• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معروف مفکر جین آسٹن کہتا ہے،کتاب سے قیمتی متاع کوئی نہیں۔اگر میرے پاس عالیشان گھر اور بے پناہ اثاثے ہوں لیکن ذاتی لائبریری نہ ہو تو میں خود کو مفلوک الحال شخص سمجھوں گا۔رومی فلسفی سسرو کے مطابق کتابوں کے بغیر کمرہ ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔الحمدللہ کتب کی فراوانی کے اعتبار سے میں شروع سے غنی اور رئیس رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں کوئی کتب میلہ ہوتا ہے،میں اپنی دیرینہ رفاقت کے پیش نظر پہلی فرصت میں پہنچ جاتا ہوں۔لاہور میں جاری کتاب میلے کے دوران جے کے رولنگ کی کتاب نظر آئی تو میں حسد اور رشک کی رو میں بہتے ہوئے بہت دور نکل گیا۔ یہ برطانوی مصنفہ قلمی مزدوری کے باعث اپنے ملک کی پانچویں امیر ترین خاتون ہیں اور انہیں ہر مطبوعہ لفظ کے عوض 340پائونڈ معاوضہ ملتا ہے یعنی اس کالم میں اگر 1300الفاظ ہوں اور یہ جے کے رولنگ نے لکھا ہو تو اسے رائلٹی کے طور پر 7کروڑ77لاکھ روپے ادا کئے جائینگے۔یہ انکشاف یقیناً بہت سے کالم نگاروں پر بجلی بن کر گرا ہو گامگر مجھ سمیت سب کے لئے ٹرکوں کے پیچھے لکھا جملہ ہی صائب ہے کہ حسد نہ کر محنت کر۔یہ اس خاتون کی محنت کا ہی ثمر ہے کہ آج دنیا کے کسی کونے میں ہیری پوٹر کا نام لیں تو کوئی یہ نہیں پوچھے گا کہ یہ کیا شے ہے۔ اس سیریز کی ساتوں کتابوں نے فروخت اور مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور پھر ان کتابوں کی روشنی میں بننے والی فلموں نے بھی خوب بزنس کیا۔ہیری پوٹر سیریز کی چھٹی کتاب ہاف بلڈ پرنس شائع ہونے سے پہلے ہی اس کی 5ملین کاپیاں خریدی جا چکی تھیں۔ کتاب منظر عام پر آئی تو صرف ایک ملک امریکہ میں ایک گھنٹے کے دوران 2.5لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں۔جے کے رولنگ کی آخری کتاب ڈیتھلی ہالوز کی اشاعت سے قبل برطانیہ میں 2.7ملین جبکہ امریکہ میں 8.3ملین نسخے پیشگی خرید لئے گئے اور اب تک اس کتاب کی 34کروڑ نقول بک چکی ہیں۔جے کے رولنگ کی تصنیفات کی مجموعی پذیرائی کا جائزہ لیا جائے تو اب تک اس کی ایک ارب 32کروڑ کتابیں فروخت ہو چکی ہیں۔ہمارے ہاں گزشتہ 67سال کے دوران شاید اتنی کتابیں شائع بھی نہ ہوئی ہوں گی ۔یہ رجحان صرف ایک مصنفہ تک ہی محدود نہیں بلکہ ان مہذب و متمدن معاشروں میں تمام اچھے قلمکاروں کی پذیرائی کا یہی عالم ہے۔
میرے ملک کے بیشتر دانشوروں کو یہ گلا رہتا ہے کہ ہمارے ہاں کتاب بینی کا رجحان نہیں،معاشرہ ادیبوں ،شعراء اور مصنفین کی قدر نہیں کرتا ،اس لئے یہاں لکھاری گمنامی کی موت مارے جاتے ہیں وگرنہ تو یہاں بھی کئی جے کے رولنگ موجود ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں کتابوں کا شغف کم ہوتا جا رہا ہے اور انحطاط کے آثار بہت واضح نظر آتے ہیں مگر میں اپنے قبیلے کے اس شکوے کو برحق نہیں سمجھتا۔اگر وہاں کتابیں گرماگرما کیک کی طرح بکتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف عرق ریزی اور جانفشانی کے ساتھ موضوع پر مکمل تحقیق اور غور و فکر کے بعد کتاب مرتب کرتے ہیں۔ جے کے رولنگ نے 1993ء سے اب تک تقریباً 21سال کے دوران سات کتابیں لکھی ہیں مگر ہمارے ہاں برق رفتاری کا یہ عالم ہے کہ لوگ راتوں رات صاحب کتاب ہو جاتے ہیں۔میں ایسے لکھاریوں کو بھی جانتا ہوں جو اپنی زندگی کی نصف صدی میں کتابوں کی کئی سنچریاں مکمل کر چکے ہیں اور انہیں خود اپنی کتابوں کے نام یاد نہیں رہتے۔ شعراء کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ جن کو قافیے اور ردیف کی خبر نہیں ،وہ بھی اپنا دیوان ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں۔ کالم نگاروں کی ارزانی کی صورتحال یہ ہے کہ جو اسکول میں چھٹی کی درخواست کسی اور سے لکھوایا کرتے تھے ،وہ آج اخبار کے دفتر فون کر کے کہتے ہیں کہ میں کالم نگار بننا چاہتا ہوں ۔اگر کتاب سے خیالات کو رفعت ملے نہ افکار کو وُسعت میسر آئے،دل میں ہلچل ہو نہ آنکھوں میں جل تھل،تخیل کا آنگن مہکے نہ تکلم کی بلبل چہکے،الفاظ کی چاشنی ہو نہ اسلوب کی ندرت،غور و فکر کے دریچے کھلیں نہ حکمت و دانش کے موتی ملیں،عقل و خرد کا ماہتاب اترے نہ عشق و مستی کا آفتاب اُبھرے،تو ایسی بے فیض و لاحاصل کتاب کوئی کیوں خریدے؟ جن اصحاب مطالعہ نے دل کے پیمانے میں ڈوب کر کیف و مستی میں جھوم کر تحریر کا حق ادا کیا،ان کی تصنیفات آج بھی بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ خواجہ حسن نظامی اور مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر بھلا کوئی کیسے فراموش کر سکتا ہے۔مولانا مودودی کی تصنیفات سے مستفید ہونے والوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں۔ماہر القادری کی ثقاہت و لطافت آج بھی ضرب المثل ہے۔کیا کوئی اقبال،غالب اور فیض کو نظر انداز کر سکتا ہے؟احمد فراز ہوں یا احمد ندیم قاسمی ،پبلشر رائلٹی میں ڈنڈی مارتے رہے ہوں تو الگ بات ہے وگرنہ ان کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ بکتی رہی ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ ،بانو قدسیہ کا راجہ گدھ، عبدللہ حسین کا اداس نسلیں، ممتاز مفتی کا ایلی پور کا علی اور عشق کے عین سے ق تک کونسی کتاب ہے جو یہاں گرماگرم کیک کی طرح نہیں فروخت ہوئی۔میری رائے یہ ہے کہ یہاں کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا رجحان ختم ہو رہا ہے تو اس کی ذمہ داری لکھنے والوں پر ہی عائد ہوتی ہے جو معیار کے بجائے تعداد کو فوقیت دیتے ہیں۔
دوسری طرف کتابیں نہ پڑھنے والوں کی نکتہ آفرینیاں بھی کمال کی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کے باعث حرف مطبوعہ بستر مرگ پر ہے اس لئے لائبریری جانے کی روایت دم توڑ رہی ہے۔ اگر آن لائن کتابوں کی فراہمی کا عذر درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر ڈان برائون اور جے کے رولنگ جیسے بیسٹ سیلرز کی کتابیں بھی فروخت نہ ہوں کیونکہ انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کا رجحان ان ترقی یافتہ ممالک میں ہمارے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔جب سب دلائل ماند پڑ جاتے ہیں تو آخری توجیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ مہنگائی بہت ہے،غربت اور بے روزگاری نے کمر توڑ دی ہے ،لوگ کتابیں کیسے خریدیں۔ مگر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ غریب لوگ تنگدستی کے باعث سگریٹ نوشی ترک نہیں کرتے۔مہنگائی کے باوجود روزانہ 60کروڑ روپے سگریٹ پینے پر پھونک دیئے جاتے ہیں۔ماہانہ ایک لاکھ ٹی وی سیٹ ،ایل سی ڈیز یا ایل ای ڈیز خریدی جاتی ہیں لیکن کتابوں کی ماہانہ فروخت17000ہے۔ کیا کتابیں ایل سی ڈی سے زیادہ مہنگی ہیں؟چار دوست کسی اچھے ہوٹل پر کھانا کھانے جائیں تو کم از کم دس ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں،فیملی کے ساتھ خریداری کرنے نکلیں تو ایک ہی چکر میں ہزاروں روپے کی شاپنگ ہو جاتی ہے،پانچ سے دس ہزار روپے کا پینٹ کوٹ تو مہنگا نہیں لگتا مگر کتاب کی قیمت ایک ہزارروپے سے زیادہ ہو تو کانوں کو ہاتھ لگانے لگتے ہیں۔کیا کتابیں کپڑوں اور جوتوں سے زیادہ مہنگی ہیں؟معروف مصنف اور معلم Austin Phelps نے کہا تھا،بھلے کوٹ پُرانا پہنو لیکن کتاب نئی خریدو ۔لیکن ہم باقی سب کچھ نیا خریدتے ہیں،کتابیں اگر لینی بھی پڑ جائیں تو کسی فٹ پاتھ پر بنی اولڈ بک شاپ کا رُخ کرتے ہیں۔جس ملک میں کتابیں سڑک کنارے فٹ پاتھ پر فروخت ہوتی ہوں اور جوتے ایئرکنڈیشنڈ دکانوں میں بکتے ہوں،جہاں مہنگا جوتا خریدنے میں تعامل نہ ہو مگر سستی کتاب خریدنے میں لیت ولعل سے کام لیا جائے، اس قوم کو کتابوں کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ دنیا ہمیں جوتے کی نوک پر رکھتی ہے اور ہم ہر طرف سے مار کھا رہے ہیں۔
تازہ ترین