• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر سال 8مارچ کا دن ’’خواتین کا عالمی دن‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے۔خواتین کے بارے میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد ایک وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے اس تشدد سے15 سے44سال کی عمر کی خواتین میں شرح اموات ،کینسر ، ملیریا ، ایڈز اور ٹریفک کے حادثات یا جنگ سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی2013ء کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث لوگ بالخصوص عورتیں اپنے مستقبل کے بارے میں اب زیادہ فکر مند ہیں۔
پاکستان ہیومن رائٹس کی عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ عورتوں میں عدم تشدد کا شعور بڑھ رہا ہے ان کا کہناہے ملک میں خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اعدادوشمار کے مطابق ہر 24گھنٹے میں 13عورتیں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی اسی قسم کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں عالمی پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والی عورتیں زیادہ تر خاموش رہتی ہیں ۔رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک عورت پر اس کی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کیا گیا، یہاں تک کہ دنیا کی 60ملین عورتیں جن کی اکثریت ایشیائی ملکوں سے ہے ’’غائب‘‘ ہیں۔ اکثر بچپن کی بیماریوں ،اسقاط حمل، غذائیت میں کمی کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 15سے21 فیصد اور کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں 18سے19فیصد عورتوں کو زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر آبروریزی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایشیاء میں خواتین کی جیلوں میں آبرو ریزی کے واقعات عام ملتے ہیں۔ پاکستان میں2009ء سے ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور 70فیصد عورتوں نے جسمانی تشدد یا آبروریزی کی شکایت کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال لاکھوں عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو دنیا بھر میں شادی کے نام پر یا غلامی اور عصمت فروشی کے لئے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن کا اندازہ ہے کہ یہ عورتیں اور لڑکیاں 80لاکھ کے لگ بھگ ہیں جبکہ دنیا میں200ملین لوگ ایسے ہیں جو غلامی میں جی رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اکثر ملکوں میں شوہر بیوی سے ’’زبردستی‘‘ کرے تو یہ کوئی جرم نہیں لیکن تعلیم یافتہ خواتین میں یہ شعور جاگ رہا ہے کہ یہ بات جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ رپورٹ میں تشدد کے ان پہلوئوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والی ان عورتوں کو کیا طبی امداد، قانونی مشورے اور کونسلنگ کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اگرچہ عورتوں اور بچوں کی زیادہ تر تجارت ایشیاء میں ہوتی ہے لیکن مشرقی یورپ (سابق سوشلسٹ ریاستیں) کی عورتیں اب زیادہ شرح سے فروخت ہو رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 5سے7لاکھ عورتوں کو مشرقی یورپ سے اسمگل کر کے مغربی یورپ میں لایا جاتا ہے جن کو بعد میں نائٹ کلبوں اور قحبہ خانوں کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین پر زیادہ تشدد گھروں میں ہوتا ہے مثلاً ان کے جسم جلائے جاتے ہیں، کپڑوں کو مٹی کے تیل سے آگ لگا دی جاتی ہے، ہڈیاں توڑ دی جاتی ہیں، لاشیں غائب کر دی جاتی ہیں اور فرار ہونے کا قصہ مشہور کر دیا جاتا ہے۔ کینیڈا ،اسرائیل اور برازیل میں ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عورتوں کے خاوندوں اور رشتے داروں کے ہاتھوں قتل ہونے کے واقعات زیادہ ہوئے ہیں۔ امریکہ میں 25 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہیں دوران حمل مار پیٹ کی گئی۔ امریکہ میں ایک ریسرچ کے مطابق60فیصد عورتیں ایسے بچوں کو جنم دیتی ہیں جو بچے ان کی مرضی کے خلاف پیدا ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال75سے80ہزارعورتیں اسقاط کے دوران خون زیادہ بہہ جانے یا انفیکشن سے مر جاتی ہیں۔
ریپ ،جبری یا بغیر احتیاطی تدابیر اختیار کئے گئے تعلق سے چالیس لاکھ عورتیں ایچ آئی وی پازیٹو سے متاثر ہو کر نتیجتاً ایڈز کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ان عورتوں میں ایڈز کی یہ بیماری دوسری عورتوں میں بھی منتقل ہو جاتی ہے اور اس طرح یہ سلسلہ طویل ہوتا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بچے لڑکیاں اور لڑکے) بھی بچپن سے تشدد اور جنسی طور پر ہراساں و ناجائز فائدہ اٹھانے کی شکایت کرتے ہیں۔ 30سے 50فیصد کے درمیان آبروریزی کا نشانہ بننے والوں کی عمر15سال سے کم ہوتی ہے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی سن بلوغت کو پہنچنے کی عمر کم ہو رہی ہے اور بعض لڑکیاں آٹھ نو سال کی عمر میں بھی بالغ ہو رہی ہیں ۔ بچوں کے جلد بالغ ہونے کے بارے میں مختلف خیالات ظاہر کئے گئے ہیں لیکن ابھی اس کی حتمی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ ہالینڈ کے ماہرین صورتحال کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لے کر بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔لڑکیوں کے بالغ ہونے کی عمر11سال یا اس سے زیادہ اور لڑکوں کیلئے بارہ سال سمجھی جاتی ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں یہ عمر گھٹ رہی ہے۔ ماہرین نفسیات نے یہ بھی کہا ہے کہ جو لڑکیاں اپنے والد کے قریب ہوتی ہیں ان لڑکیوں کے مقابلے میں جن کا والد سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا یا بہت کم ہوتا ہے دیر سے بالغ ہوتی ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ سن بلوغت میں قدم رکھنے کے ساتھ انسانی جسم میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں بعض اوقات پریشان کن ثابت ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سیکس ایجوکیشن کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔
تازہ ترین