• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر پاکستان اور بلاول کے حوالے سے فطری سچائی کے معیار جیسی نشاندہی کردی گئی ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی سفر میں موجود تاریخی متوقع ٹریجڈی کا چہرہ بھی سامنے دکھلا دیا گیا،
صاحب فہم و ادراک دانشورنے اعتدال مگر حد کمال تک، ان دونوں حقیقی مقولات کو آج کے عصری سانچے میں مجسم کردیا، نشاندہی یہ کہ ’’پاکستان کی سیاست میں ایک خلاء ہے جو صرف پیپلز پارٹی پُر کرسکتی ہے۔ پاکستان کا لبرل طبقہ سیاسی قیادت سے محروم ہے، عمران خان ان کا انتخاب نہیں ہیں، اگر ان میں سے کچھ تحریک انصاف کی طرف مائل ہیں تو صرف نوازشریف مخالفت میں، جس نئی نسل کو ہم ان کے جلسے میں دیکھتے ہیں ان کا لبرل ازم سے کوئی تعلق نہیں، جو جانتے ہیں وہ ہنوز کسی قیادت اورجماعت کی تلاش میں ہیں، ان کا فطری انتخاب پیپلزپارٹی ہے جس کی قیادت سے وہ مایوس ہو چکے ہیں‘‘۔
اوربلاول کے موجودہ سیاسی سفر کے تناظر میں متوقع ٹریجڈی، یہ کہ؟ ’’ابھی تک جو کچھ سامنے آیا، یہ وہ تھکا ہوا اسلوب سیاست ہے جس کا تعلق 70ء کی دہائی سے ہے، نہ ندرت گفتارنہ ندرت افکار، مخالفین کو گائوں کی لڑاکا عورتوں کی طرح کوسنے دینا، وہی کشمیر اور بھارت کارڈ جو کب کا متروک ہو چکا، اس اسلوب سیاست میں پرانے لوگوں کے لئے کوئی کشش نہیں رہی تو نئی نسل کے لئے کیا کشش ہوسکتی ہے، مجھے یوں لگتا ہے گہوارے ہی میں یہ سیاست امید کے بجائے ناامیدی کے سانچے میں ڈھلتی جارہی ہے‘‘۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو عوامی خلاء، بے نظیر کی شہادت کے بعد اور آصف علی زرداری کی زیر قیادت منتخب حکومت کی آئینی مدت کے دوران میں صدا دینا شروع ہوگیا تھا۔ آصف علی زرداری جمہوری تسلسل کی آئینی تکمیل کے قومی نصب العین کی جدوجہد میں اپنوں اور غیروں کی سازشوں اور تخریب کاریوں سے لڑتے رہے، بلاشبہ ان کے ہاتھوں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ایسا کارنامہ سرانجام پایا جسے آئندہ نسلوں کی کامیابی و فلاح کی بنیاد قرار دیا جاسکتاہے یعنی منتخب حکومت نے اپنی آئینی مدت اقتدار مکمل کی، ملک کے ایوان حکمرانی میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا لیکن؟
لیکن ان پانچ برسوں کے دورانئے میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں موجود باقی تمام رہنمائوں کی اکثریت، چند استثناء کو چھوڑ کر، پیپلز پارٹی کے منشور، اس کی فکر، اس کے نظریات اور اس کی عوامی جدوجہد کے بجائے باہمی آویزشوں اور مادی ہوس کاریوں کی بے حد برہنہ اور بہیمانہ کارستانیوں اور چھینا جھپٹیوں میں قریب قریب پاگل پن کی سرحدوں کو چھونے لگے، پس پردہ قوتوں کی منصوبہ سازیوں، ’’عدالتی فعالیت‘‘ اور ’’میڈیا ٹرائل‘‘ کے ہتھیاروں سے پیپلز پارٹی کو بدنام اور اس کی منتخب حکومت کو ’’ناکام‘‘ کرنے کی ہوس پرستانہ فریب کاریاں اپنی جگہ، کوئی ان کے وجود کا منکرنہیں مگر؟
مگر یہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی، آصف علی زرداری کو نکال کر، مجموعی طور پر عوام کے اضطراب و پکار سے لاتعلق ہوتی چلی گئی، چاروں صوبوں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں اس کے لیڈروں کی اکثریت نے عوام کا اضطراب و پکار تو ایک طرف اپنے کارکنوں کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہ دی، ان قریب کے آٹھ برسوں میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے غریبوں، مزدوروں، کسانوں، عورتوں، نوجوانوں کی حالت زار اور سول فورسز کے ظلم و ستم، ہاریوں، جاگیرداری اور سرداری نظام کے قیدی عوام سے خودکو مکمل طور پر الگ کرلیا، وہ پارٹی جس کا بانی عوام کی عزت و حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے، تختہ دار کے مراحل پر کہہ اٹھا تھا! ’’یور لارڈ شپس، میری روح، میرا عزم اور میری قوت ارادی ہے اور یہ کہ میں ایک رہنما ہوں، ان وجوہات کی بنا پر میں اذیت بھری ابتلا کا سامنا کرنے کے قابل ہوں اور یہاں بھی حاضر ہوگیا ہوں، ایک عام آدمی کب کا تباہ و برباد اور بکھر چکا ہوتا، آپ نہیں جانتے کہ میں کتنا پریشان اوربدحال ہو چکا ہوں، میں ختم ہو چکا ہوں‘‘، اور وہ پارٹی جس کے بانی نے یہ بھی کہا تھا! ’’سرزمین کے آقائو‘‘ سنو! وقت عوام کے ساتھ ہے یعنی وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے، جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، جوں جوں دبائو بڑھتا جائے گا، جوں جوں عوام کا شعور بلند ہوتا جائے گا، توں توں پیپلز پارٹی طاقتور سے طاقتور ہوگی اورناقابل تسخیر بن جائے گی‘‘۔ اور کیا پیپلز پارٹی کی آج کی اس قیادتی اکثریت کو یاد نہیں رہا، اس نے یہ بھی کہا تھا؟ ’’میں نے طبقاتی منافرت نہیں پھیلائی ہاں البتہ مظلوم عوام کا علم یقیناً بلند رکھا ہے... اگرمیری زندگی میں ایسا نہ ہوسکا تو مرتے وقت آخری الفاظ میں اپنے بچوںسے وعدہ لوں گا کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کریں۔ میں نے اس ملک کے ہر غریب ماں باپ کے محروم ہاتھوں میں جنم لیا،میں صدیوں سے روتی ہوئی آنکھوں سے آنسو پونچھنے کے لئے ملک کے سیاسی افق پر شہاب ثاقب کی طرح ابھرا، میں تاریکیوں کو چھٹانے اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے تلوار لے کر آیا، مجھے کوئی ترغیب و تحریص عوام کے راستے سے نہیں ہٹا سکتی...... طاقت کا پلڑا اس طبقے کے حق میں پورا پورا جھکا ہوا ہے جس نے صدیوں در صدیوں سے تاریک گھروندوں پر حکومت کی، سر سے پیر تک مسلح، ناقابل تسخیر حد تک محفوظ پنڈتوں اور ڈاکوئوں کا یہ طبقہ بے زبانوں کو میری کمزور سی آواز مل جانے پر کیوں دانت کاٹنے لگتا ہے، کیوں خوف زدہ ہو جاتا ہے؟
جبکہ بلاول کی والدہ محترمہ، بی بی شہید نے اس یقین کا اظہار کیا تھا! ’’پاکستان پیپلزپارٹی کو آنے والے سالوں میں اب سے کہیں بڑا کردار ادا کرنا ہے، ان اصولوں کے مطابق ہمیں ملک میں جمہوری طرز زندگی، قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کی تمام بنیادی آزادیوں اور کم سے کم ریاستی مداخلت پر مبنی معیشت کے نظام کی تشکیل و ترویج کرنا ہوگی، جو لوگ اپنے عصر کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ نہیں ہوسکیں گے، جو لوگ طاقت اور تحفظ کی ماضی پرستانہ ثقافت میں زندہ رہیں گے، بالآخر وقت انہیں نگل لے گا، پاکستان پیپلز پارٹی کو اس لئے آنے والے سالوں میں رجعت پسند اور استحصالی قوتوں کے خلاف کہیں بڑی جنگ کرنا ہوگی‘‘۔
اب آپ چیئرمین بلاول کے سیاسی سفر کا مکالمہ اور عمل ذہن میں لائیں، جب آپ ایسا کرتے ہیں تب اس صاحب فہم و ادراک دانشور کا یہ قول آخر کیا واقعاتی سچ کی شکل اختیار نہیں کرلیتا یعنی آج کے عصر میں، بلاول کا بھارت اور کشمیر کو 70ء کی نعرہ باز قوم پرستی اور سیاسی اشتعال انگیزی کے روایتی ماضی میں رکھ کر، اپنے خطابات میں عوامی طاقت پیدا کرنے کی سیاسی حرکیات، ’’ایک تھکا ہوا اسلوب نہیں ہے‘‘۔ کیا چیئرمین بلاول بھٹو کو کوئی ایک شخص، بشمول ان کے والد گرامی، یہ بتانے یا قائل کرنے کی جرات یا بصیرت نہیں رکھتا، کہ لوگوں کے سامنے جنگی زبان، جنگی اصطلاحات اور جنگی شجاعت کی دھرانیوں کا عہد، انسانیت کے دربار میں اپنی افادیت اور معروضیت کی سند سے محروم ہو چکا ہے، گو اس کا چلن جاری ہے لیکن اسے آج کا انسان OWN کرنے کو تیار نہیں، ہندوستان، پاکستان اور کشمیر میں بھی ایسا ہی ہے، آج سرحدوں سے لے کر گھروں تک عالمی برادری کے عالمی کلچر یعنی مکالمے، دلیل اوراپنے اپنے مقدمات کی عالمی برادری میں کامیاب وکالت و سفارت کاری ہی احترام اور جوش کا تصدیق نام حاصل کرتی ہیں، سامعین کی صورت میںبیٹھے ہزاروں لاکھوں سامعین کو جنگ باز جذباتیت سے الرجی ہے، جب آپ ان کے ساتھ یہ ’’ترکیب‘‘ اختیار کرتے ہیں، وہ آپ کو مسترد تونہیں کرتے، ان کے ہاں ایک ’’افسوس‘‘ کی پیدائش ہوتی ہے جس کا سرنامہ ’’بلاول ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ، بی بی شہید اور آصف علی زرداری کا فرزند ارجمند بھارت اور کشمیر جیسے مسائل پر اپنے عصر کا پیغام کیوں نہیں سمجھ رہا؟ یہ پیغام جو صرف محض اور محض باہمی مکالمے کے الفاظ سے عبارت ہوتا ہے!
تازہ ترین