یوں تو ہمارے مرد ادیبوں نے اپنی خود نوشت میں مردانگی کے تیر بہت چلائے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ خواتین خود نوشت میں کیا لکھتی ہیں اور ان کی تحریروں میں بھی چسکا ہوتا ہے کہ محرومی کی کہانیاں، سوال کرنے والی خلقت تھی اور جواب دینے والیوں میں عذرا عباس، عطیہ دائود، ش۔ فرخ اور میں خاکسار ۔ عذرا نے اپنی تحریر ’’میرا بچپن‘‘ کا جواز یہ پیش کیا کہ جب کبھی وہ زمانے اور گھر والوں سے ناراض ہوتی تھی، وہ اپنے بچپن کی جانب رخ کرتی تھی اور پھران یادوں کو وہ تحریر میں منتقل کرتی تھی۔ اس نے یاد کیا کہ کیسے وہ گلی ڈنڈا کھیلتی اور اپنی عمر کے لڑکوں کو بدتمیزی کرنے پر گالیاں دیتی تھی۔ عطیہ کا تجربہ کچھ اور تھا وہ ہر چند ایک مولوی کی بیٹی ہے مگر اس کے ماموں اور چچا، باہر پڑھے ہوئے تھے اس لئے جب عطیہ نے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنی شروع کیں تو سب نے سراہا۔ اس کے پڑھنے اور آگے بڑھنے کو بھی محبت کی نظر سے دیکھا۔ وہ بھی عذرا کی طرح خوش قسمت نکلی کہ اس کو نہ صرف پسند کا بلکہ باہمی محبت والا شوہر ملا۔ یہ دو طرفہ محبت نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں بہت مدد دی۔ شاعری میں بھی اور زندگی کے مسائل سمجھنے میں بھی۔ ش۔ فرخ کا معاملہ اور طرح کا تھا اس نے 30 برس صحافتی زندگی میں گزار کر ان تجربات کا احاطہ کیا جو زندگی کے اندرون اور بیرون دونوں ذائقوں کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ اس نے اپنے گھر میں لگے کیکٹس کو اپنی زندگی کے زاویوں سے متصل کیا۔ وہ ایک پھول جو کیکٹس میں سال بھر میں ایک دفعہ چہرہ نمائی کرتا ہے اسی طرح زندگی بھی گھر میں لگے کیکٹس کی طرح ہی تھی خود سے سوال کرتی اور اس خود کلامی کو جوابوں میں منتقل کرتی، ش۔ فرخ نے ’’جینے کی سزا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت کو مرتب کیا۔میرے لئے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی کہ اول تو میری کتاب شائع ہوئے بیس برس گزر چکےتھے۔ جن دنوں اور جن حالات میں، مجھے کتاب لکھنے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ تب میں پچاس برس کی ہوئی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ برصغیر میں ان پچاس برسوں میں جو عورتوں پر گزری ہے اس کو واحد متکلم کے بیانیے میں منتقل کردوں کہ میری پیدائش قرار داد پاکستان کے ساتھ ہوئی بچپن نے تقسیم کے وقت قتل و غارت اور اغوا کی ہولناک داستانیں دیکھیں اور سنیں۔ جوانی آئی تو پاکستان دو لخت ہوگیا۔ مجھے ڈھاکہ اور سلہٹ کی یادیں ویسے بھی ستانے لگیں جیسے انتظار حسین کو بلند شہراور میرٹھ کی یادیں چٹکیاں لیتی تھیں۔ زندگی کا یہ احوال تھا جس نے سات سالہ برقعہ اوڑھنے والی لڑکی کو بیس سال کی عمر میں برقعہ اتارنے اور لڑکوں کے ساتھ مشاعرے پڑھنے اور مباحثوں میں حصہ لینے کی سزا، فوری شادی کرنے کی شکل میں ملی، یہ ساری تحریر’’بری عورت کی کتھا‘‘ بن گئی۔ ابھی میں یہاں تک پہنچی تھی کہ میرے سامنے عظمیٰ گیلانی اپنی خود نوشت ’جو ہم پہ گزری‘‘ لیکر کھڑی ہو گئی۔ دہلی کے آب شیریں میں دھلے ہوئے بچپن کو لئے، بہاولپور کی روایتی سرزمین میں پل کر جوان ہوئی۔ اس نے دو پیارے بچوں کو پیدا کرنے سے پہلے یہ نہ سوچا تھا کہ وہ ٹی وی کی بہترین فنکارہ بن کر ابھرے گی۔ زندگی کی معراج کو چھونے کے بعد،ایک دم کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو جائے گی۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا تھا کہ شہرت کی بلندیوں پر اشتہاری کمپنی کی مالک ہوکر، دھڑام سے وہ کمپنی زمین پرآ رہے گی اور اسے زندگی کے جھمیلوں سے نمٹنا پڑے گا۔جب میں عظمیٰ کی ابتدائی زندگی کے حالات پڑھ رہی تھی تو میں ادا جعفری کو خود نوشت کے ابتدائی ابواب یاد کرنے لگی۔ وہی مشرقی معاشرہ، وہی لڑکیوں پر پابندیاں، خبردار جو کوٹھے پہ چڑھ کے بال سکھائے،کوئی جن عاشق ہوجائےگا۔ خبردار جو دوپٹہ سینے سے ذرا اوپر ہوا۔ خبردار جو مردان خانے میںتمہاری آواز پہنچی۔ یہ ساری باتیں پرت در پرت کھل گئیں جب یہ سب عورتیں ریڈیو اور ٹی وی پر آئیں۔ ابھی یہ خواتین کی خود نوشت کی تحریر سمیٹ رہی تھی کہ میرے سامنے اختر مرزا کی کتاب ’’اردو ریاست‘‘ آگئی۔ اختر کو 50 سال سے شوق ہے کہ ادیبوں کی تصویریں اتارے۔ ان کے بارے میں کچھ لکھے۔ اس کے لئے اختر نے شہر شہر دورے کئے۔ ادیبوں کے سامنے دو زانو بیٹھا اور کوشش کی کہ اپنے کیمرے کو ان کی فنی زبان دیدے۔یہ کتاب مختصر نہیں۔ 600 صفحات پر محیط ہے ہر ادیب کی کئی تصاویر کو کبھی شعروں سے آراستہ کیا ہے اور کبھی دوسرے دوستوں کی تحریروں سے مزین کیا ہے کسی قسم کے صلے کی پروا کئے بغیر اپنا ذاتی سرمایہ لگا کر ’’اردو ریاست‘‘ سامنے لایا ہے۔ مجھے ایک شکایت ہے کہ ٹائٹل پر گرانقدر ادیبوں کی تحریری ہیں۔ بلکہ تصویریں ہیں مگر کسی خاتون کی تصویر شامل نہیں ہے۔ یہیں یہ احساس جاگزین ہوتا ہے کہ سنجیدہ ادب کو صرف مردوں سے متصل سمجھ کر، زندگی کو مکمل سمجھا جاتا ہے۔ ادب کی اس تاویل سے اختلاف رکھنے کے باوجود اختر مرزا کی کتاب کی ادبی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہماری تمام لائبریریوں میں اس کتاب کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ ساری یونیورسٹیوں میں اس کتاب سے فائدہ اٹھانے والے بے شمار طالب علم موجود ہونگے۔ بہت سی بھولی بسری یادیں یہ کتاب شمع کی طرح جلا دیتی ہے فیض صاحب ہوں کے فراز، قاسمی صاحب ہوں کہ اشفاق احمد، یہ ہماری قربتوں کی سند ہیں۔ البتہ چند ایسے اصحاب کا احوال ہے جو عورتوں کو صحن میں آنے سے بھی منع کرتے تھے۔ اختر مرزا کے بقول کیمرا ہر زمانے کو ریکارڈ کرتا ہے ساری عمر کی محنت جو کتابی شکل میں ہے تو مجھے اس کی ساری خطائیں معاف کردینے اور میرے عنوان کو اصلیت دینے کی شکل ہے۔ صفحے پلٹتی جاتی ہوں مسکراتی جاتی ہوںکہ ان میں سے بیشتر دانشوروں کے قدموں میں ہمیں بھی بیٹھنے کا شرف حاصل رہا ہے۔