• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ن‘‘ لیگ قومی انتخابات کی آئینی شفافیت کے معیار کی تشویشناک آزمائش سے دوچار ہے۔ بحران دبے پائوں اس کے اردگرد گھیرا تنگ کر رہا اور اس کی حکومتی احرار کی بندشوں کے سیاہ سایوں میں اپنی عملی پذیری کے لئے بسمل کی طرح تڑپ رہی ہے۔ ’’ن‘‘ لیگ اس پہلو سے کبھی بھی خوش قسمتی کی سزا وار نہیں رہی۔ وفاق اور پنجاب سمیت اسے ملکی اقتدار کے ایوان میں داخل ہوئے 30برس سے بھی زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ 1990ء ہو 1997ء ہو یا 20مئی 2013ء قومی سیاست عدالت نے اس کی سند حکمرانی کو ہمیشہ متنازعہ اور مشکوک ڈیکلر کیا۔ 1990کے انتخابات میں تو اس کی پوزیشن اُسے مکمل طور پر داغدار کر چکی ہے، کوئی سیاسی فقہی موشگافیاں اسے اس داغ سے نجات نہیں دلا سکتیں تاریخی سچائی کی موت ناممکن ہے اس لئے ہمیں 1993ء میں دو تہائی اور 2013ء میں دو تہائی سے بھی زائد اکثریت کے بارے میں اسی قسم کے پہلے اور آخری سچ کی آمد پر یقین رکھنا چاہئے!
’’ن‘‘ لیگ اپنے حق حکمرانی کے سوال کا بوجھ اٹھائے اس پاکستان کی قیادت میں ناممکن کی حد تک مشکل میں ہے جسے 4؍ اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے کچھ ہی عرصہ بعد ’’پاکیزہ‘‘ درندگی، ’’مقدس‘‘ وکالت اور ’’نیک‘‘ سفاکیت کی مثلث نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ افغان جہاد سے لے کر آج تک پاکستان اس کی جان لیوا گرفت میں اپنی سانسوں کی جنگ لڑ رہا ہے ’’ن‘‘ لیگ اس مثلث کے وارث تمام سیاسی ، مذہبی، سماجی اور سرمایہ دار طبقات کی نمائندہ ہے اور انہی کے کندھوں پر سوار ہو کے پاکستان پر حکومت کرتی رہی اور کر رہی ہے۔ ’’ن‘‘ لیگ اپنے تیسرے عہد اقتدار میں پاکستان کی معیشت، مہنگائی، کرپشن اور سماجی امن و امان کی غارت گری سے شاید نپٹ لیتی، جیسے تیسے اپنی آئینی شفافیت کے مشکوک ہونے کے باوجود اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی تاہم ’’پاکیزہ‘‘ درندگی، ’’مقدس‘‘ وکالت اور ’’نیک‘‘ سفاکیت کی مثلث کے ورثے نے اسے جاں بلب کر دیا ہے۔ ’’ن‘‘ لیگ کی قیادت کو پہلی اور شاید آخری بار اپنی ’’اصل‘‘ عوام کے سامنے مجسم اور متشکل ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کا قومی سیاسی کیمسٹری سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ مذہبی طبقوں کی سماجی فرمانروائی، مخصوص ریاستی اداروں کی امداد و حمایت اور بعض عوام دشمن بین الاقوامی قوتوں کی چارہ جوئی انجام سے دوچار ہے۔
’’ن‘‘ لیگ کی قیادت اس انجام سے خوف زدہ ہے، پوری قوم کو خوف کے اس ہیسٹریا میں حصہ دار بنانا چاہتی ہے۔ چنانچہ پاکیزہ درندگی، مقدس، وکالت اور نیک سفاکیت کے وارثوں کے سامنے فیصلہ کن قومی عقیدے اور بقائے پاکستان کی قومی جنگ کا کلمہ حق بلند نہیں کر پائی، اب کسی مرحلے پر وہ اس کلمہ حق کا علم تھام بھی لے تب بھی اپنے خوف کے افسوسناک نتیجے سے محفوظ نہیں رہ سکے گی، وقت ریت کے ذروں کی طرح اس بند مٹھی میں سے نکل چکا ہے! پاکیزہ درندگی، مقدس وکالت اور نیک سفاکیت پر مشتمل یہ مثلث 5؍ جولائی 1977ء کی آسیبی رات کو تخلیق کی گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالف دینی اور سیاسی جماعتوں، افغان مجاہدین، امریکی سامراج اور پاکستان کے اندر موجود دائیں بازو کے اخبارات و جرائد، اخبار نویسوں، کالم نگاروں اور دانشوروں کی تحریروں اور نعرہ باز مقدس وکالت نے اسے مکمل کیا۔ فرقہ واریت، جہاد، کفار پر فتح اور شریعت کے نفاذ کے چار عناصر کو بنیاد بنا کر، قریب قریب ان تیس برسوں میں، پاکستان کی زمین کو کھاد کے بجائے انسانی لہو سے سیراب کیا جا رہا ہے۔
تختہ دار کو سرفراز کرنے سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا ’’ہمیں ناقابل تلافی غلطیوں کا خطرناک ورثہ وراثت میں ملا ہے۔ ہمیں پرانے محافظ کے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ہمارے بنیادی سیاسی فیصلے وہ سطحی ذہن کر رہے ہیں جنہیں سیاست کی ابجد کا پتہ ہے اور نہ ہی تاریخ کا کوئی شعور۔ ان لوگوں کے فیصلوں نے خطرناک حد تک پاکستان کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ حالات بڑی سنگدلی کے ساتھ حتمی تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس کا انجام انتہائی بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ میرے پاس پوچھنے کے لئے کئی مدلل سوالات موجود ہیں۔ ان سوالوں کو پوچھنے کا وقت بھی آئے گا۔ اگر مجھے پھانسی دے کر قتل کر دیا گیا تو پھر یہ سوالات اور اونچی آوازوں میں پوچھے جائیں گے۔ جب تک ان سوالوں کے جوابات نہیں مل جاتے ملک میں شور و غل، گڑبڑ تصادم اور آتش زدگی رہے گی۔ خود غرضی، نااہلی اور انتقامی جذبات نے موجودہ خطرناک بحرانوں کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کو آج جن بحرانوں کا سامنا ہے وہ 1971ء کے بحرانوں سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن ہیں۔ معروضی طور پر بات کرتے ہوئے کہوں گا کر اس وقت حقیقی سیاسی طاقت اور طاقت کی سیاست کے مطابق پانچ پڑوسی ملکوں کا اس سے براہ راست تعلق بنتا ہے۔ اگر مصیبت اور عدم استحکام پاکستان کے مستقبل کو تباہ کر دیتے ہیں تو پھر یہ فرض کرنا بہت خطرناک ہو گا کہ ان پانچ ہمسایہ ملکوں میں سے کوئی ایک ملک بھی اس صورتحال سے بچ پائے گا۔ یہ توقع رکھنا رجائیت پسندی کی انتہاء ہو گی کہ پانچوں ہمسایہ ملک تارک الدنیا بن جائیں اور دوسری طرف دیکھنے لگ جائیں۔ ان میں سے ہر ایک کی فوجی حکمت عملی اور جغرافیائی سیاسی مفادات کا پاکستان سے تعلق ہے، کوئی بھی ملک خود کو خطرے میں ڈالے بغیر اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ہمارا ملک ویت نام سے زیادہ خطرناک میدان جنگ بن جائے گا۔‘‘
براہ کرم ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت (اگر آپ مخالف ہی ہیں تو؟) کے ’’فرض‘‘ کو تھوڑی دیر کے لئے پاکستان کی خاطر ملتوی فرما دیں۔ سزائے موت کی کوٹھڑی سے انہوں نے جو کچھ کہا اسے ضرور ایک بار سے زائد پڑھیں، غور کریں، مثلاً جو پانچ ملک، پاکستان کے بحرانی کنووئوں سے خود کو الگ نہیں کر سکتے، بصورت دیگر خود ان کے ڈوبنے کا اندیشہ ہے، وہ کون سے ہیں؟ چین، بھارت، روس، افغانستان اور ایران؟ پاکستان کے بحرانی کنوئووں سے الگ نہ کرنے کے باعث وہ کیا کریں گے؟ یہ ایک سوال ہے۔ ’’ہمارا ملک ویت نام سے زیادہ خطرناک میدان جنگ بن جائے گا۔‘‘؟ ان دنوں آپ کے احساسات کی ذہنی صدا کیا ہے؟ یہ دوسرا سوال ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے کچھ ہی مدت بعد افغانستان میں روس کی آمد اورضیاءکی پالیسیاں؟ غلطیوں کا خطرناک ورثہ، یہ تیسرا سوال ہے؟
وحشت اور پستی کے قیدی ذوالفقار علی بھٹو نے تو 34برس قبل جو کہنا تھا وہ کہہ دیا، ہم ان سوالوں کے نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی جن سیاسی، مذہبی، ریاستی قوتوں نے بین الاقوامی منصوبہ سازوں کے ساتھ مل کر پی این اے کی شکل میں 1977ء میں جو کھیل رچایا تھا، وہ ابھی جاری ہے۔
دائیں بازو کی ان قوتوں کی واحد نمائندہ جماعت ہی برسراقتدار ہے۔ 1977کے دائیں بازو کے لکھاری اخباری مالکان ہی قومی منظر پر چھائے ہوئے ہیں، وہی ہیں جو ہمیں مذہبی پیش گوئیوں، پاکستان کے اندر موجود پرائیویٹ جہادی لشکروں اور طالبان کی حامی جماعتوں کے ذریعہ وطن عزیز کو بالآخر نیکی کے اس غلبے کی مثال بنا کر چھوڑیں گے جس سے کفار تھر تھر کانپ رہے ہوں، ’’ن‘‘ لیگ ہی کے وفاقی وزیر داخلہ، برادر کالم نگار کی اصطلاح میں، ’’مشرق و مغرب‘‘ کے بادشاہ چودھری نثار ہیں جو پانچ سات دن پہلے اسلام آباد کی ایک ایک اینٹ کیمرے میں محفوظ ہونے گارنٹی دیتے، ناقدوں کو چیلنج کرتے، اپنی ہی وزارت داخلہ کی رپورٹوں کی نفی کرتے ہیں اور صرف پانچ سات دن گزرنے پر پاکیزدہ درندگی، مقدس وکالت اور نیک سفاکیت کے عملی مظاہر دارالحکومت پاکستان کی ایک عدالت میں خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں، عدالت میں کرسی نشین جج کو سیدھی گولی کا نشانہ بناتے ہیں، یہ دائیں بازو کے دانشور اور لکھاری ہیں جنہیں ایف سی کے 23نوجوانوں کو شہید کرنے کے لئے بے ننگ و نام لرزہ خیز ’’انداز‘‘ میں ’’مکالمے‘‘ کی مزید گنجائش نظر آتی ہے۔
پاکستان دائیں بازو کی سیاسی فکر اور قیادت میں زبردستی گومگو کے خوف میں رکھا جا رہا ہے۔ برصغیر کے واقعات میں 1857ء سے لے کر آج تک ان لوگوں اور دینی اور مذہبی جماعتوں نے مل کر مسلمانوں کو نارمل زندگی نہیں گزارنے دی، ان کی تمام تحریکیں اپنی فکر اور طریق کار میں غیر متوازن اور غیر فطری تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد افغان مجاہدین اور افغان کلچر کی صورت میں ہم ایک ایسے جہان کو قبول کرنے پر مجبور کئے جا رہے ہیں جس کے 3300برس خالق کائنات کے اس حکم کی ہزار فیصد نفی کرتے ہیں کہ ’’عقل، غور و فکر اور علم سے کام لو!‘‘ ڈنمارک کی ریاست میں سب کچھ ٹھیک نہیں، پاکستانیوں کی اکثریت اور ملکی سلامتی کے محافظ اداروں نے دائیں بازو کی نظریاتی اور ریاستی فکر اور اپروچ کا ساتھ دیا تو شائد ہم میں سے کوئی بھی یہ کہنے والا باقی نہ رہے کہ وہ دراصل آپ کو پتہ ہے ’’ڈنمارک کی ریاست میں سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔‘‘
تازہ ترین