• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی آخری آرام گاہ کو ’’مزار قائد‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید بھی دفن ہیں۔ 1960ء میں سفید سنگ مر مر سے تعمیر کیا جانے والا مقبرہ دنیا بھر میں قائد کی پہچان ہے جسے ممبئی کے معروف آرکیٹیکٹ یحییٰ مرچنٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ ہر سال یوم پاکستان، یوم آزادی، قائداعظم کے یوم پیدائش اور وفات کے پر مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی پُروقار تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں مسلح افواج کے چاق و چوبند دستے مزار قائد پر گارڈز کے فرائض سنبھالتے ہیں اور قوم کا ہر فرد یہ اطمینان کرتا ہے کہ اُن کے قائد کی قبر کی حفاظت و تقدس کا ہر طرح سے خیال رکھا جارہا ہے مگر گزشتہ دنوں مزار قائد کو انتہائی گھنائونے مقصد کے لئے استعمال کئے جانے کے سنسنی خیز انکشاف نے قائد کی قبر کی حفاظت و تقدس پر سوالیہ نشان چھوڑدیا ہے۔ مذکورہ انکشاف کے مطابق مزار قائد کے زیریں حصے کے اُس کمرے جہاں قائداعظم محمد علی جناحؒ اور محترمہ فاطمہ جناحؒ کی قبریں موجود ہیں، کو مزار قائد کی انتظامیہ کے کچھ افراد رات کے وقت فحاشی کے لئے کرائے پر فراہم کررہے تھے اور یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری تھا۔ میں نے انٹرنیٹ پر جب یہ ویڈیو دیکھی تو میرا سر شرم سے جھک گیا اور میں یہ سوچنے لگا کہ اس شرمناک حرکت سے یقیناً قائداعظم کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی۔ شاید بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ قائداعظم کے مزار کی وہ جگہ جہاں لوگ حاضری دیتے ہیں، اصل قبر نہیں بلکہ علامتی قبر ہے اور اصل قبر اس کے عین نیچے تہہ خانے میں موجود ہے جہاں تک پہنچنے کے لئے الگ سیڑھیاں مختص ہیں لیکن یہاں عام لوگوں کو رسائی حاصل نہیں تاہم مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں اس کمرے کی زیارت کرچکا ہوں۔ کالم پر مزید کچھ تحریر کرنے سے قبل میں اپنے قارئین سے مزار قائد کے حوالے سے ایک واقعہ شیئر کرنا چاہتا ہوں جسے شاید میں زندگی بھر نہیں بھلا سکوں گا۔ گزشتہ سال مجھے سرگودھا سے تعلق رکھنے والی کینسر کے مرض میں مبتلا 14 سالہ بچی عظمیٰ حیات کا خط موصول ہوا جس میں تحریر تھا۔ ’’میں کئی سالوں سے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوں، میں نے سنا ہے کہ آپ کا ادارہ میک اے وش فائونڈیشن پاکستان لاعلاج مرض میں مبتلا بچوں کی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے، میری آخری خواہش ہے کہ میں ایک بار مزار قائد پر جاکر پھولوں کی چادر چڑھائوں کیونکہ غربت کے باعث میرے والدین کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کراچی کے سفر کا خرچہ برداشت کرسکیں، اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ میری اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کردیں‘‘۔
خط ملنے پر میک اے وش پاکستان نے بچی سے رابطہ کیا اور رضاکاروں نے بچی اور اُس کے والدین کو کراچی لانے کے انتظامات کئے۔ بیمار بچی پھولوں کا گلدستہ لئے جب میرے ہمراہ مزار قائد پہنچی تو اُس کی خوشی قابل دید تھی۔ بچی نے اپنے ننھے ہاتھوں سے مزار کے سرہانے پھول رکھے اور فاتحہ پڑھی۔ اس موقع پر بچی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ فاتحہ کے بعد مزار قائد کے احاطے میں واقع قائداعظم میوزیم دکھانے کے دوران جب میں نے بچی سے اُس کی اس منفرد خواہش کا سبب دریافت کیا تو بچی نے بتایا کہ ’’میری بیماری روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ میں زیادہ عرصے زندہ نہیں رہ سکوں گی، اس لئے میری یہ دیرینہ خواہش تھی کہ مرنے سے قبل میں اپنے قائد کے مزار پر آکر اُن کا شکریہ ادا کروں کہ انہوں نے ہمیں اتنا پیارا وطن دیا‘‘۔ بچی کے یہ الفاظ سن کر میں یہ سوچنے لگا کہ ایک بیمار بچی کے دل میں اپنے قائد اور وطن کے لئے کتنی محبت ہے جبکہ ہم صحت مند لوگ قائد اور اُن کے دیئے گئے وطن کے ساتھ کیا سلوک روا رکھ رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ بچی اب اس دنیا میں ہے یا نہیں مگر میری گاڑی جب کبھی مزار قائد کے قریب سے گزرتی ہے تو مجھے بے ساختہ وہ بچی یاد آجاتی ہے جس کے کہے گئے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بانی پاکستان کا مزار کافی عرصے سے جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں ایک طرف مزار کے احاطے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سرعام فحش حرکات کرتے نظر آتے ہیں، وہاں دوسری طرف مزار سے ملحقہ سڑکوں پر پیشہ ور خواتین اپنے گاہکوں کے انتظار میں کھڑی دکھائی دیتی ہیں جنہیں پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ کچھ سال قبل لودھراں سے اپنے شوہر کے ہمراہ مزار پر آنے والی نوبیاہتا دلہن کو مزار کے عملے کے کچھ افراد نے اسلحہ کے زور پر قائد کے قبر والے کمرے میں لے جاکر کئی روز تک اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا جبکہ میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق، شناختی پریڈ میں ملزم اور کمرے کی نشاندہی کے باوجود ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ واقعہ کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اُنہیں ماضی میں بھی مزار قائد پر اجتماعی زیادتی کے واقعات کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں جن کی پولیس رپورٹیں درج نہیں کرائی گئیں۔ حالیہ انکشاف نے ان تمام الزامات پر مہر تصدیق ثابت کردی ہے کہ مزار کا عملہ قائد کے قبر والے کمرے میں غیر اخلاقی اور گھنائونی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
مزار قائد کے تقدس اور تحفظ کے لئے مزار قائد مینجمنٹ بورڈ قائم کیا گیا ہے جس کی ذمہ داریوں میں 61 ایکڑ پر پھیلے مزار کا تحفظ، صفائی ستھرائی، تزئین و آرائش کے انتظامات کو یقینی بنانا شامل ہے اور اس سلسلے میں ایک جوڈیشل مجسٹریٹ اور ریذیڈنٹ انجینئر بھی مزار پر متعین ہیں۔ قانون کے تحت مزار کے اطراف کثیر المنزلہ عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی، اس کے علاوہ مزار کے تقدس کو یقینی بنانے کے لئے کسی بھی شخص کو مزار کے احاطے میں کسی قسم کی سیاسی یا غیر سیاسی سرگرمیوں کی قطعی اجازت نہیں مگر وقتاً فوقتاً مختلف سیاسی جماعتیں اپنے جلسے منعقد کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں تاہم 2007ء میں اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف اور ق لیگ کی حکومت نے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مزار قائد پر سیاسی تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال یوم آزادی کے موقع پر بعض افراد مزار کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے مزار کے گنبد پر چڑھ گئے تھے جبکہ کچھ افراد مزار کے تالاب میں نیم برہنہ ہوکر نہائے تھے مگر ان عناصر کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اپنے محسنوں کا احسان اتارنے میں ہمارا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں رہا۔ قائداعظم کا آدھا احسان تو ہم نے اُن کے دیئے ہوئے وطن کے دو ٹکڑے کرکے اتاردیا جبکہ باقی ماندہ احسان ہم اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچاکر اتاررہے ہیں اور اگر اس میں بھی کوئی کسر رہ گئی تھی تو اُسے زیارت میں قائد کی قیام گاہ تباہ کرکے اور اب مزار قائد کو قحبہ خانے میں تبدیل کرکے پورا کردیا گیا ہے جس پر نہ صرف قائد کی روح تڑپ اٹھی ہوگی بلکہ آسمان بھی گریہ زاری کررہا ہوگا۔ کاش یہ دن دیکھنے سے پہلے میں مرگیا ہوتا۔ مزار قائد کے تقدس کی پامالی اور حکومتی غفلت کے نتیجے میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے جس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے اور ہر محب وطن پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ہم پیسوں کی لالچ میں اخلاقی طور پر اس حد تک گرسکتے ہیں اور کیا قائداعظم کی رہائش گاہ اور اُن کی قبر کی بے حرمتی کرکے قائد کو پاکستان بنانے کی سزا دی جارہی ہے؟ اس سنگین واقعہ پر حکمرانوں، مذہبی و سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی خاموشی نہ صرف معنی خیز بلکہ انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو قومیں اپنے بانیوں کے دیئے ہوئے ملک، اُن کے گھر اور آخری آرام گاہ کی حفاظت نہیں کرتیں، اُن کا شمار زندہ قوموں میں نہیں کیا جاتا۔ میں اپنے کالم کے توسط سے عدلیہ سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ اس سنگین واقعہ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کرائے اور ملزمان کو عبرتناک سزادی جائے تاکہ آئندہ کوئی ملک دشمن ایسی قبیح حرکت کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
تازہ ترین