• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیرون ممالک سے بھجوائی جانے والی رقوم ملک میں معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور بالخصوص ان کا ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں میں بہت اہم کردار ہے۔ عالمی بینک کی حالیہ جائزہ رپورٹ کے مطابق 2012ء میں دنیا کی مجموعی ترسیلات زر 534 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جس میں ترقی پذیر ممالک کا حصہ 406 بلین ڈالر ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ترسیلات زر وصول کرنے والے 10 بڑے ممالک میں بھارت 70 بلین ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر، چین 66 بلین ڈالر کے ساتھ دوسرے، فلپائن اور میکسیکو کم و بیش 24 بلین ڈالر کے ساتھ تیسرے اور چوتھے، نائیجریا 21 بلین ڈالر کے ساتھ پانچویں، مصر 18 بلین ڈالر کے ساتھ چھٹے، پاکستان اور بنگلہ دیش کم و بیش 14 بلین ڈالر کے ساتھ ساتویں اور آٹھویں، ویتنام 9 بلین ڈالر کے ساتھ نویں اور لبنان 7 بلین ڈالر کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے جبکہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 2014ء تک دنیا کی مجموعی ترسیلات زر 590 بلین ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔
دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کی معیشت اور غیر ملکی زرمبادلہ کا انحصار بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم ہیں۔ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور توانائی کے بحران کے باعث صنعتی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہورہا۔ اس کے علاوہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں نئی سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں لے رہے جبکہ آئل کے اضافی امپورٹ بل، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں تاہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں ملکی ترسیلات زر میں دگنے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی ایک وجہ پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو (PRI) کے تحت دی گئی وہ مراعات ہیں جس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی کوئی اضافی رقم ادا کئے بغیر اپنی رقم پاکستان بھجوا سکتے ہیں اور پاکستان میں یہ رقم وصول کرنے پر بھی کوئی چارجز نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ ترسیلات زر کی کم از کم رقم اگر 10 امریکی ڈالر یا اس کے مساوی ہو تو حکومت ملکی بینکوں کو 25 سعودی ریال یا اس کے مساوی فی ٹرانزیکشن رقم کی ادائیگی کرتی ہے۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے مالی سال 2013ء (یکم جولائی 2012ء سے 30 جون 2013ء) میں 13.9 بلین ڈالر پاکستان بھیجے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ترسیلات زر نے غیر ملکی امداد کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈز (IMF) کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ورکرز کی بھیجی گئی رقوم پاکستان کی مجموعی پیداوار کا 4% اور سالانہ ایکسپورٹ و مصنوعات کا تقریباً 60% ہے۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال ملکی ترسیلات زر میں 10% اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی تا جون 2013ء کے دوران سعودی عرب سے 4.10 بلین ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 2.75بلین ڈالر، امریکہ سے 2.18بلین ڈالر، برطانیہ سے 1.94بلین ڈالر، جی سی سی ممالک (بشمول بحرین، کویت، قطر اور سلطنت عمان) سے 1.6 بلین ڈالر اور یورپی یونین سے 357.37 ملین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جبکہ مالی سال جولائی تا جون 2012ء کے دوران سعودی عرب سے 3.68بلین ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 2.84بلین ڈالر، امریکہ سے 2.33بلین ڈالر، برطانیہ سے 1.52بلین ڈالر، جی سی سی ممالک سے 1.49 بلین ڈالر اور یورپی یونین سے 364.79 ملین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں جبکہ ناروے، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، جاپان اور دیگر ممالک سے 967.79 ملین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں۔
اسی طرح اگر ہم رواں مالی سال 2014-15ء کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کا جائزہ لیں تو بیرون ملک مقیم پاکستانی جن کی تعداد گزشتہ چند سالوں میں 7 ملین سے بڑھ کر تقریباً 10 ملین تک پہنچ چکی ہے، نے گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کی ترسیلات زر 7.11 بلین ڈالرکے مقابلے میں 9.4% اضافے کے ساتھ 7.79 بلین ڈالرترسیلات زر پاکستان بھیجی۔ملکی ترسیلات زر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 2008ء میں ملکی ترسیلات زر 6.45 بلین ڈالر، 2009ء میں 7.81 بلین ڈالر، 2010ء میں 8.91 بلین ڈالر، 2011ء میں 11.2 بلین ڈالر اور 2012ء میں 13.19 بلین ڈالر تھیں جبکہ 2013ء میں یہ 13.92 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں اور امید کی جارہی ہےکہ آئندہ سال یہ بڑھ کر 16 بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے جو 2014ء میں مجموعی ملکی پیداوارمیں 3% سے 4% اضافے کا سبب بنے گی۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن سے بے انتہا محبت رکھتے ہیں جس کا ثبوت گزشتہ 5 سالوں میں ملکی ترسیلات زر میں دگنا سے زیادہ اضافہ ہونا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو خصوصی مراعات دینے کا اعلان کرے بالخصوص انہیں وطن واپسی پر ایئر پورٹ پر ہر ممکن سہولتیں فراہم کی جائیں۔ میں بیرون ملک مقیم اپنے پاکستانی بھائیوں کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں کیونکہ ان کی بھیجی گئی ترسیلات زر کی وجہ سے نہ صرف ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا مل رہا ہے بلکہ اس سے روپے کی قدر بھی مستحکم ہورہی ہے۔ پاکستان میں ترسیلات زر کی کچھ رقم اب بھی غیر قانونی طریقے ہنڈی وغیرہ سے بھجوائی جارہی ہے جسے استعمال میں لانے میں بڑی رکاوٹ ان کی غیر رسمی نوعیت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لئے ترسیلات زر پر انحصار کرنے کے بجائے ملکی ایکسپورٹس اور بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اپنے خاندان کو بھیجی گئیں سالانہ 14 بلین ڈالر کی ترسیلات زر میں سے اخراجات کے بعد ہر سال ایک خطیر رقم بچ جاتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان رقوم کو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری مقاصد میں استعمال میں لانے کے لئے ایسی پالیسیاں تشکیل دے جن سے بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کی جانب راغب ہوں تاکہ ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں اور ملکی معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے۔
تازہ ترین