• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ مقالوں میں میں نے شعبۂ حیاتیاتی سائنس میں رونما ہونے والی حیرت انگیز دریافتوں کا ذکر کیاتھا جن میں نابینا افراد کا اپنی زبان کے ذریعے جزوی بینائی حاصل کرنا، معذور افراد کا سوچ کے ذریعے کنٹرول کے تحت چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا۔ جینیاتی امراض سے نمٹنے کے لئے جینیاتی سائنس میں بڑھتی ہوئی سمجھ بوجھ خلیہ جزعیہ (stem cells) کے ذریعے دل، گردے اور دیگر اعضاء کی پیوند کاری وغیرہ کا ذکر شامل تھا۔ شعبۂ زراعت میں جینیات کے استعمال کے لئے پہلے ہی بہت کوششیں کی جا رہی ہیں ۔عالمی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 2050ء میں یہ تعداد 9 کھرب سے بھی تجاوز کرجائے گی۔ہمارے سیّارے پر قابلِ کاشت علاقے محدود ہیں اور جس تناسب سے عالمی حدّت بڑھ رہی ہے ہم پانی کی شدید قلّت سے دو چار ہو سکتے ہیں اور نتیجے میں ہونے والی خشک سالی بہت تباہ کن ہو گی اور پاکستان ان رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بدترین شکار ہوگا لہٰذا اس ممکنہ آفت سے نمٹنے کے لئے فوری سائنسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ شعبۂ جینیات میں ہوئی موجودہ پیشرفت نے اس قسم کے حالات امید سے نبردآزما ہونے کے دروازے کھول دیئے ہیں ۔جینیاتی طور پر انجینئر کردہ ایسی فصلیں دریافت کر لی ہیں جو کہ بہتر غذائی خصوصیات کی حامل ہیں، زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتی ہیں اور کیڑوں کے حملوں سے مزاحمت کی بھی طاقت رکھتی ہیں اور مخصوص حالات میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جن میں پھپھوند مزاحم کیلے، وائرس مزاحم شکرقندیاں، کیڑے مزاحم گوار پھلی، زیادہ پیداواری باجرہ، خشک سالی روادار کساوا (cassava)وغیرہ شامل ہیں۔ جمیل الرحمٰن مرکز برائے جینیاتی تحقیق (Jamil ur Rahman Centre for Genomics Research) میرے ذاتی عطیے سے جامعہ کراچی میں قائم کیا گیا ہے جہاں دیگر جینیاتی تحقیقات کے ساتھ ساتھ حیاتی نمکیات کے ذریعے زراعت پر بھی تحقیق کی جائے گی تاکہ کھارے پانی اور سمندری پانی میں بھی فصلیں اگائی جا سکیں۔
فلپائن میں کاشت کی جانے والی جینیاتی طور پر انجینئر کردہ ’گولڈن چاول ‘ کی فصل میں پرو وٹامن شامل ہیں جو کہ ان ہزاروں بچّوں کی جان بچا سکتے ہیں جو کہ وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں۔ اب وائرس مزاحم کپاس، پپیتا اور ڈھیروں دیگر پودے تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہیں۔بہت سے لوگوں کو جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلوں کے استعمال سے صحت کو خطرہ محسوس ہوتا ہے لیکن اگر ملکی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے (غیر ملکی کمپنیوں سے فراہم کردہ نہ ہوں جن میں غیر ملکی تخم ہی پر انحصار کا خطرہ ہوتا ہے) اور تمام حفاظتی اقدامات کو مناسب طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو جینیاتی ترمیم شدہ فصلیں زرعی پیداوار کو بہت فروغ دے سکتی ہیں۔ جینیاتی ترمیم شدہ فصل کے استعمال سے اب تک کسی بھی موت یا بیماری کی اطلاع نہیں ملی ہے۔زراعت میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سی فصلیں موسمی ہوتی ہیں۔ یہ ان پودوں میں موجود ایک مخصوص کیمیائی نظام کے تحت ہوتا ہے جو ان میں پھول دینے کے وقت کو مقرر کرتا ہے تاکہ فصل کو وسیع علاقے تک پھیلانے کے لئے وہ کیڑوں کو اپنی طرف متوجہ کریں ۔سائنسدان اس نظام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس عمل میں کون سے جینز کارفرما ہیں۔اب ییل (Yale) کے ادارے Molecular, Cellular, and Developmental Biology کے پروفیسر Xing Wang Deng, the Daniel C. Eaton اور ان کے ساتھی( (DDET1 نامی جین دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو پودوں میں ان عوامل سے منسوب ہیں۔ ان قدرتی حیاتیاتی گھڑیوں (biological clocks )کو قابو کرنے سے تمام فصلیں اپنے موسم کے بجائے سال کے کسی بھی وقت حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
یہ جینیاتی کاریگری صرف نباتاتی طبقے تک ہی محدود نہیں بلکہ اسے جانوروں پر بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ علم ِ طب کے شعبے میں وارثی معالجے ( Gene therapy )کے ذریعے مخصوص استعمال ڈھونڈنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس طرح دریافتوں کا ایک نیا جہاں ہمارے سامنے ہے۔ چھاتی کے کینسر میں جینیاتی تبدیلیوں کااستعمال ایک حیرت انگیز دریافت ہے۔ کینسر میں سب سے مشکل مرحلہ ان خلیات کی موجودگی اور ان کی جگہ کی شناخت کرنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں جامعہ ٹفٹس (Tufts University ) کے پروفیسر ڈیوڈ کپلان اور ان کے ساتھی مکڑی کے ریشم پروٹین میں ردّوبدل کر کے جگنو ے پروٹین (یہ وہی پروٹین ہے جو اندھیرے میں چمکتا ہے)کے ملاپ سے چھاتی کے کینسر کے خلاف ایک نیا وارثی معالجہ ( gene therapy) دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں یہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ پروٹین جب چھاتی کے کینسر میں مبتلا مریضوں میں ڈالا جاتا ہے تو یہ پروٹین منتخبانہ طور پر کینسر خلیات سے جڑ جاتے ہیں نتیجے میں خارج ہونے والی چمک سے کینسر زدہ حصے کی شناخت فوری طور پر ہو سکتی ہے۔
بہت سے سائنسدان لیبارٹریوں میں عمر درازی کے عمل کو دھیما کرنے یا روکنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں بلکہ درازیٔ عمر کے ذمہ دار جینز کے عمل میں رکاوٹ ڈال کر عمر بڑھنے کے عمل کو روک کر اور عمر کو کم کرکے ہمیں جوان اور توانا بنانے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی اور آسٹریلوی محققین کی ایک اور ناقابل ِیقین دریافت یہ ہے کہ انہوں نے عمر درازی کے خلاف ایک ایسا مرکّب تیار کر لیا ہے جس کے ذریعے چوہوں کی عمر کم کی جاسکتی ہے اور جلد ہی انسانوں پر بھی اس کا طبی ٹیسٹ کیا جائے گا۔ جامعہ ہارورڈ کے محققین نے بڑھتی عمر کو پٹّھوں کے ذریعے کم کرنے کا طریقہ دریافت کیا ہے۔ جب دو سال بڑے چوہوں کو یہ مرکّب
( called nicotinamide adenine dinucleotide, or (NADایک ہفتے تک دیا گیا تو اس نے حیاتیاتی عمر درازی کے عمل کو کم کرکے انہیں چھ ماہ کے چوہوں جیسا کر دیا۔ یہ عمل بالکل ایسا ہی تھا جیسے 60 سال کا انسان 20 سال کابن جائے۔ یہ مرکّب انسانی جسم میں قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوجاتا ہے۔سائنسدان امید کررہے ہیں کہ اس عمر کو پیچھے کرنے کے عمل کے ذریعے وہ کچھ اہم امراض ذیابیطس، یادداشت کھو جانے والے امراض اور کینسر جیسے امراض کا بہتر علاج کر سکیں گے۔
ایک اور دلچسپ دریافت جامعہ میک ماسٹر، کینیڈا McMasterUniversity اور جامعہ ٹیوبن گن، جرمنیUniversity of Tubingen کے سائنسدان ’طاعون‘ (Yersinia pestis)کے مرتکب بیکٹیریا کے مکمل جرثومے کی ساخت و ترتیب معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔یہ وہ بیکٹیریاہے جس کی ہلاکت خیز تاثیر کی وجہ سے1330 ء سے 1347ء کے دوران اس سیّارے کی ایک چوتھائی آبادی موت کی آغوش میں چلی گئی تھی اور اس دور کو’سیاہ موت‘یا "Black Death" سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس بیکٹیریا نے 1330ء کے دوران ایشیائی مشرقی علاقے سے جنم لیا اور 1940ء کے دوران یورپ پہنچا اور عالمی سطح پر 7.5 کروڑ افراد کی ہلاکتیں ہوئیں ۔ اب بھی تقریباً ہر سال 2,000 ہلاکتیں اسی بیکٹیریا سے ہوتی ہیں۔ اس بیکٹیریا کے مکمل جینوم کی ترتیب کو سمجھنے سے اس موذی مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کافی مدد ملے گی۔جرثومے کی ترتیبی مہارت (genome sequencing technologies) میں تیزی سے ہونے والی پیشرفتوں نے علمِ طب میں امراض کو سمجھنے کی نئی راہیں کھول دی ہیں اور اب امراض کو زیادہ باریکی سے سمجھا جا سکے گا۔خرد حیاتیات کی جینیاتی ساخت معلوم کرنے سے ان جراثیم کے کمزور حصے شناخت ہوئے ہیں جس کی بدولت ادویات سازی میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
ایک نیا شعبہ ذاتی طب بھی بڑی تیزی سے ترقی کررہا ہے جو آبادی کے مختلف گروپوں کے افراد کی جینیاتی ساخت کے مطابق ادویات ترتیب دے گا۔2002؁ء میں اعلی ٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد پاکستان نے بھی بڑے پیمانے پر مختلف حیاتیاتی سائنسوں میں کافی تیزی سے قدم بڑھائے تھے لیکن ان پروگراموں کو سابق وزیرِ تعلیم جو خود جعلی ڈگری کے حامل تھے اور دیگر جعلی ڈگریوں کے حامل 200 معزز پارلیمانی اراکین کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ خوش قسمتی سے میری پاکستان سپریم کورٹ میں دو پٹیشن دائر کرنے پر اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حمایت کی بدولت ایچ ای سی بچ گیا ہے۔ قوم کو میاں نواز شریف کا نہایت شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے ایچ ای سی کی خود مختاری کی بھرپور حمایت کی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے منشور کا حصہ بھی بنایا۔اس وقت حکومت کے سامنے ایک بڑا فیصلہ نئے چیئرمین ایچ ای سی کا انتخاب ہے ۔ HEC کے قانون کے مطابق نئے چیئرمین کا عالمی شہرت یافتہ معلم ہونا لازمی ہے لیکن خبریں یہ ہیں کہ بہت سے لوگ جو علمی لحاظ سے بہت کمزور ہیں وہ سیاسی کوششیں کر رہے ہیں کہ ان کو منتخب کر لیا جائے یہ HECکے قانون کے خلاف ہوگا اور اس سے HEC کو بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کسی عالمی شہرت یافتہ عالم کو HEC کا چیئرمین منتخب کرے گی۔ اگر پاکستان ایک مضبوط اور طاقتور علمی معیشت کے طور پر ابھرنا چاہتا ہے اور غربت، تخریب کاری کے معاملات سے چھٹکارا اور سماجی و اقتصادی ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہمیں جامعات کو مربوط و مضبوط کرنے کی راہ پر چلتے رہنا ہوگا۔
تازہ ترین