• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خلوص و مہر و وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
میرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں
یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجئے جو فیصلہ عوام کریں
ناصر کاظمی کے مندرجہ بالا اشعار آج کل ملکی حالات کے تناظر میں حسب حال ہیں۔ الطاف بھائی نے تو پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ اگر حالات نہیں سنبھل رہے تو فوج کو اپنا کردار ادا کرنے دیں۔ الطاف بھائی حوصلے والے ہیں اور جو بات ان کے دل میں آتی ہے کہہ دیتے ہیں جب کہ دوسرے لوگ مصلحت پسندی کے چکر میں دل کی بات دل ہی میں لئے بیٹھے رہتے ہیں۔ الطاف بھائی کی اس بات پر سیاستدانوں کی طرف سے کافی ردعمل آیا، خاص طور پر جو لوگ جمہوریت کی آڑ میں سیاسی دکانیں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنی ذاتی معاشی حالت روز بروز بڑھا رہے ہیں انہیں الطاف بھائی کی بات بہت بری لگی، کیونکہ فوج جب آتی ہے تو پھر سب سے حساب لیتی ہے اور خاص طور پر کرپشن سے کمائے ہوئے پیسے کا۔ اسی لئے تو جمہوریت پسند طاقتیں فوراً یکجا ہوجاتی ہیں اور مفاہمتی پالیسی کا سہارا لے کر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی ہیں۔ حکومتی پارٹی سے وابستہ سیاستدانوں کے کاروبار اور اثاثے دیکھیں تو حیرت دنگ رہ جاتی ہے۔ ان لوگوں کے اقتدار میں آنے سے پیشتر کے اثاثے اور ان کے زیر استعمال گاڑیوں کی حالت زار اور اقتدار کے حصول کے بعد کے اثاثے اور گاڑیاں دیکھیں تو آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں۔ یقیناً ایسے لوگ جمہوریت سے پیار کرتے ہیں اور کسی صورت میں بھی جمہوریت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ مگر دوسری طرف غریب جمہور کا حال دیکھیں۔ وہ نان شبینہ سے بھی محتاج ہے اور 8 سے 10 ہزار روپے مہینے کی تنخواہ (وہ بھی اگر مل جائے) میں گھر کا بجٹ چلانے کا معجزہ رونما کرنے میں ان کا سارا وقت گزر جاتا ہے۔ اب تو جمشید دستی کے بیان نے جمہوریت پرستوں کی صفوں میں نئی ہلچل مچا دی ہے اور پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والی کارروائیوں سے پردہ اٹھا کر بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی اس جرأت نے پارلیمنٹیرین کو دفاعی بیانات دینے پر مجبور کر دیا ہے، جبکہ وہ جوان کا بچہ اپنے بیان پر ڈٹا ہوا ہے۔ کچھ نے بیان کی تائید کی اور اکثریت نے بیان کی مخالفت کی۔ بہرحال اب یہ نئی بحث چل نکلی ہے یا تو یہ فوراً ہی دفن ہوجائے گی یا پھر اس کے دوررس اثرات ہوں گے اور اب جمہوریت اور جمہوری اداروں کو اپنا ضابطۂ اخلاق ملحوظ خاطر رکھنا پڑے گا۔ جمشید دستی ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ عوامی آدمی ہیں اور ان کی وجہ شہرت بھی ان کی یہ باتیں ہیں جو وہ اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں۔ میں نے کالم کی ابتداء موجودہ حالات میں فوج کے کردار سے کی تھی اور اب اس بات کو تھوڑا آگے بڑھاتا ہوں۔ میں نے اپنے سابقہ کالموں میں بار بار کراچی آپریشن پر لکھا ہے اور اس کی کامیابی کی کئی مرتبہ تعریف بھی کی ہے، مگر میرا سوال ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ آپریشن کے دوران ہزاروں کی تعداد میں گرفتار ہونے والے افراد کے مقدمات کی سماعت کون سی عدالتوں میں ہوگی۔ تحفظ پاکستان آرڈی نینس کے تحت قائم وفاقی حکومت کی عدالتیں اتنی بڑی تعداد میں کیسوں کی سماعت نہیں کرسکتیں۔ اس کے لئے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کر کے کوئی سمری پروسیجر ڈالا جائے۔ سرسری سماعت کی عدالتیں قائم کی جائیں جو کہ فوراً سماعت کے بعد فیصلہ سنائیں۔ آپ یاد کریں ماضی قریب میں لندن میں ہنگامے شروع ہوئے تھے مگر وہاں کی عدالت نے ہنگاموں کے دوران ہی اپنے فیصلے سنا کر ملزموں کو سزائیں دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہنگامے رک گئے۔ اب بھی اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ گرفتار شدہ لوگوں کے کیس فوری طور پر عدالتوں کے حوالے کئے جائیں اور اس طرح عدالتیں سمری پروسیجر اڈاپٹ کرکے فوری طور پر کیسوں کا فیصلہ کریں۔ اس طرح عوام کو بھی اعتماد آجائے گا۔ بے گناہ افراد جلدی بری ہو جائیں گے اور گناہ گار کو اسی روز سزا ہو جائے گی۔ کچھ لوگ تو سمری ملٹری کورٹ بنانے کے حق میں ہیں اور اس طرح انہیں اعتماد میں لے کر فوری کیسوں کی کارروائی شروع کی جائے۔ جب تک سمری ملٹری کورٹ نہیں بنیں گی اس وقت تک جرائم میں کمی واقع نہیں ہو گی اور قارئین روز اخبار میں نئی نئی خبریں پڑھتے رہیں گے۔ چوہدری نثار نے قومی پالیسی کا اعلان کیا ہے، ابھی تک اس کا مسودہ میری نظر نہیں سے گزرا۔ اسے بھی پڑھ کر دیکھ لیں گے۔ میں نے ٹی وی پر چوہدری صاحب کی پریس کانفرنس دیکھی ہے۔ اس میں تو کوئی خاص بات نہیں تھی۔ اب مسودہ پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ کیا لکھا ہے۔ فی الحال مجموعی طور پر لوگ حکومت سے کافی مایوس نظر آتے ہیں اور اس کی خاص وجہ لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور موجودہ عدالتی نظام ہے۔ اس کے علاوہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ اس قوم پر اپنا خصوصی کرم فرمائے اور جو ملک کی سلامتی اور ترقی کے لئے بہتر ہو، وہی کرے۔ آخر میں حسب سابق دعائیں ہیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ خدا ہماری دعائوں کو قبول کرے۔ آخر میں افتخار عارف کے اشعار پیش کرتا ہوں
بہاریں جس کی شاخوں سے گواہی مانگتی تھیں
وہ موسم ہمیں اب بے ثمر کیوں لگ رہا ہے
در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں
خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
تازہ ترین