• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افسوس ہے اس قوم پہ جسے طالبان جیسے دشمن کے مقابلے میں ایسی متذبذب قیادت نصیب ہوئی ہے اور آفرین ہے طالبان کے دردمندوں پہ کہ ہماری سرزمین کے بیچوں بیچ تنبو تان کر غنیم کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ ایف سی کے دو درجن جوان درندگی کا شکار ہوئے ۔ پولیو ٹیموں کی حفاظت پر متعین درجن بھر خاصہ دار شہید کئے گئے ۔ پاک فوج کے جواں سال میجر کا لاشہ ملتان پہنچا۔ اس کے جواب میں طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہدکی طرف سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کافی تھا۔ نام نہاد امن پسندوں کے خیموں میں شادیانے بجنے لگے۔ حکومت سے بھی جوابی جنگ بندی کا مطالبہ کیا جانے لگا ۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ طالبان کے اس اعلان میں ایک مہینے کی مدت متعین کرنے کی علت کیا ہے اور یہ کہ ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان بھی غیر مشروط نہیں۔ ہمارے شہیدوں کا لہو پانی تھا کہ خوش عقیدگی کی ریت میں جذب ہو گیا۔ حکیم اللہ محسود ایسی قدسی روح تھا کہ اس پر ڈرون حملے سے مذاکرات کی لٹیا ڈولنے لگی۔ سچ ہے انہی کے اشک تھے اشک، انہی کی آہیں آہیں تھیں۔ پاکستان کے بے بس عوام کی کیا ہے وہ تو افغانستان پر سوویت قبضے کے دنوں سے خون ناحق کا تاوان ادا کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے طالبان کے درپردہ حامیوں نے راگ الاپنا شروع کیا تھا کہ طالبان کے بہت سے گروہ ہیں۔ کسی نے ان کی تعداد 35 بتائی تو کوئی 60 گروہوں کی خبر لایا۔ یہ کسی کو یاد نہیں آیا کہ طالبان کے وہ دعوے کیا ہوئے کہ ملا عمر ان کے متفقہ رہنما ہیں اور پاکستانی طالبان ملا فضل اللہ کی قیادت میں متحد ہیں۔ جہاں انہیں اپنی طاقت کا اظہار کرنا ہو تو یکجہتی کا اعلان ہوتا ہے اور جہاں اپنی مکروہ سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہو تو وہاں طالبان گروہوں کے تنوع کی دہائی دی جاتی ہے۔ اس میں دو نکتے قابل غور ہیں۔ دنیا بھر میں گوریلا جنگ کرنے والے مخالف قوتوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے گروہوں کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ اس طرح موہوم گروہوں کے نام پر حملے جاری رکھ کر حریف پر دبائو برقرار رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اسلام آباد میں ضلعی عدالت پر وحشیانہ حملے کے بعد احرار الہند نام کا شوشا چھوڑا گیا ہے۔ قبل ازیں ایک گمنام گروہ نے پشاور چرچ پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی ۔ تب یہ مژدہ سنایا گیا تھا کہ گرجا گھر پر حملہ ہم نے نہیں کیا البتہ یہ حملہ شریعت کے مطابق تھا۔ اسلام آباد کچہری پر حملے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے یہ بتانا ضروری سمجھا گیا کہ ہم جمہوریت کے مخالف ہیں بھلے وہ پاکستان میں ہو یا دنیا کے کسی بھی حصے میں ۔ گویا اسلام آباد کی واردات سے لاتعلقی کے اعلان میں بھی وابستگی کا زاویہ موجود ہے۔ یہ سوال تو خیر فتنہ پردازی شمار کیا جائے گا کہ چند ہفتے قبل مذاکرات کا ڈول ڈالے جانے کے وقت اسلام آباد کی کس پرفتوح ہستی نے سیکولر عدالتوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ تسلیم کہ یہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے اختلاف کا موقع نہیں مگر یہ توقع تو بے جا نہیں کہ منطق کی کوئی کرن ریاست کے دامن میں بھی نظر آنی چاہئے۔
سادہ بات یہ کہ طالبان کو مزید چند ہفتوں کے لئے مہلت درکار ہے کہ پاکستانی ریاست کے بھرپور ردعمل کو ٹال سکیں۔ اگر وہ محض ایک بے چہرہ اعلان کر کے سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کو مخمصے میں ڈال سکیں تو اس سے بہتر کیا ہو گا۔ اس دوران میں پروفیسر مجہول اور مولانا منقول آئین کی اسلامی حیثیت اور اس کی روح پر عمل درآمد کی لاطائل بحث جاری رکھیں گے۔ پاکستان کے طول و عرض میں حملے معمول کے مطابق جاری رہیں گے اور اصحاب جبہ و عمامہ اپنی الوہی دوراندیشی کے بل پر تیسرے ہاتھ کی طرف اشارے کرتے رہیں گے ۔ اگر یہ تیسرا ہاتھ ایسا ہی بارسوخ ہے تو پھر بے دست و پا طالبان سے مذاکرات کے بجائے کیوں نہ تیسرے ہاتھ کی طرف توجہ دی جائے۔ یہ تیسرے ہاتھ کا اشارہ بھی پاکستان کی زمین پر موجود مسلح قوتوں کی طرف سے توجہ ہٹانے کا آزمودہ نسخہ ہے۔ ایک انصاف پسند انقلابی رہنما فرماتے ہیں کہ امریکی شمالی وزیرستان میں کارروائی چاہتا ہے۔ امریکہ تو سال رواں میں افغانستان سے جا رہا ہے، آپ فرمائیے کہ ہم وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں پوشیدہ جس معجون کو بچانے کی فکر میں ہیں، اسے کس کے جسد ناتواں پہ آزمایا جائے گا۔ طالبان اور ان کے پشتی بان غضب کی مہارت رکھتے ہیں کہ فروری کا مہینہ مذاکراتی کمیٹیوں کی نشست و برخاست میں ضائع ہو گیا اور مارچ کے مہینے کے لئے عارضی جنگ بندی کا غبارہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس دوران کسی نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ آخر تحریک طالبان پاکستان کا بنیادی مطالبہ کیا ہے اور انہوں نے کس سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ہتھیار اٹھائے ہیں۔ کیا وہ علاقائی حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں ، کیا انہیں سیاسی شرکت کے مسلمہ آئینی طریقہ کار سے محروم کیا گیا ہے ۔ کیا وہ معاشی محرومیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ آخر وہ کس طرح سے ایک سیاسی فریق قرار دیئے جائیں۔ افغانستان کے طالبان اور پاکستان کے طالبان میں کیا فکری اور تنظیمی ربط ہے۔ طالبان کے رابطہ کاروں اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے یہ بنیادی سوال اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ امن کی نیک خواہشات البتہ جھولیاں بھر کر بانٹی جا رہی ہیں۔ اصل خبر تو طالبان کے ترجمان نے دی ہے۔ اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان کے آئین کا کوئی حصہ اسلامی نہیں ہے۔ آئین کو بیک جنبش لب مسترد کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا ہے کہ انہیں جمہوریت قبول نہیں۔ اب پاکستان کی سیاسی قوتوں کو ایک دوسرے سے پوچھنا چاہئے کہ جمہوریت سے انکار کے بعد پاکستان کے پاس کوئی متبادل راستہ بھی موجود ہے۔ کیا جمہوریت کو خیر باد کہہ کر پاکستان کا عمرانی معاہدہ قائم رہتا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی نظام کا باضابطہ رکن رہتا ہے۔ جمہوریت کا ایسا دوٹوک استرداد تو ہمارے چار فوجی آمروں نے بھی نہیں کیا۔ انہوں نے آئین معطل کئے، جمہوریت کو بالائے طاق رکھا لیکن جمہوریت کے وعدے پر ابنائے وطن اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔ یہاں تو جمہوریت کے لئے وعدہ فردا بھی نہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں کی حکومت کا مطالبہ کر رہے ہیں یعنی ملک کے مختلف حصوں میں انواع و اقسام کے انتہا پسندوں کے نام پر ہتھیار بند جتھوں کا قبضہ۔
جہاں تک شریعت پر اتفاق کا تعلق ہے یہ ایک نصابی بیان ہے جس کا مسلم تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن ایک الہامی کتاب ہے جب کہ ریاست کا آئین عوام کے حقوق، ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور انتقال اقتدار کا واضح طریقہ کار بیان کرنے والی دستاویز کو کہتے ہیں۔ مسلم تاریخ میں سب سے زیادہ خون خرابہ انتقال اقتدار ہی کے سوال پر ہوتا رہا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں 1990ء سے 95ء تک افغانستان میں شریعت پر نام نہاد اتفاق رکھنے والوں ہی میں خانہ جنگی ہوتی رہی۔ مرنے والے اور مارنے والے شریعت ہی کے نام پر لڑتے رہے۔ مذہب انسانوں کے اخلاقی ارتفاع کا ذریعہ ہے اس کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ کرنے سے خون خرابہ جنم لیتا ہے۔ تعبیر کا اختلاف عقائد کا ناگزیر حصہ ہے۔ آئین کی تشریح پر بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جدید ریاست میں آئین کی تشریح عدلیہ کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ شریعت کی تشریح کرنے والے علماء کا کردار مسلم تاریخ کا ناقابل رشک حصہ ہے۔ اگر پاکستان کے لوگوں کو مذہبی انتہا پسندوں کی حکومت سے ایسی ہی شیفتگی ہوتی تو ملکی تاریخ کے دس انتخابات میں کبھی تو ان کو عوام کی تائید ملتی، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ تحریک طالبان پاکستان کی اخلاقی قامت تو یہ ہے کہ وہ اب تک شہید ہونے والے شیعہ مسلمانوں کے بارے میں واضح مؤقف اختیار نہیں کر سکی۔ یہ لوگ اخلاقی کردار، علمی حیثیت، پیشہ ورانہ مہارتوں اور سیاسی بصیرت سے عاری ہیں۔ ان کی واحد حکمت عملی بندوق کے بل پر پاکستان پر قبضہ کرنا ہے کیونکہ یہاں کے باشندوں کو شریعت کے نام پر بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔اگر یہ لوگ خاکم بدہن اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تو ان کا مقصد امن کا قیام نہیں بلکہ جنگ کے دائرے کو مزید پھیلانا ہو گا۔ یہ لوگ کسی ریاست کو ترقی اور استحکام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ مستقل بدامنی اور فساد کے نقیب ہیں۔
تازہ ترین