• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نوازشریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں قومی سلامتی پالیسی کی منظوری اور جنگ بندی کرنے والوں سے مذاکرات کرنے کے فیصلے نےآپریشن فوبیاکاشکارحلقوںکی امیدوں پر پانی پھیردیا ہے۔ جو توقع کررہے تھے کہ حکومت فوجی آپریشن کا اعلان کرکے چاروں طرف خطرات سے گھرے پاکستان کو ایسی آگ میں دھکیل دے گی جس سے بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر نہ آئے۔ حکومت نے جنگ بندی کرنے والے طالبان سے مذاکرات کرنے اور محدود فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرکے بظاہر حکیمانہ راستہ اختیار کیا ہے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا ملٹری آپریشن نہ کرنے پر فوج کو ’’ٹیک اوور‘‘ کرنے کی دعوت دینے کابیان ہرلحاظ سے افسوسناک اور مایوس کن ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہ بیان غیر جمہوری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔انہیں ایسے بیانات ہر گز نہیں دینے چاہئیں۔انہی کالموں میں میں نے عرض کیا تھا کہ کچھ اندرونی اور بیرونی قوتیں پاکستان میںجمہوریت کوپھلتاپھولتانہیںدیکھ پارہیں۔وہ پاکستان میںآمریت کے ذریعے اپنے عزائم کا حصول چاہتی ہیں۔الطاف حسین کےحالیہ بیان کوعالمی گیم پلان کے اسی تانے بانے کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔کراچی،مہمند اور کوہاٹ کے واقعات اور قبائلی علاقوںمیںسرجیکل اسٹرائیکس کے باوجود حکومت اور طالبان دونوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کی خواہش اچھی اور مثبت پیش رفت ہے۔حکومت کاکہنا ہے کہ اگر طالبان غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کردیں تو مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔طالبان بھی مذاکرات کے خواہشمند ہیں۔وہ یہی چاہتے ہیں کہ دوطرفہ سیزفائرہوتومعاملات خوش اسلوبی سے حل ہوسکتے ہیں۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ آئندہ چند دنوں میںدوطرفہ جنگ بندی کی طرف بات بڑھے گی اور حالات بہتری کی طرف گامزن ہوںگے۔وزیر اعظم نوازشریف نے عوامی توقعات کے مطابق فی الحال آپریشن نہ کرنے کا فیصلہ کرکے ملک کو مزید تباہی وبربادی سے بچالیا ہے۔انشاء اللہ اس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔طالبان کو بھی متوازن انداز فکر اپناناچاہئے۔وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت آپریشن مخالف جماعتوں کے موقف کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ ڈائیلاگ ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ملٹری آپریشن سے ماضی میں نہ کبھی مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ آئندہ اس سے کوئی معاملہ حل ہوسکتا ہے۔اس تناظر میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کایہ کہنا مبنی بر حق ہے کہ جماعت اسلامی کو کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ لینے کی ضرورت نہیں۔کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کیلئے جماعت اسلامی کی کیا قربانیاں ہیں؟آج بھی وفائے پاکستان کےجرم میں سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی قربانیاں دے رہی ہے۔پاکستان کی سلامتی کے ادارے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ہر آڑے وقت میں ملک وملت کیلئے جماعت اسلامی نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔جماعت اسلامی کی قیادت نے ہمیشہ وقت اور حالات کی نزاکت کے مطابق ملکی وقومی مفاد میں فیصلے کیے ہیں۔موجودہ ملکی منظرنامے میں بھی جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کا موقف درست ثابت ہورہا ہے اور ہماری سول اور فوجی قیادت بالآخر اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ محض فوجی آپریشن سے حالات پر قابو نہ پایا جاسکے گا۔آج مذاکراتی عمل میں جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم شریک ہیں اور پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے نکالنے کے لئے اپناکردار اداکررہے ہیں۔مسلم لیگ(ن)جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی سوچ یہی رہی ہے کہ نائن الیون کے بعد خطے میں امریکی کردار کو ختم کیے بغیر امن کاقیام ممکن نہیں۔مستحکم افغانستان جنوبی ایشیاء میں امن کاضامن ہے۔افغانستان میں حالات کی بہتری سے ہی پاکستان سے امریکی مداخلت کا خاتمہ ہوسکے گا۔پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو قبائلی علاقوںمیںملٹری آپریشن کامشورہ دینے والے درحقیقت ملک وقوم کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ان کا مقصد کراچی اور بلوچستان کی صورتحال سے حکومت کی توجہ ہٹانا ہے۔ہماری سول اور فوجی قیادت کو ان سے خبردار ہونا چاہئے۔ان کا ایجنڈا جنوبی ایشیا میں امریکہ کی سرپرستی میں بھارت کی چوہدراہٹ قائم کرنا ہے۔ہمیں ملک دشمن قوتوں کے ان عزائم کوکسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔دانا دشمن سےنادان دوست زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ایسے دوستوںکے مشوروں پر حکومت کو عمل پیرانہیں ہونا چاہئے۔یہ نادان دوست چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکی جنگ میںگرفتاررہے اور جوکچھ باقی بچا ہے اسے بھی گنوادیاجائے؟حکومت کوکراچی،بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں امن وامان کی ناگفتہ بہ صورتحال کو جلدی کنٹرول کرنا چاہئے۔11مئی کے الیکشن کے بعد سے حکومت امن وامان کوہی ٹھیک نہیں کرپائی باقی دیگربڑے ملکی مسائل کوکیسے حل کرے گی؟۔مہنگائی اور بدترین انرجی بحران نے پوری قوم کا جینا محال کردیا ہے۔آئی ایم ایف نے قرض دے کرایسےشکنجےمیں پاکستان کوجکڑ دیا ہے کہ پہلے سے پسے ہوئے غریب عوام کابھرکس نکل گیا ہے۔ اوپر سے سونے پر سہاگہ کہ حکومت نے وفاقی کنٹریکٹ ملازمین کومزیدایکسٹینشن نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔چھوٹے سرکاری ملازمین جووفاق کے تحت اداروںمیں کام کرتے ہیں ان کیلئے یہ خبرتازیانہ بن کربرسی ہے۔گریڈ1سے گریڈ15تک کے وفاقی حکومت کےکنٹریکٹ ملازمین کیساتھ یہ سلوک سراسر ناانصافی اور زیادتی ہے۔وفاقی حکومت کو یہ ظالمانہ فیصلہ فوری واپس لینا چاہئے اور مہنگائی کے اس دور میںاسے تو عوام پر رحم کھاناچاہئے۔گزشتہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں کنٹریکٹ ملازمین کووفاقی اداروں میں مستقل کرنے کافیصلہ کیاگیا تھا لیکن اس پرمکمل عملدرآمد نہیں کیاگیا۔نوازشریف حکومت کنٹریکٹ ملازمین کومستقل کرکے اب یہ نیکی کماسکتی ہے۔اب کیا کیاجائے آوے کا آوا ہی خراب ہے۔رہی سہی کسر اہم قومی اداروںکی نجکاری کے عمل کے ذریعے پوری کی جارہی ہے۔آئی ایم ایف کے اشارہ ابروپر ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے اداروں کی تباہی کررہے ہیں۔ واپڈا، پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے سمیت کئی دیگر اہم اداروںکونجکاری کے عمل سے گزارا جائے گا۔لگتا ہے کہ حکومت کوعوام کی حالت زار پر ترس نہیں آرہا۔پاکستان ریلوے جوکہ ایک قومی ادارہ ہے اس پر بھی حکومت وقت کو توجہ کی ضرورت ہے۔گزشتہ دنوں ریلوے پریم یونین کے مرکزی رہنما شیخ انور نے میڈیاکو بتایا کہ اگر وفاقی حکومت اس اہم قومی ادارے کو 200ارب روپے کابیل آئوٹ پیکج دے توحالات معمول پر آجائیں گے اور ریلوے دوبارہ نفع بخش ادارے کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔شیخ انور کاکہناتھا کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ریلوے میں نجکاری کے مخالف ہیں اور وہ اس اہم ادارے کی بحالی کا عزم رکھتے ہیں۔اس حوالے سے ریلوے کے مزدوروںاور وفاقی وزیر کی سوچ میں مماثلت پائی جاتی ہے جوکہ نیک شگون ہے۔ریلوے کی وزارت سنبھالنے کے بعد خواجہ سعد رفیق نے اس سلسلے میں خاصے اقدامات کیے ہیں۔خواجہ سعد رفیق نے وزیر بننے کے بعد ریلوے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ بدحال ریلوے کوعوام کی امیدوں کے مطابق دوبارہ اس قابل ضرور بنائیں گے کہ وہ غریب عوام کو سستی سفری سہولت فراہم کرسکے۔ 2014ء کا سال ہمیں بڑی حکمت وتدبیر کے ساتھ گزارنا ہوگا۔ عالمی منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے۔ان بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ افغانستان سے امریکی و نیٹو فورسزکے انخلاء کے بعد جنوبی ایشیا میں بڑی تبدیلی دستک دے رہی ہے۔امریکہ افغانستان سے جتنی جلدی ممکن ہوسکے فوج نکالنا چاہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستانی حکومت نے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی بجائے مذاکرات کوترجیح دے کر فی الواقع اچھی اور درست حکمت عملی اپنائی ہے۔جب تک ایک بھی امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہے۔
تازہ ترین