• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موسم بہار کی آمد آمد ہے اور پوے ملک میں شجرکاری کے حوالے سے خوب پبلسٹی ہو رہی ہے،حکومت بھی جنگلات کے بڑھانے پر زور دے رہی ہے،کہتے ہیں کہ کسی ملک کی معیشت کےلیے یہ ضروری ہے کہ اس کے 25فیصد رقبے پر جنگلات ہوں،دنیا اور خصوصاً ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں جنگلات کے رقبے میں اضافے کےلیے عملی طورپر اقدامات کیے جا رہے ہیں، ہمارے ہاں صرف جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کےلیے اشتہارات، فلیکس اور پوسٹر سازی پر زیادہ زورہے، ہم ہر سڑک پر بڑے بڑے بینرز لگا کر اور یہ لکھ کر ایک درخت لگائیں اور جنت میں گھر بنائیں،مطمئن ہو جاتے ہیں کہ جنگلات میں اضافہ ہو رہا ہے،حالانکہ عملاً ہمارے ملک میں جنگلات میں کمی آ رہی ہے، مثلاً صوبہ پنجاب کے 20.03 ملین ہیکڑ رقبہ میں سے صرف 0.771ملین ہیکڑ رقبہ پرجنگلات ہیں، پنجاب کی 10کروڑ سے زائد آبادی اور 7کروڑ سے زائد مویشیوں کی ضروریات ہو صرف معمولی رقبہ کررہا ہے،دوسری طرف ہماری ہائوسنگ سکیموں والے دھڑا دھڑ کھیت اور زرعی زمینوں(اب تو جنگلات تک پہنچ چکے ہیں)کو ختم کر رہے ہیں،فارم ہائوسوں پر کوئی کھیتی باری نہیں بلکہ وہ عیاشی کے اڈے بن چکے ہیں، حالانکہ فارم ہائوس کا تصور آج سے کئی برس قبل ایک اردو ناول نگار حمیدہ جبیں نے دیا تھا جو کہ پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک تھیں، انہوں نے یہ تصور دیا تھا کہ ایسے بڑے بڑے زرعی رقبوں پر لوگ جدید رہائش گاہیں بنائیں اور کاشتکاری بھی کریں، اب کاشتکاری تو ان فارم ہائوسوں پر ہوتی نہیں، کچھ اور ہی ہوتا ہے، کتنی دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پنجاب نے 13-2012ء میں جنگلات کےلیے 475 ملین روپے رکھے تھے اور اس رقم میں غیر ترقیاتی اخراجات بھی شامل ہیں،کیا اس معمولی رقم سے جنگلات میں اضافہ اور فروغ ہوسکتا ہے ؟جبکہ اس ملک کے بے شمار محکمے اس ملک کی معیشت پر سفید ہاتھی بنے بیٹھے ہیں۔ ان محکموں کو ختم کر کے یا مختلف محکموں میں ضم کر کر دیا جائے،حال ہی میں حکومت پاکستان کے ادارے NIPS نے PAKISTAN DEMOGRAPHIC AND HEALTH SURVEYشائع کیا ، جس میں بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں بڑے خوفناک اعداد وشمار دیئے گئے ہیں،اگر ہماری آبادی اس تیزی کے ساتھ بڑھتی رہی تو پنجاب فارسٹ ایسوسی ایشن کے ترجمان محمد جاوید خان فاریسٹر کے بقول بیس سال بعد پاکستان کی دھرتی جنگلات سے خالی ہو جائے گی۔
ہمارے ملک میں ہر بری خبر تو موجود ہوتی ہے،بہتری کی طرف کوئی جاتا نہیں،کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ حکومت جنگلات کو نیلام کرتی ہے اس سے اچھی خاصی رقم حاصل کرتی ہے لیکن درختوں کی کٹائی کے بعد جو علاقے خالی ہو جاتے ہیں،وہاں پر نئی شجرکاری کے لیے کوئی رقم خرچ نہیں کرتی، البتہ شجرکاری مہم پر کروڑوں روپے خرچ کر دیتی ہے،کتنا عجیب مذاق ہے۔ بڑے شہروں میں جہاں پر رہائشی اسکیموں اور بڑی بڑی عمارات کے بعد اب وہاں رہنے کو جگہ نہیں وہاں پر لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ شجرکاری کی جائے،شجر کاری کی ضرورت دیہاتی علاقوں اورجنگلات کے قریب رہنے والوں کو ہے اور انہیں یہ شعور دیا جائے کہ وہ شجرکاری کریں،محکمہ جنگلات کے افسران کو کہا جائے کہ وہ آگاہی مہم چلائیں،حکومت ان بیوروکریٹس سے تو ذرا پچھلے 67برسوں کا حساب لے جو محکمہ جنگلات میں تعینات رہے اور انہوں نے جنگلات کا رقبہ بڑھانے کی بجائے کم کردیا او اپنی جیبیں بھریں اور چلتے بنے۔
ڈی ایچ اے لاہور میں آپ ایک درخت بھی نہیں کاٹ سکتے اگر کوئی رہائشی ایسا کرے تو اس کو بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے اور اس جگہ پر دوبارہ درخت لگایا جاتا ہے لیکن ہماری کسی رہائشی اسکیم میں ایسا قانون نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ درخت اور پارک لاہور ڈی ایچ اے میں ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ ڈی ایچ اے بعض علاقوں پر جنگل جیسا ماحول بھی پیدا کرے، وہاں جانور رکھے اور اسے افریقہ کے سفاری پارک کی طرز پربنائے۔
حکومت نے جنگلات کے لئے انتہائی کم رقم رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے جنگلات کے رقبے میں تیزی کے ساتھ کمی آ رہی ہے حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے 4.8فیصد رقبے پر جنگلات ہیں پنجاب میں صرف 2.8فیصد رقبے پر جنگلات ہیں باقی دوسرے صوبوں میں ہیں اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے مطابق پاکستان کے صرف 2فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جبکہ کسی ملک کی معیشت کے لئے 25فیصد رقبےپر جنگلات کا ہونا بہت ضروری ہے بھارت میں 22فیصد رقبے پر جنگلات ہیں ہمارے ہاں درختوں کے کاٹنے کی شرح 2.1فیصد ہے جو کہ ایشیا میں سب سے زیادہ اور دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے کہا جاتا ہے 2015ء میں پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 6فیصد کرنے کا ہدف رکھا گیاتھا مگر عملاً ہمارے ہاں سے درخت تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں ملک میں جن علاقوں میں ترقی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لئے درخت کاٹے گئے ان میں سے کتنے علاقوں میں ہم نے نئے پودے اور درخت لگائے؟
جنگلات کی شدت سے کمی کے باعث ماحول میں بھی تبدیلی آ رہی ہے ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے آج آپ کو ایک اور دلچسپ امور کی طرف توجہ دلاتے ہیں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ جنگلات ایندھن اور فرنیچر کے لئے تو لکڑی فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ زمین کے کٹائو سیلاب اور پانی کے بہائو اور آکسیجن فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔
جنگلات کی حفاظت کے لئے حکومت نے فارسٹ گارڈز رکھے ہوئے ہیں اس وقت پنجاب میں 4000فارسٹ گارڈ ہیں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اگر جنگل سے لکڑی چوری ہو جائے تو فارسٹ گارڈ کو اس نقصان کو پورا کرنا ہوتا ہے یعنی جتنی مالیت کی لکڑی چوری ہوتی ہے دوسری طرف آج تک حکومت نے واپڈا میں بجلی چوری ہونے پر بنک میں ڈکیتی ہونے پر یا ہسپتالوں سے آلات اور مشینری چوری ہونے پر واپڈا کے ایس ڈی او ، بنک منیجر، یا ہسپتال کے ایم ایس سے وہ نقصان پورا کیا ہے ؟ پھر فارسٹ گارڈ کے پاس نہ تو اسلحہ ہے نہ کوئی سواری اتنے بڑے جنگلات کی حفاظت وہ کیسے کرے ؟ کوئی سروسز سٹرکچر نہیں جبکہ ان کے فرائض میں لکڑی چور کو پکڑنا بھی شامل ہے تو پھر ان کے پاس وہ اختیارات ،اسلحہ اور سواری سب سہولیات ہونی چاہئیں۔ جنگل کی ساری ذمہ داری فارسٹ گارڈ اور فارسٹر پر ہوئی ہے یہ تو آپ ہی جانتے ہیں کہ جنگلات سے لکڑی چوری کرنے والوں کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔ یہ ایک مافیا ہے جنگلات ،جنگلی حیات ، انسانی حیات اور ماحولیات کے لئے انتہائی ضروری ہیں مگر ہمارے جنگلات سکڑتے جا رہے ہیں ۔1990ء سے 2010ء کے دوران ہم 33.2فیصد جنگلات کھو چکے ہیں درخت لینڈ سلائیڈنگ کو روکنے کے کام بھی آتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ فارسٹ گارڈ کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرے ان بے چاروں نے نہ تو ہڑتال کی ہے نہ وائی ڈی اے کی طرح ہسپتالوں کی ایمرجنسی بند کی ہے اور نہ سڑکوں پر جلوس نکالے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کو جنگلات کی حفاظت کرنے والوں کو بھی تحفظ اور سہولیات دینی چاہئے۔ ایک درخت سالانہ 260پونڈ آکسیجن پیدا کرتا ہے ایک ایکڑ رقبہ پر موجود درختوں سے پیدا ہونے والی آکسیجن سالانہ 18 افراد کے لئے کافی ہوتی ہے۔ درخت شور کو بھی روکتے ہیں جس سے انسان کی صوتی آلودگی میں کمی آتی ہے۔
رسول اللہؐ نے فرمایا کہ سات باتیں ہیں جن کا ثواب بندے کی موت کے بعدبھی جاری رہتا ہے جب وہ قبر میں ہوتا ہے۔ (1) جس نے علم سکھایا۔ (2) نہر بنوائی، (3) کنواں کھدوایا، (4) درخت لگوایا، (5) مسجد بنوائی، (6) کسی کو قرآن کے مصحف کا وارث بنایا (7) اولاد چھوڑی جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے استغفار کرتی ہے حکومت کو چاہیے کہ فارسٹ ایکٹ 1927 کے تحت جو رپورٹ فارسٹ گارڈ، ڈیمیج کے حوالے سے تھانوں میں درج کرائے ان پر سخت ایکشن ہو اور جنگلات کی لکڑی چوروں کے خلاف سخت ترین سزا دی جائے۔
تازہ ترین