موقف میں واضح تبدیلی تھی۔ اعلامیہ میں بشارالاسد سے اقتدار چھوڑنے، عبوری حکومت قائم کرنے اور غیر ملکی فوجی اڈوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اعلامیے میں شام کے شہری علاقوں سے سرکاری افواج کے فوری انخلاء، قصبوں اور دیہاتوں کے محاصرے کے خاتمے اور فضائی و توپخانے کی بمباری روکنے کا مطالبہ بھی شامل ہے جبکہ اعلامیہ میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون کا بھی ذکر ہے۔ واضح ہو کہ اس سے قبل پاکستان، شام کے بارے میں غیر جانبدارانہ موقف پر قائم تھا اور شام کے تنازع کو شامی حکومت اور حزب اختلاف کے مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتا رہا تھا۔ یاد رہے کہ اسلامی ملک شام میں بشارالاسد کی حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیان گزشتہ 2 سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران اب تک خواتین اور بچوں سمیت ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں شامی باشندے پڑوسی ممالک ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ بشارالاسد حکومت کو روس اور ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے جبکہ باغیوں کو امریکہ، مغربی ممالک اور سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے۔ کچھ ماہ قبل امریکہ نے بشارالاسد پر اپنے شہریوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگاتے ہوئے شام پر حملے کا اعلان کیا تھا مگر آخری وقت میں روسی مخالفت اور روسی بحری بیڑہ شام روانہ کرنے پر امریکہ نے اپنا ارادہ ترک کردیا تھا جس پر سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک ناخوش تھے۔ صورتحال میں مزید تبدیلی اُس وقت آئی جب شام کے تنازع کے حوالے سے ہونے والے جنیوا مذاکرات کی ناکامی کے بعد شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔
سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان اور مشترکہ اعلامیے کے بعد قیاس آرائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ غیر ملکی اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئی ہیں کہ سعودی عرب اور اُس کے اتحادی، شام میں افغان جہاد کی حکمت عملی اپنانا چاہتے ہیں تاکہ خانہ جنگی کا پانسہ باغیوں کے حق میں پلٹا جاسکے جس کے تحت شامی باغیوں اور جہادیوں کو یکجا کرکے اُنہیں جدید اسلحہ اور تربیت فراہم کی جائے گی جس میں پاکستان کلیدی کردار ادا کرے گا اور اس پر امریکہ کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب مبینہ طور پر پاکستان سے اینٹی ٹینک راکٹس اور طیارہ شکن میزائل ’’انزاع‘‘ خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے جو امریکی میزائل اسٹنگر جیسی صلاحیت کا حامل ہے جنہیں اردن کے راستے شام میں برسرپیکار باغیوں کو فراہم کیا جائے گا۔ ان اطلاعات کو اُس وقت مزید تقویت ملی جب شامی باغیوں کے رہنما احمد جربا نے یہ عندیہ دیا کہ باغیوں کو طاقتور ہتھیاروں کی کھیپ جلد مہیا کی جائے گی جبکہ پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی وزیر دفاع کے وفد میں شامل ایک عہدیدار نے بھی سعودی اخبار کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ واضح ہو کہ باغیوں کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ اُنہیں شامی ایئر فورس کے طیاروں کے خلاف موثر ہتھیار فراہم کئے جائیں۔ کچھ بھارتی اخبارات میں ایسی بھی خبریں شائع ہوئیں کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری معاہدے کی ڈیل کے بعد سعودی عرب اب دفاعی پوزیشن میں آگیا ہے اور پاکستان سے ٹینکوں، میزائلوں، آبدوزوں اور میزائل ٹیکنالوجی کے لئے ہونے والی بات چیت اسی کا نتیجہ ہے۔ ان اخبارات نے سعودی عرب کی جانب سے 2 ڈویژن پاکستانی فوج کی فراہمی کی ضرورت سے متعلق بھی خبریں شائع کیں تاہم دفتر خارجہ نے ان تمام خبروں کی تردید کی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی تعلقات میں گرمجوشی کی خبریں کچھ عرصے سے خاصی گرم ہیں، اس حوالے سے کچھ ماہ قبل بی بی سی کے پروگرام ’’نیوز نائٹ‘‘ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور سعودی عرب جب چاہے پاکستان سے جوہری ہتھیار حاصل کرسکتا ہے جس پر میں نے ایک کالم ’’پاکستان کے جوہری ہتھیار بکائو مال نہیں‘‘ بھی تحریر کیا تھا۔
پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کی تشکیل میں سعودی عرب کا کردار ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان شام سے متعلق ہونے والے مفاہمتی معاہدے کو سعودی عرب کی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں بشارالاسد کی جگہ عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے سے عالمی صورتحال میں اہم تبدیلی آئے گی تاہم یہ کھیل پاکستان کے لئے آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو روس، چین اور ایران جیسے ممالک جنہیں بشارالاسد حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے، پاکستان کے اس اقدام سے یقینا ناخوش ہوں گے جس سے ان ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ شام سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی پارلیمنٹ میں زیر بحث لائے تاکہ اس پر متفقہ فیصلہ کیا جاسکے۔ واضح ہو کہ ایران اور نواز حکومت کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں کیونکہ ایرانی قیادت موجودہ پاکستانی حکومت کو سعودی عرب سے زیادہ قریب تصور کرتی ہے جبکہ پاک سعودیہ معاہدے کے بعد ایران کی جانب سے اپنے مغوی اہلکاروں کی بازیابی کے لئے پاکستانی سرحد کے اندر کارروائی کی دھمکی اور پشاور میں ایرانی قونصلیٹ پر حالیہ خودکش دھماکے کو بھی موجودہ تناظر میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
2014ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں نئی تبدیلیاں رونما ہونے کے آثار پہلے سے ہی واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون اور پاکستانی ہتھیاروں کی فروخت سے ملکی معیشت میں یقیناً بہتری آئے گی جس کا سعودی ولی عہد بھی عندیہ دے چکے ہیں تاہم حالیہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ سے خطے میں ایک نئی صورتحال پیدا ہوگی جسے مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اس سے متعلقہ دیگر امور پر بھی توجہ دینے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک سے بھی تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان خارجی سطح پر یہ توازن کس طرح برقرار رکھتا ہے۔
تازہ ترین