• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اکستان کے سامنے موجود چوائس اور بظاہردکھائی دینے والے حالات کے پردے میں پنہاں خطرہ یہ ہوسکتا ہے کہ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ختم ہونے کے بعد آرام سے گھر چلے جائیں گے یا کیا جنرل ہیڈ کوارٹرز کچھ اور سوچ رہا ہے ؟گھر کے ڈرائنگ روم سے لے کر حجام کی دکان تک، ہر جگہ یہی سوال پوچھا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہر جگہ الفاظ یہ نہ ہوں لیکن کم و بیش مفہوم یہی ہے ۔ اس وقت پاکستان کو دیکھ کر یہ یقین تقویت پارہا ہے کہ ہمارے معاشرہ کسی پراعتماد تبدیلی کی طرف گامزن نہیں بلکہ توقعات کامبہم دامن تھام کر لغزیدہ قدموں سے کسی جانب بڑھ رہا ہے ۔ اس وقت اس کے سامنے ایک نازک مرحلہ درپیش ہے ، جبکہ پاناما لیکس عمل انگیز کا کام دے رہے ہیں۔ تاہم مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں کوئی بھی یقینی طور پر نہیں بتا سکتا ، سوائے اسٹیبلشمنٹ کی روح ِ رواں اور ہمارے نظریاتی مکتب کے محافظ، جاسوسی ادارے کے ، کہ اگلا قدم کس سمت اٹھے گا۔
زیادہ تر افراد ، جو ان معاملات کی فکر رکھتے ہیں اور اُن کی تعداد زیادہ نہیں ہے ، کیونکہ زیادہ تر پاکستانیوں کو جس و جان کا رشتہ برقرار رکھنے جیسے اہم مسائل کا سامنا رہتا ہے ، کو یقین ہوچلا ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہونے والا ہے ۔ اس کی بالکل درست نوعیت کے بارے میں تو کہنا مشکل ہے لیکن فضا گہری ہوتی دکھائی دیتی ہے ، ایسا لگتا ہے کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آنے والا ہے ۔ چند ماہ پہلے تک اعتماد کی مہلک میں رچی، خوشگوار آوازیں آپ کے کانوں میں رس گھولتی تھیں کہ جمہوریت زندہ و تابندہ ہے، آئین کو بالا دستی حاصل ہے اور شب خون مار کر جمہوری حکومتوں کو ہٹانے کا دور جاچکا ۔ اگر میں غلطی پر اور حقیقت سے بہت دور نہیںتو آج آپ ایسے رسیلے جذبات کا اظہار اکثر نہیں سنتے ۔ حتیٰ کہ حکمران جماعت کے ان تھک اور جوشیلے وکیل ، دانیال عزیز اور طلال چوہدر ی و ہمنوااپوزیشن کو آڑھے ہاتھوں لیتے اور اپنی قیادت کی بے پایاں خوبیاں بیان کرتے ہوئے حتی المقدور اپنی اپنی کارکردگی دکھاتے ہیں، اوردیومالائی سیاست کے اسی افسانوی دور میں محترمہ مریم نواز صاحبہ کو بھی قبل از وقت تاریخی شخصیت بنا دیا گیا ہے ، لیکن لہجے سے اعتماد کی جھلک غائب۔
حتیٰ کہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے چہرے پر تشویش نمایاں ، اور قریب سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہیں کسی قسم کی ممکنہ پریشانی کا احساس ہوچلا ہے ۔ دوسری طرف عالمی بساط پر بھی خطرناک واقعات پیش آرہے ہیں جن کے پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ برایگزٹ کے بعد برطانیہ اپنی اندرونی مشکلات میں گھرا ہے، ،دائیں بازو کی قوم پرست جماعتیں سرحدیں بند کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔یورپی یونین سے نکلنا یورپی سیاست کا ایک طاقتور بیانیہ بن کر سامنے آسکتا ہے ۔ خوف اور غیر ملکیوں سے نفرت کے اس ماحول میں یورپ کا پاکستان جیسے ملک کو جمہوریت کا درس دینے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔
امریکہ میں بھی سرحد یں بند کرنے اور ’’نا روا‘‘ تجارتی معاہدوں کو ختم کرنے کا مطالبہ داخلی سیاست کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے موجودہ صدارتی انتخابات پر اثر کرنے والا اہم ترین عامل بن کر سامنے آیا ہے ۔جب انتخابات کا ابتدائی مرحلہ شروع ہوا تو کوئی موجودہ صورت ِحال کا تصور بھی نہیں کرسکتاتھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو لااُوبالی بیانات دینے والا ایک وقتی اور غیر سنجیدہ کردار سمجھا جارہا تھا، لیکن اب اُن کا اظہار یہ اس الیکشن کا اہم ترین موضوع بن چکا ہے ۔ اگرچہ ہیلری کلنٹن پولز میں اُن سے آگے ہیںاوروہ بہتر فنڈز کے ساتھ اپنی مہم چلا رہی ہیں لیکن ایک تبدیلی آچکی ہے ۔ سنجیدہ امریکی بھی اب ٹرمپ کی صدارت کے امکان کا تصور کرنا شرو ع ہوگئے ہیں۔ پاکستان کو امریکی سیاست کے ستاروںکو دیکھ کر اپنی راہیں متعین کرنے کی ضرورت نہیں لیکن ٹرمپ کی بطور صدر کامیابی پاکستان کے حق میں بہتر ہوگی کیونکہ وہ دیگر امور کے علاوہ مذہبی انتہا پسندی کو دھشت گردی کی اصل وجہ سمجھ کر اس پر توجہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ افغانستان کوزیادہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں، بلکہ وہ اوباما سے بھی پہلے وہاںسے فوجیں نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی موقف کو کیپیٹل ہل میں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ، کیونکہ امریکہ افغانستان میں کامیابی سے دور، اپنی مشکلات پر پاکستان کو مورد ِالزام ٹھہرارہا ہے ۔
ہیلری کلنٹن کی کامیابی کی صورت میں بھی پاکستان کو اسی پرانی عینک سے دیکھا جائے گا کہ پاکستانی فوج ان کے ساتھ کھیل کھیلتے ہوئے اپنے اثاثوں کی حفاظت کررہی ہے ۔ تاہم ٹرمپ اس نیم پختہ پالیسی کو جاری نہیں رکھیں گے۔ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا، اوراس بات کی مطلق پروا نہیں کی جائے گی کہ وہاں طالبان اقتدار میں آتے ہیں یا کوئی اور خونخوار گروہ۔ ٹرمپ کا عالمی ایجنڈہ بہت مختلف ہے ۔ حتیٰ کہ اگر ہیلری بھی جیت گئیں تو بھی حاصل ہونے والے تجربات کے بعد ڈیموکریٹ پارٹی بھی حالات کو معمولی انداز میں نہیں دیکھے گی۔ دنیا کو گلوبل ویلج بنانے کا ایجنڈہ شکست سے دوچار ہوچکا، اس وقت ریگن اور تھیچر کے درمیان طے پانے والا اتفاق اپنی موت مرچکا کہ دنیا کو مارکیٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ کیا ہمارا سیاسی طبقہ ابھرنے والے ان سیاسی معروضات کا جائزہ لے رہا ہے؟ کیا وہ اس کے مضمرات سمجھ رہے ہیں؟
برادر اسلامی ملک پاکستانی سیاست میں واضح جھکائو رکھتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ ہم نے اُس وقت دیکھا جب جنرل مشرف نے وزیر ِاعظم نواز شریف کو 1999 ء میں منصب سے ہٹا دیا۔ آج برادر ملک کو اگر سنگین مشکلات نہیں تو بھی پریشان کن حالات کا سامنا ضرور ہے ، اور اس پریشانی کا تعلق صرف تیل کی گرتی ہوتی ہوئی قیمتوں اور کم ہوتے ہوئے محصولات سے نہیں ، بلکہ خطے میں ہونے والی اہم تبدیلیوں، خاص طور پر ایران کو حاصل ہونے والی طاقت، سے ہے ۔ ایک زیادہ پراعتماد سعودی عرب نے کبھی اپنے تعصبات کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے مصر میں جنرل السیسی کی صورت مداخلت ، گوکہ ناکام، کی پشت پناہی کی اور پھر یمن میں عملی طور پرتباہ کن مداخلت کی راہ اپنائی۔ تاہم آج چیک بک سفارت کاری کی طاقت اتنی نہیں جتنی کبھی تھی۔ اس کے علاوہ اس کے امریکہ کے ساتھ اتحادمیں بھی رخنے نمودار ہوچکے ہیں۔ چنانچہ شواہد بتاتے ہیں کہ اب اس کا عالمی وزن سمٹ چکا ہے ۔
اس کا پاکستانی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟شاید پاکستانی سیاسی طبقہ کچھ محتاط روش اختیار کرلے ۔ اس سوچ کو جھٹکا لگے گا کہ ’’دنیا ہمارے بچائو کے لئے آجائے گی‘‘۔ پاناما لیکس سے یہ تاثر تقویت پاچکا ہے کہ سیاسی اشرافیہ کی لوٹ مار کی کوئی حد نہیں ۔ جب برنی سندرس کہتے ہیں کہ بالائی طبقہ تمام دولت کو اپنی مٹھی میں رکھتا ہے تو اس کا عملی اظہار پاکستان میں بھی دکھائی دیتا ہے ۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر دائیں بازو کے یورپی رہنما مہاجرین کی بات کرتے ہیں تو وہ افغانوں کے ساتھ پاکستان سے آنے والے تارکین ِوطن کی بات بھی کررہے ہوتے ہیں۔ عالمی ماحول تبدیل ہوچکا۔ اس دوران پاکستانی ماحول میں کس قدرتبدیلی آئی ہے ؟رمضان بریک کے بعد پاکستانی سیاست پھر گرم ہوجائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی سمت کس طرف ہوگی؟ اس ملک کے سامنے مستقبل کیا ہے ؟پہلے تو جانوروں کو ذبع کرکے ان کے جسم کے اندرونی حصوںسے مستقبل کا پتہ چلایا جاتا تھا ۔ اگر آج آپ کسی سے بھی بات کریں تو وہ اپنا کلیجہ نکال کر سامنے رکھ دے گا اور اسے یہی تشویش لاحق ہوگی۔ تاہم وہ جوگی کہاں ہے جو ہمیں یہ بتائے کہ درحقیقت ہمارا مستقبل کیا ہے ؟
تازہ ترین