• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تو آپ سب نے سنا ہو گا’’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ مگر میرا جملہ ہے ’’کتھوں لبھاں افتخار چوہدری نوں‘‘۔ قارئین اس تلاش کا تعلق کالم کے آخری حصے سے ہے پہلے طالبان اور پاکستان کا الجھا ہوا سیاسی منظر نامہ جس میں جیش العدل کا استعمال بھی شروع ہو چکا ۔پاک ایران بارڈرسے ایرانی گارڈزاغوا کئے گئے۔ الزام ہے اغوا کنندگان اغوا شدگان کو لے کر پاکستان کے اندر چھپ گئے ہیں ۔اغوا کی ذمہ داری جیش العدل نے قبول کی ہے۔ ایران کا مطالبہ ہے ملزمان کا کُھرا پاکستان کے اندر جاتا ہے لہٰذا انہیں ڈھونڈ نکالنا پاکستان کی ذمہ داری ہے ورنہ ہم خود پاکستان کے اندر گھس کر ملزمان کو ڈھونڈ نکالیں گے۔پنجاب میں ایک کہاوت ہے’’سہے اور پہے‘‘ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے ایک آدمی ٹانگیں پھیلائے کھڑا تھا، ٹانگوں کے درمیان سے ایک سیہا (خرگوش ) گزر گیا آدمی رونے لگا ساتھ کھڑے آدمی نے پوچھا کیوں رورہے ہو، اس نے بتایا میری ٹانگوں کے درمیان سے سیہا گزر گیا ہے، اس میں رونے والی کون سی بات ہے، رونے والے نے کہا میں سیہے کو نہیں پیہے (راستہ) کورورہا ہوں ۔خرگوش توگزر گیا ڈر ہے کہیں لوگ میری ٹانگوں کے درمیان سے راستہ ہی نہ بنا لیں۔ہمارا بھی کچھ ایسا ہی المیہ ہے جب سے امریکہ نے ہماری سرحدوں کی پامالی شروع کی ہے ہر نتھو ،پھَتو خیرے نے سرحدوں کے اندر گھسنے کی دھمکی دینا شروع کر دی ہے ۔ بھارت نے تو وتیرہ بنا رکھا ہے۔ ایران کی یہ دھمکی بھی ایران بھارت رومان کا شاخسانہ ہے۔ غالب امکان ہے یہ گارڈ CIAاور را نے مل کر اغوا کرائے ہوں، جیش العدل کی ذمہ داری کی قبولیت بھی رنگ بازی ہو مگر ایک بات واضح ہے اب ہمارا ایرانی بارڈر بھی محفوظ نہیں رہا ۔میں باربار لکھ رہا ہوں بھارت خطے میں بہت گھنائونا کھیل کھیل رہا ہے اور پاکستان کو چاروں سمت گھیر رہا ہے۔ ایران کی معیشت پابندیوں کی وجہ سے تنّزلی کا شکار ہے جسے بھارت سہارا دے رہا ہے ۔امریکہ نے بھی بھارت کو ایران سے تیل گیس خریدنے اور دیگر تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کی اجازت دے رکھی ہے جبکہ پاکستان پر بدستور پابندیاں ہیں۔ بھارت ایرانی بندرگاہوں کی توسیع اور ایران سے کابل تک سڑکیں بنانے کی پلاننگ کر رہا ہے ،یہ سڑکیں اور بندرگاہیں افغانستان میں متوقع پراکسی وار کیلئے معاون ہوں گی۔ پراکسی وار میں ایران کا وزن بھارت کے پلڑے میں ہو گا۔ایران امریکہ تعلقات کے پیچھے بھی بھارت کی ڈپلومیسی ہے۔ امریکہ نیٹو افواج کی واپسی کے بعد کابل کو طالبان سے ہر صورت محفوظ دیکھنا چاہتا ہے ،بھارت اس کی آخری امید ہے لہٰذا وہ بھارت کے نخرے اٹھا رہا ہے ۔امریکہ جانتا ہے نیٹوافواج کی واپسی کے بعد کابل پرقبضے کی بھرپور جنگ ہو گی۔ پاکستان کی بقا کا انحصار افغانستان میں بھارت اور بھارت نواز افغان افواج کی ناکامی کی صورت میں ہے۔ بھارت افغانستان میں قبضے کی اور پاکستان بقا کی جنگ لڑے گا۔بھارت کی کامیابی امریکہ کی کامیابی تصور ہو گی لہٰذا یہ سمجھنے کیلئے امریکہ کی پشت پناہی بھارت کو حاصل ہو گی کسی بزرجمہر کی ضرورت نہیں۔ اس تمہید کو باندھنے کا مقصد سامنے اسکرین پر دیکھنے والوں اور ہر قیمت پر بھارت سے دوستی بنانے والوں کو سمجھانا ہے اسکرین کے پیچھے بہت بڑی فلم ہے میرے دوست۔ پاکستان طالبان مذاکرات جو اب خواب ہوتے جا رہے ہیں کی بندش کسی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ 23مغوی فوجیوں کا قتل اور طالبان کا تسلیم کرنا بھی ایک رنگ بازی معلوم پڑتی ہے۔ان مغوی فوجیوں کی وڈیو2010میں سامنے آئی ۔یہ فوجی طالبان کے قبضے میں تھے ہی نہیں یہ افغانستان کی جیلوں میں تھے ۔مقتولین کی لاشیں بھی پاک ،افغان بارڈر سے افغان سائڈ سے ملنے کی خبریں ہیں۔ افغان جیلوں پر متعین گارڈز پولیس، ایجنسیوں کے اہلکار ،پیرا ملٹری او ر ریگولر افغان افواج بھی بھارت کے تربیت یافتہ ہیں۔ پاک فوج کے جوانوں کا قتل بھی بھارت امریکہ گٹھ جوڑ اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا تاکہ پاکستانی فوج کو آپریشن میں الجھا کر کمزور کیا جائے۔ سانپ کو دشمن کے سینے پر مارو دشمن مر جائیگا یا سانپ ہمارے تو دونوں ہی دشمن ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے اندرونی حالات ،الجھا ہوا ریجن کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ اپنوں کی خود غرضیوں اور دوستوں کی ریشہ دوانیوں نے ہمیں بھارت کی منفی گائیڈ لائن پر چلنے کیلئے مجبور کر دیا ہے۔ میر علی میں فوج نے آپریشن شروع کر دیا ایئر فورس بھی استعمال کی ہے ،مذاکرات تعطل کا شکار ہوچکے ہیں اور دوبارہ شروع ہونے کے امکانات معدوم ہیں ۔دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب نظر آتا ہے اللہ خیر کرے۔ہم ایک بار پھر امریکی بساط کا حصہ بننے جا رہے ہیں ۔ ایک بار پھراٖفتخار چوہدری یاد آرہے ہیں۔ ان کے suo moto نوٹسوں نے سپریم کورٹ کو ایک بااختیار اور باوقار ادارہ اور عوام کی امیدوں کا مرکز بنا دیا تھا۔ مانا بہت کچھ نہیں ہوا مگر سپریم کورٹ کی حیثیت تیسرے ستون کے طور پر تسلیم ہوتی نظر آ رہی تھی ۔اب ہر طرف سرکار باوقار ہی نظر آ رہی ہے۔ایسا لگ رہا ہے اس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ جنرل مشرف کا غداری کیس ہی ہے ۔ جیو اور جنگ نے قبل ازیں بھی گیس گھپلا کی نشاندہی کی تھی اور اب پھر سے کی ہے ۔ قطر سے گیس کا معاہدہ ہونے جا رہا ہے۔ تحریک انصاف خاموش کیوں ۔دنیا میں گیس کا طوفان دریافت ہو چکا ہے اور مستقبل قریب میں گیس سستی ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ قطر سے بھارت این ایل جی گیس11سے12ڈالر کے درمیان خرید رہا ہے جبکہ پاکستان کے متعلق خبریں 18ڈالر فی کیوبک فٹ آ رہی ہیں۔ اتنا بڑا فرق کیوں۔ بھارت نے امریکہ سے 10ڈالر کا معاہدہ کیاہے ۔اگلے دو سالوں میں امریکہ گیس پیدا کرنے والادنیا کا سب سے بڑاملک بن رہا ہے۔کینیڈا کے علاوہ روس قطر، کویت، ایران اور کاکیشائی ریاستوں میں گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو چکے ہیں ،گیس کے بڑے پیمانے پر سستے ہونے کے امکانات ہیں۔ پاکستان ایک تو مہنگی گیس خرید رہا ہے اوردوسرے اسی نرخ پر اگلے بیس سالوں کیلئے معاہدہ کر رہا ہے جبکہ بھارت صرف ایک سال کامعاہدہ کرتا ہے اور نرخوں کے اتار چڑھائو کو گیس سے ہی منسلک رکھتا ہے ۔ پاک قطر معاہدے میں گیس کی قیمت کوتیل سے منسلک کیا جا رہاہے ۔تیل مستقبل میں مہنگا ہو گا اور گیس سستی۔ ہے نا جو چاہے آپ کی نگاہِ کرشمہ ساز کرے ۔بجلی پیدا کرنے کیلئے جب مہنگی سرمایہ کاری بے نظیر بھٹو کے دور میں لائی گئی تھی تو مجھ جیسوں نے شورکیا تھا اس ڈیل کا خمیازہ مستقبل میں قوم کوبھگتنا ہو گا جو قوم آج بھگت رہی ہے ۔ بجلی سرمایہ کاری نے قوم کا خون نچوڑ لیا ہے ،یہ الگ بات ناسمجھ قوم کو سمجھ نہیں آئی ۔گیس گھپلے کا خمیازہ بھی مستقبل میں قوم کو ہی بھگتنا ہو گا ۔ خدا حکمرانوں کو صراط مستقیم دکھائے امین۔ بے شک وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب اور صدر پاکستان کا چین کا اکٹھے دورہ جو وزیر اعظم کے 2013ء میں 5روزہ دورے کا تسلسل ہے ،کن نامیوں کے نام تازہ ناموں کے اشارے ہیں خطیب بھی راز میں مخاطب بھی ،چٹھی تو پہلے ہی سربمہر ہے اللہ ریکوڈک کی خیر کرے۔اج اکھاں وارث شاہ نوں اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لِکھ لِکھ سٹے وین اج لکھاں دھیاں روندیاں کتھوں لبھاں وارث شاہ نوں ۔ عاقل را اشارہ کافی است۔
تازہ ترین