• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اورافغانستان کے مابین حالیہ سرحدی تنازعے کے صرف پانچ دن کے قلیل عرصے میں سمجھ میں آیا کہ جو لوگ افپاک (امریکہ کی جانب سے افغانستان اورپاکستان کو ایک پلڑے میں ڈالنے)کی اصطلاح کے تحت پاکستان اورافغانستان کو ایک جیسا ثابت کرنا چاہ رہے تھے وہ کتنے غلط تھے کیونکہ کم ازکم پاکستان کی سرزمین اتناآسان شکارنہیں کہ کوئی بھی یہاں پرکھڑے ہوکراس افغانستان کو بھی گالی دے سکے جہاں پر پاکستان کے خلاف جلوس نکالے گئے۔طورخم پرگیٹ نصب کرنے کے نام پرشروع ہونے والی کشیدگی کے پہلے پانچ دنوں میں بھارت کے زیراثر کچھ ناخلف افغانوں نے اپنے ہم وطنوں کو پاکستان کے خلاف جنگ کے لئے تیاررہنے کاباربارکہا ، بھارتی میڈیا منیجرزکے ذریعے بننے والیـ" طلوع"ـ جیسے افغان ٹی وی چینلز نے زہراگلااورہجرت کے دنوں میں پاکستان میں پناہ لیکرزندگی گزارنے والے بعض ناہنجاروں نے بھارت کے مفاد میں پاکستان کے جھنڈے کوجلایالیکن اس کے جواب میں آفرین ہے پاکستانیوں پر جنہوں نے افغانوں یا افغانستان کے خلاف ایسی کسی کوشش (جوہوئی بھی نہیں( کا حصہ نہیں بنے، پاکستان میں کسی ٹی وی چینل نے افغانستان کے خلاف زہرنہیں اگلا لوگوں کو افغانستان کے خلاف"جہاد" کے لئے تیاررہنے کا ماحول بھی نہیں بنایااوربڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کے مقدس جھنڈے کو ہاتھ بھی نہیں لگایاپشاورمیںمیراہمسایہ افغان صوبے بدخشان کا رہنے والا ایک فارسی وان ہے اس کا جان ومال ان پانچ دنوں کے دوران بھی ہمارے لئے اتناہی محترم رہا جتنا اس کے تیس سالہ دورقیام میں رہاارد گرد کی پوری آبادی میں سے کسی ایک شخص نے اسے اوراس کے دوسرے ہموطنوں کو یہ تک یاد نہیں دلایا کہ ان کی حکومت اورادارے پاکستان کے خلاف کس کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں اورآفرین ہے اس پربھی کہ وہ پختون نہ ہوتے ہوئے بھی علی الاعلان افغانستان میں پاکستان کے خلاف
اٹھنے والی ان سازشی آوازوں کو کوستارہاآپ یقین کریں اس نے انہی پانچ دنوں کے دوران مجھے سبزی منڈی سے کال کرکے کہا کہ کچھ پولیس والوں کو بھجوائومیرے کچھ ہم وطن افغانیوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کو برابھلا کہا ہے میں نے اسے کہا چھوڑومعمولی باتیں ہیں ایسا بہت عرصے سے ہورہا ہے اورپاکستان میں لوگوں کے دل بہت بڑے ہیں جو عرصے سے اپنی روایات کی وجہ سے یہ سب سہہ رہے ہیں لیکن وہ پھربھی نہ مانا اورباربارمطالبہ کرتا رہا کہ پولیس کوبلاکران لوگوں کو مزہ چکھاتے ہیں میں نے استفسارکیا کہ آخرتمہیں کب سے پاکستان سے پیارہوگیا ہے توکہنے لگا کہ اکتیس سال ہوگئے اس سرزمین پر، خود کو کبھی یہاں اجنبی محسوس نہیں کیا اوراب جب اس کے مطابق ایک افغان نے پاکستان کی سرزمین پرکھڑے ہوکرپاکستان کو برا بھلا کہا توایسے لگا جیسے خود اسے گالی پڑی ہو ۔ خود وہ اوراس جیسے لاکھوں افغانوں نے ان پانچ دنوں کے قلیل وقت میں ہر ٹی وی اورریڈیوانٹرویومیں پاکستان کے خلاف بات کرنے کو رد کردیا اوران لوگوں کو سخت شرمندگی اٹھانی پڑی جنہوں نے اس ساری صورتحال میں پاکستان کے خلاف افغانوں کواستعمال کرنے کی کوشش کی۔
سال 2007میں ایک دورے کے دوران جب ہمیں ایک صحافی کی حیثیت سے افغانستان میں میڈیا کی ترقی خصوصا ٹی وی چینلز کے ظہورکے بارے میں متاثرکرنے کی کوشش کی گئی تووہاں بننے والے زیادہ تر ٹی وی چینلز کے تکنیکی اورادارتی نظام پر چھائے ہوئے بھارتیوں کو دیکھ کر دل ہول اٹھا تھا کہ جب پاکستان کے خلاف اس میڈیا کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑے گی توپتہ نہیں یہ سب کیسے اس میڈیا کو پاکستان کے خلاف استعمال کرینگے تاہم میری خوشی کی کوئی حد اس وقت نہ رہی جب پاکستان اورافغانستان کے مابین گیٹ لگانے کے اس معاملے پران چینلزکوپاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اوریہ کوششیں بری طرح پٹ گئیں نہ صرف یہ بلکہ امریکہ کی فنڈنگ سے بھی پاکستان کے خلاف کھڑے کئے گئے میڈیا کا بھی کوئی اثرنہیں ہوا۔ ان اداروں نے بھی بھارتی زیراثرچینلز کی طرح اپنے بلیٹنزمیں وہ انٹرویوکوٹ کوٹ کر بھرے جن میں پاکستان کے خلاف کھل کرزہراگلا گیا تھا اوراسے اس ساری صورتحال کا ذمہ دارٹھہرایا گیا تھا لیکن خود افغانیوں نے ان اداروں کی کوششوں پربھی پانی پھیر دیا اورکہا کہ وہ اس پاکستان کے خلاف کبھی احتجاج اورجنگ میں شامل نہیں ہونگے جس کی سرزمین پر انہوں نے زندگی کے ماہ وسال گزارے۔ پاکستان میں لوگوں کی بالغ نظری کے بعد اس ساری اچھائی کا کریڈٹ خود ان افغانوں کو بھی جاتا ہے جنہوں نے پاکستان کے خلاف نکلنے سے انکارکردیا۔ اس سارے عمل میں جولوگ ننگے ہوکربے نقاب ہوئے ان میں بھارتی زیراثر ناکارہ پاکستان مخالف چند افغانی جرنیل اوروہ مفادپرست عناصرجواپنے گھنائونے مقاصد کے لئے پاکستان کو استعمال کرنا چاہ رہے تھے۔ لیکن پھرآفرین ہے ان افغانوں پرجنہوں نے افغانستان میں موجود پاکستانیوں کو اس دوران یہ بھی یاد نہیں دلایا کہ دونوں ممالک جنگ لڑرہے ہیں۔ اس سارے عمل میں دل کوقرارپہنچانے والی ایک بات جوسامنے آئی وہ یہ تھی کہ افغانی ہوں یا پاکستانی وہ دونوں ملکوں کے بعض خودساختہ دوستوں اوربھارت جیسے دشمنوں کی باتوں میں نہیں آئے۔ بس پھردل سے صدانکلی پاکستان زندہ باد اورافغانستان کے پاکستان دوست لوگ پائندہ باد، ہاں میں ان بے شرم افغانوں کے لئے اوران کے آقائوں کو پائندہ باد اس لئے نہیں کہہ رہا جنہوں نے دونوں ملکوں کو جنگ میں جھونکنے کی کوشش کی ۔
آخرمیں بھارت اورافغانستان کی سرحدوں کا موازنہ کرتے ہوئے ان افغانوں کو جوبھارت کے زیراثرہیں ذرا شرم دلانے کے لئے یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ واہگہ اورطورخم میں فرق یہ ہے کہ واہگہ کے دوسری طرف رہنے والے بھارتی کھلم کھلا پاکستان کے مخالف ہیں وہ پاکستان کےاسپتالوں میں علاج کرانے نہیں آتے ان کا آدھا خاندان پاکستان اورآدھا ہندوستان میں نہیںرہتا، وہ ایسا بھی نہیں کرتے کہ خود تواپنے ملک سے پاکستان پر گولے برساتے ہوں تاہم اپنے خاندانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے انہیں پاکستان میں رکھتے
ہوں وہ ایسا بھی نہیں کرتے کہ اپنے ملک میں غاصب حکومتوں کے تلوے چاٹیں اورپاکستانیوں پرتشدد بھی کریں اس لئے اگرواہگہ کے پاررہنے والے پاکستان کے ساتھ مخاصمت رکھتے ہیں توانہیں اس کا حقدارسمجھا جاسکتا ہے لیکن اگرافغانستان میں بیٹھ کرکوئی ایسا کرتا ہے تواسے اس عمل پرکچھ نہ کچھ شرم ضرورآنی چاہئے اورمجھے یقین ہے ایک دن انہیں ضرور شرم آئے گی۔
تازہ ترین