• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹھکانے دو ہی جینے کے، ’’ تخت جگہ آزادی کی یا تختہ مقام آزادی کا‘‘۔ذہن سُن ،اردو لغت تہی دامن،یکے بعد دیگرے روزانہ کی بنیاد پر ایسے واقعات کہ انگ انگ پارہ پارہ،چولہیں ہل چکیں۔ جن اصولوں پر مملکتِ خداداد کوحاصل کیا تھا ، نظریہ، شریعت کا نام لیناجرم کہ ضعیفی خود ایک جرم۔ حکومت غیر واضح کیوں؟ہر واقعہ کے بعد چوہدری نثار کچھ کہنا چاہتے ہیں کہہ نہیں پاتے ، کہتے کہتے رہ جاتے ہیں بہت کچھ کہہ جاتے ہیںپھر بھی کہہ نہیں پاتے۔ ’’اندرونی قومی سلامتی پالیسی ‘‘بغیر واضح خدوخال کے ، پارلیمان کی زینت بن چکی۔دعویٰ کہ’’گلوبل دہشت گردی اور افغانستان میں مسلح تصادم نے پاکستان کی اندرونی سلامتی کو متاثر کیا‘‘ ،حضوریہ انڈر سٹیٹمنٹ کہلائے گی۔یہ کہنے میںلُکنت کیوں، کہ ہماری سیکورٹی اور سلامتی امریکی جنگ کا چارہ بن چکی؟ریاست آج بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ ہم امریکی جنگ کا حصہ ہیںیا نہیں؟تازہ بہ تازہ امریکی وزارت ِ خارجہ کا بیان کہ ’’دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان کے ساتھ شراکت داری ہے، حالیہ سڑٹیجک مذاکرات اور پاکستان سے رابطے اس کا ثبوت ہیں،مزید فرمایا کہ ہم بنظرِغائر جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان آپریشن اور حقانی نیٹ ورک کو ختم کرنے میں کتنا سنجیدہ ہے‘‘۔یعنی ’’ڈومور ‘‘ کا طوق مستقبل میں بھی گلے میں۔ اگرہم امریکی جنگ کا حصہ ہیں تو دل جمعی کے ساتھ سلامتی کے امور کوامریکی مرضی کے مطابق ڈھالناہوگا۔امریکہ کی چیک لسٹ کی ہی اتباع کرنا ہوگی۔ امریکہ یقینا ً’’بے دست وپا آزادی‘‘ کی گارنٹی دے گا کہ 1947سے پہلے بھی مسلمان زنجیروں میں جکڑے نہ تھے۔ ٹائوٹ سیاستدان اور مفادپرست دانشور اس وقت بھی انگریز بادشاہ کو وافر مقدار میں میسر تھے اور اگرہم امریکی جنگ کا حصہ نہیں ہیں تو قومی سلامتی پالیسی کے خدوخال یکسر مختلف ہوں گے۔ موجودہ پالیسی میں واضح ذہنی تصور ، بصارت ، پرخلوص عزم ، قوت فیصلہ اور بے غرضی کا فقدان ،بھٹکنے کی ہی علامات ، سلامتی پالیسی میںامڈامڈ کرسامنے کیوں؟ سلامتی پالیسی میں اگر آپ بنیادی اصولوں کا تعین کر لیتے توایسی اجڑی اجڑی نظر نہ آتی ۔ریاست ِ پاکستان جس شکست وریخت کا شکار اس کا تقاضا کہ بنیادی نظریہ سے رہنمائی اور رجوع میں ہی آسودگی۔چنانچہ سلامتی پالیسی میں نظریہ کے معاملہ میںپہلوتہی ایک بڑا سُقم ۔ وفات سے چند ماہ پہلے حکیم الامت نے اپنے خط نمبر9میں عظیم قائد کی کیا رہنمائی فرمائی کہ’’جب تک آپ اسلامی اصولوں کو اجاگر نہیں کروگے اور اُمت ِ مسلمہ کودین ِ اسلام کو پیش خطرات سے آگاہ نہ کروگے،مسلمان ٹس سے مس نہ ہوں گے ‘‘۔ ولیم مرٹزWilliam Mertz نے’’جناح، ایک سیاستدان‘‘ میں لکھا کہ ’’ جناح نے اقبال کی رہنمائی کو ایسا پلو سے باندھا کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پڑگئی ، ایک قوم تشکیل دے گیا، ایک ملک بناگیا‘‘۔قومی سلامتی پالیسی کی کامیابی مسلم قوم کی تشکیل میں، جہاں تمام اقلیتوں اور قومیتوں کو برابری پر حقوق اور یہی پاکستان بنانے کی وجہ ۔دوسرا اہم جز وفاقی اور صوبائی سطح پرایسی FIA اور پولیس فورس کی تشکیل یا ترتیب ِ نو کہ اندرونی دشمن اور دہشت گردوں کے قلع قمع میں موثر ثابت ہو۔ دہشت گردی کا ایک اہم عنصر قبائلی علاقہ جات ضرور لیکن ملک میں پھیلی انارکی اور دگردوں صورتِ حال کی ساری ذمہ داری ان پر ڈالنا چشم پوشی ، نااہلی اور بددیانتی کے زمرے میں آئے گا۔ ملک کو غلط سمت پر دھکیلنے یا صحیح سمت پر لے جانے کے لیے دھکم پیل شروع ہے۔ جنگجو (Hawks) مسئلے کا حل صرف اور صرف آل آئوٹ اٹیک میں دیکھتے ہیں جبکہ امن جُو (Doves) ملٹری آپریشن کوزہر قاتل سمجھتے ہیں۔ میری رائے جنگجوئوں اور امن جوئوں سے ذرا ہٹ کے کہ پہلے مرض کی تشخیص ضروری۔ اس میں کیا ابہام کہ امریکہ قبائلی علاقوں میں گوڈے گوڈے ملوث ، افواجِ پاکستان کو ملوث کرنے کے لیے ایسابے چین کہ ہمارا چین لٹ چکا۔ کل پہلی دفعہ قدرے کھل کر چوہدری نثار علی، خورشید شاہ نے کھلے ،دبے الفاظ میں بتایا کہ بدامنی اور دہشت گردی کے ڈانڈے سی آئی اے اور را سے جڑتے ہیں۔ کم وپیش طالبان کے ترجمان نے بھی دبی آواز میں موردِ الزام غیر ملکی طاقتوں کو گردانا۔ کاش چوہدری نثار علی اور طالبان بغیر جھجھک ببانگ دہل یہی بات کہہ پاتے۔ کل کے بیانات اور خورشید شاہ کا استفسار ایک بڑا سوالیہ نشان جڑ گیا کہ ریاست اور طالبان کی کیا مجبوری جو آئیں بائیں شائیں سے اپنا موقف پیش کرتے نظر آتے ہیں۔کیا امریکی گرفت Fence کے دونوں طرف موثر ہے؟ کہ فریقین کو اکھاڑے میں رکھ کر ہی پاکستان کا نوحہ لکھنا ممکن ۔ دہشت گردی کی ہر واردات میں’’ تیسرا ہاتھ‘‘ اجاگر ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ تیسرا ہاتھ طول وعرض میں آگ لگانے میں ملوث، بھڑکانے میں ممدومعاون ، جلتی پر ٹنوں تیل ڈال چکا،آج وطن عزیز آگ اور شعلوں کی لپیٹ میں۔
یہ Paradigm میری اختراع نہیں بلکہ فلسفہ سیاست کا نچوڑ کہ’’ سیاسی حل ہی کارآمد، ملٹری آپریشن زہر قاتل‘‘۔ اس اصول سے استفادہ کے لیے درجنوں کتابیں موجود ۔ یقیناً ملٹری آپریشن سے بعض اوقات خاطر خواہ نتائج ضروربرآمد ہوئے ۔دنیا کا مشکل ترین علاقہ ، مشکل ترین قبائل،اس پرمستزاداُمت ِ مسلمہ ملک کے طول وعرج میں ایک دوسرے سے دست وگریباں، پچھلے آپریشز کے گھائو ،ایسے میں قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہی دانشمندی۔اختلافِ رائے میں حرج ہی کیا؟
بارہ سال سے جاری وساری محدود آپریشن خاطر خواہ نتائج نہ دے سکا،میرا خدشہ کہ اگربھرپور آپریشن بھی ہماری مصیبتوں کا مدوا نہ کر سکاتو تفکرات کاجنم لینا لازمی کہ’’ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘،سوچ سوچ کر دماغ شل کہ وطن عزیز بین الاقوامی ٹریپ میں۔ ایک عرصے سے نقارخانے میں میری نحیف آوازکہ آپریشن پر وطن ِعزیز کے دشمنوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں،بغلیں بج رہی ہیں؟ سادہ لوح دانشمندوں کا رُو میں بہہ جانا ایک سانحہ ،جبکہ مفاد پرستیوںاور لادین بریگیڈ نے ہمیشہ دشمن کے عزائم کوہی چار چاند لگائے۔ شُترمرغ کا ریت میں گردن دبانے سے آنے والا طوفاںٹلے گا نہ تھمے گا۔نظریہ کو مضبوطی سے تھامنے میں ہی راہ ِ نجات۔
طالبان اور ارکانِ پارلیمان کے درمیان کم ازکم ایک صفت مشترک دونوں آئین اور قانون کی بے حرمتی میں پیش پیش۔ جمشید دستی نے فلور آف دی ہائوس پر جو کچھ فرما دیا کوئی انکشاف تھا نہ نئی بات۔ ’’ پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ان کا جانے ہے‘‘۔18 کروڑ لوگ ایسے ارکان کی اخلاقی بانجھ پن سے کماحقہ ٗواقف، کتنے شرم کی بات کہ قوم کے یہ ’’رول ماڈل‘‘ آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیر چکے، کمال ِ بے شرمی سے قوم کی قیادت پر مصر کہ عوام الناس کے پاس چوائس ہی کیا؟ 62/63 کی دھجیاں اڑانا شعار،آئین کی بے حرمتی پر کس منہ اورضمیر سے طالبان کا منہ چڑائیں گے؟ چوہدری نثارعلی اور سپیکر جناب ایاز صادق سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ایوان میں شراب کا رسیاکون، کون چرس افیون کوکین کا عادی اور مجرے کا شوقین کون؟۔ روسی عورتوں کی اسلام آباد میں موجودگی سمجھ میں آنے والی بات۔لال مسجد کے بچے ، بچیوں نے اخلاق باختگی پرجب احتجاج کیا تو آسماں سر پر کہ یہ لوگ ڈنڈے کے زور پر شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ شریعت کو روکنے کے لیے ان کو مثال بنا دیا گیا تاکہ’’ رہے نام ہم ایسوں کا‘‘۔آج جمشید دستی کے ثبوتوں کی چھان بین کے لیے 7 رکنی کمیٹی بن چکی۔ہوگا کچھ نہیں کہ اس حمام میں سب ننگے۔
تازہ ترین