• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس رمضان کے ’’تحائف‘‘ کابل، استنبول، ڈھاکہ، عراق اور آخر میں مدینہ میں ہونے والے دھماکے ہیں۔ کوئی سنگ دل ہی ہوگا جسے یہ فہرست خون کے آنسو نہیں رُلاتی۔ کیا اپنی رگوں میں بہنے والے اس زہر سے خود کو پاک کرنے کے لئے اب بھی کوئی جواز باقی ہے؟ دہشت کے اس دور کی حدود ختم ہوتی جارہی ہیں۔ تاہم جب بھی سرخ لکیر عبور کی جاتی ہے ہم وہی گھسے پٹے روایتی جذبات کا اظہار کرتے ہیں، یہاں تک کہ ایک اور دن بیت جاتا ہے ۔ کوئی داتا دربار پر حملہ کیوں کرے گا؟ کوئی مسلمان چاہے وہ کتنا ہی ظالم یا بھٹکا ہوا ہو کیوں نہ ہو، مساجد اور جنازوں پر حملے نہیں کرسکتا۔ کون حساب چکانے یا نظریاتی تطہیر کے لئے چھوٹے بچوں کو قتل کرتا ہے؟ اور اب مقدس ترین مقام، مدینہ بھی۔ چاہے آپ کوئی باعمل مسلمان نہ بھی ہوں، اگر آپ محض نام کے بھی مسلمان ہیں تو بھی آپ مدینہ اور مکہ کے تقدس سے واقف ہوتے ہیں۔ کوئی مسلمان مسجد ِ نبوی پر یا اس کے ارد گرد حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کیسے کرسکتا ہے؟ یہ افعال اتنے گھنائونے ہیں کہ کسی مسلمان کے ان میں ملوث ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردوں کے نظریاتی حامی ہم سے یہی سوال کرتے ہیں، اور خود ہی جواب دیتے ہیں کہ یہ یقینا مغرب کی شیطانی قوتوں کا کام ہے، اور اُن کا واحد مقصد مسلمانوں کو تباہ کرنا ہے۔ جب دھماکہ کرنے والے مسلمان ہی نکلتے ہیں تو پھر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ مغربی طاقتوں نے بھٹکے ہوئے بے روزگار مسلمانوں کی خدمات حاصل کی ہوں گی۔ اُن کا موقف ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لئے مغرب دہشت گردی کی فنڈنگ کررہا ہے، نیز ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ مغرب کی پرانی حکمت ِعملی رہی ہے۔
اس دلیل کے ساتھ مسئلۂ یہ ہے کہ اسلامی ریاستوں یا دنیا کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کا ارتکاب کرنے اور بڑے فخر سے اس کی ذمہ داری قبول کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایسا اسلامی تعلیمات (اُن کے نزدیک) کے مطابق ہی کررہے ہیں۔ یہ دہشت گرداور ان کے نظریاتی حامی، دونوں مغرب کو حتمی طور پر دشمن سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس دشمن کو زیر کرنا ہی ان کے دینی جذبے کا لازمی اظہار ہے۔ اس مقصد کے لئے دہشت گرداسلامی ریاستوں پر تسلط جما کر ’’بھٹکے ہوئے مسلمانوں‘‘ کو اپنے نظریات کے مطابق ’’سچے مسلمان مجاہدین‘‘ کی صورت ڈھالنا چاہتے ہیں، اور یہ ان کے نزدیک اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے۔ اگراس مرحلے کے دوران ’’گمراہ مسلمانوں‘‘ کی مساجد کو تباہ کرنا پڑے، اُن کے جنازوں میں بم دھماکے کرنے پڑیں، مسلمان ریاستوں کی بقا کی جنگ لڑنے والے فوجیوں یا گناہ گار مغربی افکار رکھنے والے شہریوں کو ہلاک کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں، ایک عظیم مقصد کے لئے یہ اجتماعی نقصان برداشت کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد اور اُن کے افعال کا جواز پیش کرنے والے آج دنیا میں مستعمل قومیت پر مبنی ریاست کے تصور کی نفی کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک مذہبی شناخت کے سامنے قومی شناخت کی کوئی اہمیت نہیں، اسلامی امت، یا عالمگیر اسلامی خلافت کا قیام ہی اُن کی دنیاوی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اس کے قیام کے لئے موجودہ اسلامی ریاستوں پر کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے بدعنوان سیاسی اشرافیہ کو چلتا کرکے اسلامی شریعت کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے تاکہ تمام معاشرے کو اسلا م کے رنگ میں رنگا جاسکے۔
دہشت گردوں اور ان کے نظریاتی حامیوں کے درمیان اختلاف صرف طریق ِ کار کا ہے، مقاصد ایک ہی ہیں۔ دہشت گرد تشدد کے ذریعے یہ مقصدحاصل کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں جبکہ ان کے نظریاتی حلیفوں کا خیال ہے کہ خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر بھی یہ ممکن ہے۔ دونوں ہی مسخ شدہ تاریخی واقعات کا سہارا لے کر اپنے تصوارت کا پرچار کرتے ہیں۔ دونوں کے نزدیک اکیسویں صدی کے تمام سیاسی، معاشی اور اقتصادی مسائل کا حل ایک مذہبی ریاست بنانے میں ہے۔ یہ بیانیہ ہمارے قومی شعور اور سماجی ڈھانچے میں راسخ ہوچکا ہے کیونکہ ریاست نے جان بوجھ کر اس کے پھیلائو سے اغماض برتا ہے اور ہماری اشرافیہ کے طاقتور حلقوں نے اپنے تسلط کو تقویت دینے کے لئے اس کی ترویج کرنے والے گروہوں کو استعمال کیا ہے۔ آج پاکستان میں اس تصور کے مقابلے میں کس کاتصور فعال ہے؟ کون کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے مفاد کو امت کے مفاد پربالا دستی حاصل ہے؟ نیز یہ کہ ریاست کا اصل مقصد کسی عقیدے کا پرچار نہیں بلکہ اپنے شہریوں کا تحفظ اور ایسی پالیسیاں وضح کرنا ہے جو ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئے معاون ثابت ہوں؟ آپ نے آخری مرتبہ یہ آواز کب سنی تھی؟
دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے نظریات آج پاکستان میں بالا دستی رکھتے ہیں کیونکہ ریاست نے کمزوری کے تصور کو ابھارا ہے اور پھر عوام میں بھی کوئی مزاحمت دکھائی نہیں دیتی۔ چنانچہ ایک غیر فعال ریاست اور نااہل حکمراں اشرافیہ کے خلاف بڑھنے والی تلخی اور پراون چڑھنے والے غصے کو زائل کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ یہ طریقہ سازش کی تھیوری کا پرچار ہے۔ عوام کی ناگفتہ بہ حالت کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے لیکن ریاست عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مغرب مجسم شیطان ہو لیکن وہ کم از کم اپنے ساتھ تو ایماندار ہے۔ چاہے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا برایگزٹ، ان کی پالیسیاںاُن کے قومی مفاد کے تابع رہتی ہیں۔ چاہے امریکہ 1980 کی دہائی میں افغانستان میںجو بھی کھیل کھیل رہا تھا، اُس کا مقصد افغانستان کا دفاع نہیں، خطے میں اپنے مفاد کا تحفظ تھا۔ جب سرد جنگ کے بعد اس کے مفادات کی نوعیت تبدیل ہوگئی تو وہ افغانستان سے نکل گیا۔ قومیں اپنے مفاد کو مقدم سمجھتی ہیں، اس کے لئے جذبات کی بجائے بے رحم مفادپرستی کی سیاست مستعمل ہے۔ ہم افغانستان میں 1980 سے کیا کررہے ہیں اور کیوں؟ جب ہم نے پہلے افغان جہاد میں صف ِاوّل کی ریاست بننے اور جہادی دستوں کی ترویج کا فیصلہ کیا تو ہمیں کیا مجبوری تھی؟ کیا کوئی ہمارے سر پر بندوق تانے بیٹھا تھا؟ اگر وہ غلطی تھی تو پھر ہم نے اُس کا تدارک کرنے کے لئے اب تک کیوں کچھ نہیں کیا؟2009-13 تک انتہا پسند گروہ وزیرستان میں موجود رہا لیکن ہم نے انتہا پسندوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لئے اپریشن شروع نہ کیا کیونکہ (i)اس تاثر کی وجہ سے عوامی حمایت موجود نہ تھی کہ یہ اپریشن امریکی دبائو کی وجہ سے کیا جارہا ہے، (ii) ہم انتہا پسندوں کے ردعمل سے ڈرتے تھے۔
تاہم2014 ء میں پاک فوج کی قیادت ایک نئے کمانڈر نے سنبھالی اور رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت محسوس کئے بغیر تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا۔ اے پی ایس حملے کے بعد ہر قسم کے انتہا پسندوں کا خاتمہ پہلی ترجیح بن گیا۔ کہیں کوئی رد ِعمل دکھائی دیا، نہ دہشت گرد خون کی ندیاں بہا پائے۔ یہ اور بات ہے کہ گزشتہ ہفتے مسٹرسرتاج عزیز کہتے سنائی دیئے کہ ہم حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف ممکنہ رد ِعمل کے خطرے کے پیش نظر کارروائی کرنے سے گریزاں رہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک برادر اسلامی ملک ایک شدت پسند مسلک کی ترویج اور فرقہ واریت کے شعلوں کو ہوا دینے کے لئے فنڈنگ کرتا ہے تو کیا وہ اپنے لئے پراکسی لشکر تیار کررہا ہوتا ہے یا مغرب کے لئے ؟ جب وہ برادر ملک اپنے تعصبات کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان ڈیل کی بھرپور مخالفت کرتا ہے تو کیا وہ پھر بھی مغرب کے ایجنڈے کی آبیاری کررہا ہوتا ہے ؟جب ہمارا دوست ملک، ترکی بشارالاسد کے خلاف مغربی اتحاد کا حصہ بنتا ہے اور اسد کو بچانے والا ایران روس کے ساتھ ہاتھ ملاتا ہے تو کیا یہ سب اسلامی ممالک مغرب کے مفادات کی پیروی کررہے ہوتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان اسلامی ریاستوں کی بنائی جانے والی ناقص پالیسیوں کاخمیازہ بھگتنے کا وقت آچکاہے۔ ہم ریت میں سر دیے خود کو مزید دھوکہ دے سکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں اور خود کو درست کرنے کی کوشش کریں، لیکن یہ کام آسان نہ ہوگا۔ کئی عشروں سے ریاست کی سرپرستی میں ان گروہوں کی برین واشنگ ہوئی ہے لیکن اب ریاست اس کی ذمہ داری اٹھانے سے گریزاں ہے ۔ اب مسلہ یہ ہے کہ جب ایک مرتبہ کوئی معاشرہ انتہا پسند ی کا شکار ہوجاتا ہے تو وہ ریاست کو نہیں مانتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسا ریاست نے خود کو تقویت دینے کے لئےکیا تھا۔اب ہمیں یہ بات سمجھنی ہے کہ دعائوں کے ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ کرنا اور سازش کی تھیوریوں سے جان چھڑا کر اپنے ارد گرد دیکھنا ضروری ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف کم از کم مزاحمت اسی تصور کی بیداری ہے۔
تازہ ترین