مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور 2013ء میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف صاحب کے دوسرے دور حکومت میں 1997ء اور 1999ء کے درمیان حبیب بینک، یونائیٹڈ بینک اور نیشنل بینک میں زبردست بہتری لائی گئی تھی۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک سے منظور شدہ ان بینکوں کے جو سالانہ گوشوارے شائع ہوئے تھے ان کے مطابق ان بینکوں نے ان تین برسوں میں مجموعی طور سے ٹیکس سے قبل تقریباً 41 ارب روپے کا نقصان دکھایا تھا۔ یہ زبردست نقصانات اس حقیقت کے باوجود ہوئے کہ حبیب بینک اور یونائیٹڈ بینک میں 1998ء میں حکومت اور اسٹیٹ بینک نے 307 ارب روپے اضافی سرمایہ لگایا جس سے ان بینکوں کی آمدنی میں تقریباً 3 ارب روپے سالانہ کا اضافہ ہوا ہوگا۔ ان نقصانات کے ذمہ داروں کو مختلف حکومتوں کے دور میں عروج حاصل ہوتا رہا۔ وزیراعظم نواز شریف نے 7دسمبر 2013ء کو کہا کہ ان کے پہلے دور حکومت میں نقصان میں چلنے والے دو بینکوں کی نج کاری کی گئی تھی اور اب یہ دونوں کروڑوں روپے کا منافع دکھا رہے ہیں مسلم لیگ (ن) کے منشور میں بھی ان دونوں بینکوں یعنی الائیڈ بینک اور مسلم کمرشل بینک کی نج کاری کے بعد زبردست کامیابیوں کا فخریہ ذکر کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے 16 جنوری 2014ء کے کالم میں لکھا تھا کہ نج کاری کے وقت یہ دونوں بینک نقصان میں نہیں بلکہ منافع میں تھے، ان کی نجکاری غیرشفاف تھی اور نجکاری کے بعد غلط کاریوں کے نتیجے میں ان بینکوں کو زبردست نقصانات اٹھانا پڑے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں خصوصی طور پر ٹیکسوں کی وصولی کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ بیمار معیشت کو بحال کرنے کے لئے جن بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے ان کو نافذ کرنے کے لئے ہمارے پاس نہ صرف صلاحیت ہے بلکہ اس میں رکاوٹ بننے والے طاقتور مگر ناجائز مفادات کے حامل گروہ سے نمٹنے کا سیاسی عزم بھی ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منشور کو پس پشت ڈال کر معیشت کی بہتری کے لئے بنیادی نوعیت کی اصلاحات کرنے کے بجائے گزشتہ 8 ماہ سے ٹیکس چوری کرنے والوں، ٹیکسوں میں بے جا مراعات حاصل کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو مزید مراعات دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ان تمام نقصانات کو پورا کرنے کے لئے بے تحاشہ ملکی و بیرونی قرضے حاصل کرنے اور تیزی سے قومی اثاثوں کی نج کاری کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، ان حالات میں معیشت کی بحالی کی توقعات دم توڑتی جا رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کا موقف ہے کہ نقصان میں چلنے والے حکومتی شعبے کے کچھ اداروں کی وجہ سے قومی خزانے کو 500 ارب روپے سالانہ کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جس سے بجٹ خسارہ بڑھتا ہے۔ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اب سے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ اگر پاکستان میں صرف ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے تو ٹیکسوں کی وصولی کا حجم دگنا ہو جائے گا یعنی عوام پر بوجھ ڈالے بغیر ٹیکسوں کی وصولی میں تقریباً 2500 ارب روپے سالانہ کا اضافہ ہو جائے گا۔ ہم بہرحال سمجھتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے منشور پر عمل کیا جائے (بشمول ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس کی وصولی ہو تو عوام پر بوجھ ڈالے بغیر ٹیکسوں کی وصولی کی مد میں 6000 ارب سالانہ کی اضافی آمدنی ہو گی۔ ہم یہ بتاتے چلیں کہ اوورسیز چیمبر میں ان 33ممالک کی نمائندگی ہے جنہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ حکومت کو وضاحت کرنا چاہئے کہ ٹیکسوں کے ضمن میں اپنے منشور کے مطابق اقدامات اٹھا کر قومی خزانے کو ہونے والے چھ ہزار روپے سالانہ نقصانات کو روکنے کے بجائے وہ پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے وغیرہ کی نجکاری کر کے صرف 500ارب روپے سالانہ نقصانات سے بچنے کے حکمت عملی پر کیوں عمل پیرا ہے۔ حالانکہ حکومتی شعبے میں رہتے ہوئے ان اداروں کو منفعت بخش بنانا یقیناً ممکن ہے۔ حکومت نے اگلے چند ماہ میں او جی ڈی سی اور پاکستان پیڑولیم لمیٹڈ کے حصص کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ ان دونوں اداروں نے مالی سال 2013ء میں مجموعی طور سے 209ارب روپے کا ٹیکس سے قبل منافع دکھایا تھا۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کو منتقل کئے ہوئے چار بینکوں کے حصص بھی فروخت کئے جارہے ہیں جو حکومت کو پرکشش منافع دے رہے ہیں۔ ان چھ اداروں کے حصص کی فروخت کرنے سے حکومت منافع کے ایک بڑے حصے سے محروم ہوجائے گی۔ یہ بات بھی نوٹ کرنا اہم ہے کہ منافع بخش اداروں کی نج کاری مسلم لیگ (ن) کے منشور اور آئی ایم ایف کے قرضہ کی شرائط کا حصہ ہے ہی نہیں چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ نج کاری کا اصل مقصد ٹیکسوں کی چوری ومراعات سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری بھی مسلم لیگ (ن) کے منشور کا حصہ نہیں ہے۔ نج کاری کمیشن نے موجودہ حکومت کی نجکاری پالیسی کا دفاع کرنے کے لئے ماضی میں کی گئی نجکاری کے ضمن میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) اور بینکاری کے شعبے کی (چار بڑے بینکوں کی نج کاری کے بعد) ’’شاندار کارکردگی‘‘ کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ ہم نے اب سے 8 برس قبل عرض کیا تھا کہ ان نجکاری سے پہلے پی ٹی سی ایل نے 2004ء میں 29 ارب روپے کا منافع کمایا تھا اور یہ ادارہ سال بہ سال اپنامنافع بڑھاتا رہا ہے پی ٹی سی ایل ان چند برسوں میں اتنا منافع دے سکتا ہے جس کا حجم اس ادارے کے 26 فیصد حصص کی فروخت سے ملنے والی 155 ارب روپے کے برابر ہوگا۔ نجکاری کے بعد پی ٹی سی ایل کے منافع میں جو اضافہ ہوا وہی حکومتی شعبے میں رہتے ہوئے بھی حاصل ہو سکتا تھا۔ حبیب بینک نے 2010ء میں 1100 ملین روپے کا ٹیکس سے قبل منافع دکھایا تھا جو دو برس بعد بڑھ کر 5500ملین روپے ہوگیا لیکن اس کے باوجود اس کی نجکاری کر دی گئی۔ پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں نے 2002ء سے 2012ء کے 10برسوں میں اپنے کھاتے داروں کو تقریبا 1200 ارب روپے اس رقم سے کم دیئے جو 2000ء میں دی گئی حقیقی شرح منافع کے مطابق ان کا حق تھا۔ بینکوں کے غیر صحت مند قرضوں کا حجم جو 2005ء میں 177 ارب روپے تھا دسمبر 2012ء میں بڑھ کر 607 ارب روپے ہو گیا۔ یہ ہے بینکوں کی نجکاری کے بعد بینکاری کے شعبے کے منافع میں زبردست منافع کی حقیقت، جس کا دعویٰ نج کاری کمیشن بھی کر رہا ہے۔ اب سے 14 برس قبل قومی اداروں کو فروخت کئے بغیر بجٹ خسارے کو ختم کرنے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں سے اجتناب کرنے اور ملکی و بیرونی قرضوں کے بوجھ سے جھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہم نے ربوٰ کے مقدمے میں معاونت کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں تفصیلی گزارشات پیش کی تھیں۔ جنہیں بنچ کے چیئرمین نے 23 دسمبر 1999ء کے فیصلے میں تفصیل سے شامل کیا تھا۔ یہ تجاویز آج بھی قابل عمل ہیں۔ نجکاری نسخہ کیمیا نہیں ہے اور موجودہ حالات میں تباہی کا نسخہ ہے، ہم گزشتہ 8 برسوں سے پیش کی جانے والی اپنی یہ تجویز دہرائیں گے کہ نقصانات دکھانے والے حکومتی اداروں کی ری اسٹرکچرنگ کے بعد ان کی نجکاری کرنے کے بجائے ان اداروں کو ’’منیجمنٹ کنڑیکٹ‘‘ پر دے دیا جائے۔