• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جن دوستوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ حیرت انگیز معلومات مجھ تک پہچائی ہیں ان کے بارے میں آج کے قصے میں اشارتاً بھی ذکر نہیں کروں گا۔ ان جانباز دوستوں کے توسط سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ طالبان کا جاسوسی نظام خاصا مستحکم ہے جو کراچی میں موجود بغیر داڑھی والے طالبان بڑی مہارت سے چلا رہے ہیں۔ آج کے قصے میں جو انکشافات آپ پڑھیں گے ان کے بارے میں طالبان میں خاصی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ان کو پتہ چل چکا ہے کہ کچھ پیشہ ور بہروپیے طالبان کے بھیس میں ان کے درمیان داخل ہو گئے تھے اور معلومات حاصل کرنے کے بعد غائب ہو گئے تھے۔ طالبان نے ایسے نڈر مہم جو شیطانوں کو کیفر کردار تک پہچانے کے لئے اپنے جتھے چھوڑ دیئے ہیں۔ ان کی تلاش میں وہ شہر بھر میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ایسے میں مہم جو دوستوں کا اشارتاً بھی ذکر کرنا ان کی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ رہی بات میری، تو میں ہوں اللہ سائیں کا آدمی میں جانوں، میرا اللہ جانے۔
نڈر دوستوں نے طالبان کے اندر گھس کر حیران کن معلومات حاصل کرنے کے لئے چار پانچ مہینے محنت کی تھی۔ ان چار پانچ مہینوں میں انہوں نے نہانا چھوڑ دیا تھا۔ سر اور داڑھی کے بالوں کو خوب آزادی سے بڑھنے دیا تھا۔ کبھی بھولے سے بھی داڑھی اور سر کے بالوں کو کنگھی نہیں دکھائی تھی۔ میلے کچیلے کپڑے کبھی نہیں بدلتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ طالبان جیسے لگنے لگے۔ ان کے لئے زبان کا مسئلہ اہم نہیں تھا۔ طالبان سب کے سب پشتو بولنے والے نہیں ہوتے، افغانی بولنے والے نہیں ہوتے، ان میں چیچن، ازبک، تاجک، افریقی، عرب، یورپی اور کچھ امریکی بھی ہوتے ہیں، طرح طرح کی بولیاں بولتے ہیں۔ اگر انہیں کسی پر شک ہو جائے تو اسے وہیں کے وہیں گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں طالبان کے اندر گھس کر چونکا دینے والے انکشافات حاصل کرنا خودکشی کے مترادف تھا۔ جان ہتھیلی پر رکھنا محاورہ ہے، آپ نے ضرور سنا ہوگا لیکن میں نے اپنے دوستوں کو جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہم سمجھتے تھے ایک مرتبہ طالبان میں گھس جانے کے بعد وہ پھرکبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن وہ واپس آئے اور اپنے ساتھ مصدقہ معلومات لے آئے۔ وہ ان سوالات کے جواب لے آئے جو ہم عام آدمیوں کے ذہن میں گونجتے رہتے ہیں مثلاً اسلام، اسلامی تاریخ اور اسلامی ممالک کے بارے میں طالبان کی جان بوجھ کتنی ہے۔ ایک کافر سائنسدان میخائل کلاشنکوف کی بنائی ہوئی بندوق کلاشنکوف سے اسلام کیوں پھیلا رہے ہیں۔ ان کے لئے ہتھیار اور گولہ بارود کی سپلائی لائن کہاں سے آتی ہے۔ ان کے پاس ڈالر، یورو اور پائونڈ کہاں سے آتے ہیں۔ کتنےممالک اس نیک کام میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔ وہ عورتوں اور بچیوں کے خلاف کیوں ہیں۔ پولیو کے قطروں میں انہیں کیا خرابی نظر آتی ہے۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دشمن کیوں ہیں جبکہ وہ خود سائنس اور ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وہ درسگاہوں کو بموں سے کیوں مسمار کر رہے ہیں اور اسی نوعیت کے کئی دیگر سوالات کا ایجنڈا لے کر میرے جانثار نڈر دوست مکمل تیاری کے بعد طالبان کے مختلف جتھوں اور دھڑوں میں شامل ہو گئے تھے۔ جب تک وہ طالبان کے ساتھ افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر پہاڑوں اور جنگلوں میں بھٹکتے رہے ہمارا رابطہ منقطع رہا۔چند ہفتوں بعد جب ہمارے نڈر دوست واپس آئے تو ہم سب ان کو دیکھ کر حیران ہوئے۔ وہ جب یہاں سے روانہ ہوئے تھے تب میلے کچیلے اور غلیظ تھے۔ مہینوں سے نہائے نہیں تھے۔ روانگی کے وقت گلے ملے تو ان کے جسم سے بو آرہی تھی۔ اب جو وہ چند ہفتوں بعد واپس آئے تو کلین شیو تھے۔سرکے بال سلیقے سے بنے ہوئے تھے۔ صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھے۔ ان کا بچ کر آجانا معجزے سے کم نہیں تھا۔ وہ اپنے ساتھ حیرت انگیز معلومات اور انکشافات لے آئے تھے۔ حیرت انگیز معلومات میں کچھ انکشافات ایسے ہیں جو کہ اگر میں اپنے قصے میں شامل کر دوں تو پھر یہ قصہ آپ تک کبھی نہیں پہنچتا۔ مثلاً کون سے ممالک طالبان کی مالی مدد کر رہے ہیں؟ کون ان کو اسلحہ اور گولہ بارود دیتا ہے؟ دامے درمے سخنے کون طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے؟ اور اسی نوعیت کے دیگر سوالات بہت سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں آپ کو طالبان کی دعوئوں کے حوالے سے ملنے والی معلومات اور انکشافات کے بارے میں کچھ چونکا دینے والے حقائق سے آگاہ کروں گا مثلاً طالبان پاکستان میں اسلام پھیلانا چاہتے ہیں، پاکستان میں شریعت کا نفاذ دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی طرح کے دیگر دعوے۔ انکشافات کے مطابق زیادہ تر طالبان ان پڑھ، انہوں نے کلام پاک نہیں پڑھا، وہ نہیں جانتے کہ کلام پاک کا دنیا کی کتنی زبانوں میں ترجمہ دستیاب ہے۔ زیادہ تر طالبان نفاذ شریعت کی وضاحت نہیں کر سکتے، وہ پابندی سے پانچ وقت کی نماز کو شریعت کہتے ہیں، وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں فرق نہیں جانتے۔ وہ خدمت خلق پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ نہیں جانتے کہ مسلمانوں نے ساڑھے سات سو برس اسپین پر حکومت کی تھی۔ وہ نہیں جانتے کہ دنیا میں اسلامی ممالک کی تعداد کتنی ہے، مسلمانوں کے بعض فرقوں کے بارے میں طالبان کے مسموم ارادے میں یہاں تحریر نہیں کرسکتا۔ وہ خواتین کو پڑھانے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عورت صرف بچے پیدا کرنے، مسلمانوں کی تعداد بڑھانے اور اپنے شوہر کو خوش رکھنے کے لئے پیدا ہوئی ہے، اس کے علاوہ عورت کا اس دنیا میں کوئی کام نہیں ہے۔ طالبان کو یقین ہے کہ پولیو کے قطرے بچوں کو لادین اور کافر بنا دیتے ہیں اور ایسے بچے بڑے ہو کر مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کی قوت سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہ یہودیوں کی گھنائونی سازش ہے۔ طالبان نہیں مانتے کہ کمپیوٹر، موبائل فون، جہاز، کاریں، گاڑیاں، بجلی کے آلات ٹیلی وژن وغیرہ ایئرکنڈیشنر اور جان بچانے والی ادویات حضرت عیسیٰؑ کے پیروکاروں نے بنائی ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ان تمام چیزوں کا فارمولا مسلمانوں کا ایجاد کردہ تھا مگر عیسائی مسلمانوں کا بنایا ہوا فارمولا چوری کرکے لے گئے۔ اس سے ہمارے درجات میں کمی نہیں آئی۔ اللہ نے ان پر پھٹکار بھیجی۔ اب وہ گدھوں کی طرح دن رات کام کر کے یہ تمام چیزیں بناتے ہیں اور ہم بال بیکا کئے بغیر گھر بیٹھے ان چیزوں کے مزے اڑاتے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں اللہ کا بیر۔ جب ان سے مسلمانوں میں 72 فرقوں کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فوراً کہا کہ یہ یہودیوں کی طرف سے پھیلایا ہوا پروپیگنڈہ ہے۔ مسلمانوں میں صرف ایک ہی فرقہ ہے اور وہ فرقہ ہم ہیں۔
تازہ ترین