• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غریب پرور کراچی کو مقتل بنانے والوں کی سوچ تو ظاہر و باہر ہے لیکن ایک ایسی سوچ بھی استقامت کا جامہ زیب تن کئے ہوئے ہے جو منفی سوچ تلے جنم لینے والے مکروہ عزائم کو تہہِ خاک کرنے کیلئے محبانِ وطن کو عمل پر اُبھارتی رہتی ہے۔ میدان مختلف ہوتے ہیں لیکن مقصد ایک یعنی امن و آشتی اور محبت… پختون تھنکرز فورم جو ایک عشرے سے تہذیبی ،ثقافتی اور علمی محاذ پر منفی رجحانات کے خلاف عَلم بلند کئے ہوئے ہے۔ گزشتہ روز آرٹس کونسل کراچی میں اس کے بینر تلےجو سیمینار اور پشتو ثقافتی پروگرام ہوا وہ دہشت زدہ ماحول میں بے کیف دلوں کیلئے روح و سرور لئے ہوئے تھا ۔ اس تقریب کی دو نشستیں 8گھنٹے طویل دورانیہ پر مشتمل تھیں لیکن حاضرین کا ذوق و شوق دیدنی تھا اور یہ اس بات کی علامت تھا کہ اہل وطن گھٹن کے ماحول سے نکلنا چاہتے ہیں۔ رنگ و نور اور علم و دانش کی سوغات لئے یہ تقریب بالخصوص اس حوالے سے یادگار ہے کہ یہ پشتو کے لازوال شاعر خوشحال خان خٹک کی چار سو ویں اور کلاسیکل شاعر غنی خان کے صد سالہ یوم پیدائش کی مناسبت سے منعقد کی گئی۔ جس کی صدارت پشتو اکیڈمی آف پشاور یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک نے کی اور اعزازی مہمان اسلامیہ یونیورسٹی پشاور کے شعبہ پشتو کے سربراہ پروفیسر اباسین یوسف زئی تھے۔ پختونخوا سے آئے ہوئے یہ مہمانانِ گرامی گردشِ لیل و نہار کے تناظر میں جب معروضی صورتحال پر پشتو ادب کے استاد خوشحال خان خٹک اور موجودہ صدی کے نابغہ روزگار ادیب و شاعر غنی خان کے کلام پر گفتگو کر رہے تھے تو محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ دونوں عظیم ہستیاں اس وقت ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہمیں موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے عزم و ہمت عطا کر رہی ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری نے اس مظلوم شہر کی کیا خوب نمائندگی کی ۔ثقافت پر ڈاکٹر فوزیہ خان کا مقالہ اس امر کا مظہر تھا کہ 6ہزار سال قدیم پختون قوم کی تہذیبی و تمدنی زندگی کا اثاثہ ثقافتی طور پر آج بھی روایت پسند عوام کے پاس محفوظ ہے اور اس نے تغیر وتبدل کا خال خال ہی اثر لیا ہے البتہ جدیدیت نے بعض صورتوں میں اسے نکھارا بھی ہے۔محفل موسیقی میں نامور پشتو گلوکاروں بختیار خٹک، فیاض خان، ناصر کریمی نے جوان جذبوں کو مہمیز دی۔ پروفیسر ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک نے ’’گوئٹے اور خوشحال‘‘ کے زیر عنوان جو پُر مغز مقالہ پیش کیا اسے کسی ایک کالم میں نہیں سمویا جا سکتا۔ تاہم اس کے بعض دلچسپ حقائق آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ، فرماتے ہیں پشتونوں اور جرمنوں میں کچھ قدریں مشترک ہیں۔ رنگ و نسل اور کسی حد تک مزاج اور فطرت بھی اور جو مشترک نہیں ہیں وہ صاف ’’ظاہر ‘‘ ہیں۔ ہر چند کہ بعض لوگ پشتونوں کو کئی اوصاف کی بنا پر ایشیاء کے جرمن کہتے ہیں اور جرمنوں کو یورپ کے پشتون پکارا جاتا ہے لیکن بہت ساری مشابہتوں کے باوجود، دونوں اقوام کے افراد کی نفسیات، اخلاق و عادات اور شاید قسمت و نصیب میں بہت فرق ہے۔ جرمن آج کل دنیا کی مالدار ترین اور ترقی یافتہ قوم ہے اور پشتون سب سے پسماندہ اور غریب ترین قوم ہے۔ جرمن اپنے قومی کردار کی رو سے اپنے تشخص کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں اور پشتون اس صفت سے غافل و بے پروا ہیں لیکن پھر بھی دونوں کے تاریخی واقعات میں اکثر مماثلت نظر آتی ہے، سوائے ان تاریخی واقعات کے جو دونوں قوموں کی زندگی میں پیش آئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو دونوں کے زبان و ادب کی حالت بھی ہے۔ جرمنی کو بھی ایک زمانے میں اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ یورپ کی دیگر اقوام کی زبانوں کے مقابلے میں نہ صرف جرمن ادب حقیر ترین تھا بلکہ علمی کاموں کے لئے فرانسیسی زبان کا محتاج تھا، جیسے کہ پشتو اب تک فارسی اور دیگر مشرقی زبانوں کی محتاج رہی ہے، اسی طرح جرمن زبان بھی ایک وقت میں فنی، علمی اور ادبی موضوعات کے لئے بنجر سمجھی جاتی تھی۔ گوئٹے سے پہلے جرمن زبان میں کوئی خاص ادبی اور فنی روایات نیشت کے برابر تھیں، جو زبان و ادب کی ارتقاء کے لئے بنیاد ہو سکتی تھیں، بالکل اس طرح جیسے کہ پشتو زبان خوشحال خان خٹک سے پہلے جس حالت میں تھی۔ پروفیسر اباسین یوسف زئی دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے گویا ہیں۔
’’جمالیات کے ضمن میں غنی خان کے کئی تخلیقی روپ ہمارے سامنے آ چکے ہیں۔ کبھی ان کا تخیل پینسل یا برش کے ذریعے صفحہ قرطاس پر ہم سے مخاطب ہے تو کبھی گارے میں ڈھل کر دیکھنے والوں کو مضبوط گرفت میں لئے ہوئے ہے۔ نثر کے ذریعے The Pathans a Sketch میں انگریزی زبان میں پختونوں کی تاریخ، نفسیات نیز فطری رجحانات کے بارے میں حتمی اور منطقی رائے دے کر دنیا سے داد تحسین وصول کرچکے ہیں۔ اردو نثری کتاب ’’خان صاحب‘‘ میں اپنے شگفتہ قلم سے پختون فرد کی بوقلمونیاں، سادہ لوحی اور اعلیٰ انسانی اقدار کے حوالے سے اپنی ماہرانہ رائے اور اردو پشتو کے درمیان لسانی روابط بڑھانے کے متعلق ایسی نکتہ آفرینی کی ہے جو نہ ان سے قبل دیکھنے کو ملی ہے اور نہ بعد میں۔ جہاں تک شاعری کی بات ہے تو یقیناً غنی خان کا سب سے معتبر حوالہ یہی ہے۔ اس ضمن میں شمالی جنوبی اور شرقی و غربی پختونخوا کے تمام ناقدین کو متفق ہونا چاہئے کہ شاعری کے میدان میں غنی خان متقدمین یا ہم عصروں میں سے کسی سے بھی متاثر نہیں۔ البتہ ان کی نظموں میں پشتو عوامی صنف چار بیت کا گہرا عکس موجود دکھائی دیتا ہے پھر انگریزی کی کلاسیکی شاعری کا رنگ کہیں کہیں جھلکتا ہے مگر یہ بات میں بلا تردد اور بلاخوف تردید کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ غنی خان کا رنگِ سخن سب سے جداگانہ اور پختہ ہے۔ بحیثیتِ مجموعی ہم انہیں صاحبِ اسلوب شاعر کہہ سکتے ہیں یعنی وہ صرف نام کے غنی نہیں ہیں بلکہ کام کے بھی غنی ہیں۔ موضوعات کے لحاظ سے ان کے ہاں بہت وسعت ہے خصوصاً عشق وتصوف ،جمالیات ،قومیت اور فلسفہ حیات ان کے بڑے موضوعات ہیں۔ ان کے مطالعے کے دوران آپ کو ڈکشنری (لغت) کی جانب توجہ دینے کے بجائے کسی قریبی بزرگ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔اگر بزرگ قریب نہ ہو تو کسی بھی عمر کے ان پڑھ پختون سے مشکل الفاظ کے معنی معلوم کرنے کے لئے رجوع کر سکتے ہیں۔دراصل غنی خان نے زندگی کو بہت گہری نظر سے دیکھا ہے یہاں تک کہ اپنے پالتو جانوروں سے باتیں کرتے، ان کو سمجھاتے،ان کا دل لبھاتے۔اپنے گھر کے وسیع باغ میں جانور تو جانور غنی خان پودوں کے ساتھ بھی باقاعدہ انسانوں جیسی باتیں کیا کرتے تھے۔ پوچھتے بھئی! کیوں خفا ہو؟ بیمار تو نہیں ہو؟ پیاس تو نہیں لگی، ،کیڑے نے تو نہیں کاٹا!! اس نوع کے حساس انسان کی شاعری کا کون سا رخ،دلکش اور دلچسپ نہیں ہو گا !!....یہ سیمینار میں پڑھے جانے والے دو مقالوں کی محض ایک جھلک تھی، اس سے سیمینار کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ پروفیسر اباسین صاحب تو پختون تھنکرز فورم کی ہر تقریب کی رونق ہوتے ہیں لیکن پختون ادب و تاریخ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک صاحب پہلی مرتبہ فورم کی دعوت پر تشریف لائے تھے جس کے باعث تقریب کی رونق دوبالا ہوگئی ۔خدا کرے کہ عروس البلاد کراچی کی رونقیں پھر سے لوٹ آئیں اوراس نوع کی تقریبات زندگی کا احساس دلاتی رہیں۔
تازہ ترین