• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سینٹ میں آنے سے پہلے صغریٰ امام زیادہ تر لاہور اور جھنگ میں رہتی تھیں، وہ مجھے فون پر اکثر کہا کرتی تھیں کہ تم کوفے میں رہتے ہو، صغریٰ امام کے نزدیک اسلام آباد کوفے کی مانند ہے۔ میں ان کے اس طنز کے جواب میں ہمیشہ کہتا کہ میں کوفے میں ضرور رہتا ہوں مگر کوفی نہیں ہوں کیونکہ میں رسولﷺ اور ان کے گھر سے محبت کو فرض سمجھتا ہوں۔ حسن اتفاق سے چند سالوں بعد صغریٰ امام سینیٹر بن کر اسلام آباد آگئیں اور ان کے مزاج میں کوفہ سما گیا، ایک روز وہ مجھے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں مل گئیں تو میں نے انہیں ان کے گھریلو نام سے پکارتے ہوئے کہا کہ میں تو اتنے طویل عرصے سے کوفہ میں رہنے کے باوجود کوفی نہیں بن سکا مگر آپ بہت جلد کوفن بن گئی ہیں۔ صغریٰ امام نے بات ادھر ادھر گھمانے پھرانے کی کوشش کی مگر حقیقت یہی ہے کہ اسلام آباد میں بسنے والے اکثر لوگوں کا مزاج کوفی ہے۔ یہاں کی کرسی میں وفا نام کی چیز نہیں، یہاں لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں، یہاں لوگ چہروں پر خوشامد سجائے پھرتے ہیں۔ یہاں کی دوستیاں اقتدار کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہیں۔ یہاں کی زمین ناہموار ہے، درخت پھل دار نہیں ہے، اقتدار جاتے ہی یہاں کے لوگ بدل جاتے ہیں، یہاں اقتدار اور دولت کو سلام ہے۔ یہ پاکستان کا مہنگا ترین شہر ہے، اس کے صبح شام نرالے ہیں، ملک کے دوسرے شہروں سے آنے والوں کو پہلے پہل اس کی سمجھ نہیں آتی، انہیں یہ شہر بالکل شہر خموشاں محسوس ہوتا ہے، یہاں صبح شام سازشیں پلتی ہیں، یہاں لوگ دلوں میں کدورتیں لئے چہروں پر مسکراہٹ سجا کر ملتے ہیں، یہاں کا میڈیا بھی اقتدار پرستی کا قائل ہے۔ اس شہر نے کئی محبتوں کو دھوکا دیا، یہاں لوگ طمطراق سے آتے ہیں اور چہروں کو جھکائے ہوئے بے نیل مرام کوچ کرجاتے ہیں۔ یہ شہر پاکستان کے دیگر شہروں سے زیادہ خوبصورت اور پرکشش ہے مگر کاغذ کے پھول کی مانند خوشبو سے خالی ہے، یہاں ثقافتی لباس پہننے والے کو اجنبی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، وہ بھی خود کو ایسے محسوس کرتا ہے جیسے شیشے کے گھر میں پتھر سجا کے آگیا ہو۔ شاید اس مزاج کی وجہ یہ ہو کہ کوفے اور اسلام آباد میں مماثلت ہے۔ کوفہ ایک فوجی چھائونی تھا، اسے بسایا گیا اور دارالحکومت بنایا گیا، اسلام آباد کے حالات بھی ایسے ہی ہیں، یہاں بھی چھائونی ہے، اسے بھی بسایا گیا ہے اور پھر دارالحکومت بنایا گیا ہے، مزاج دونوں کا ایک جیسا ہے۔ دونوں سچ سے وفا نہیں کرتے۔ اسلام آباد میں کوفے کا ’’چہرہ‘‘ بڑا بھیانک ہے۔ چند روز قبل وزیر داخلہ نے فرمایا تھا کہ انہوں نے اسلام آباد کی سیکورٹی کو فول پروف بنادیا ہے، ان کا یہ فرمان درست ثابت نہ ہوسکا۔ دہشت گردوں نے ان کے فرمان کو غلط ثابت کیا حالانکہ وزیر داخلہ ہی مذاکرات کے زیادہ شوقین ہیں۔ میں نے ان مذاکرات کے آغاز میں لکھ دیا تھا کہ یہ مذاکرات طالبان جمع طالبان برابر صفر ہیں۔ بھلا مسلح جتھوں سے مذاکرات کیسے؟ انہوں نے ہماری فورسز کے لوگوں کو شہید کیا، ہمارے معصوم شہریوں کو شہید کیا، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں پتہ نہیں موجودہ حکمرانوں میں قوت فیصلہ کی کمی کیوں ہے۔ پتہ نہیں یہ کیوں ایسے دشمنوں کو گلے لگانا چاہتے ہیں۔ اب جب وہ اسلام آباد کی فول پروف سیکورٹی کو خاک میں ملا چکے ہیں تو میری وزیر داخلہ سے گزارش ہے کہ وہ جان کے علاوہ مال کے تحفظ کو بھی یقینی بنائیں۔ ان کے علم میں ہوگا کہ اسلام آباد میں دن دہاڑے ڈاکے پڑتے ہیں۔ انہیں علم ہوگا کہ اب اس فول پروف شہر کے اندر یہ واقعات بھی ہورہے ہیں کہ ڈاکو گھروں کے اندر سے گاڑیاں لے جاتے ہیں، مارکیٹوں سے گاڑیاں الگ چوری ہورہی ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ اگر یہ واقعہ کسی اور ملک میں ہوتا تو وہاں کا وزیر داخلہ استعفیٰ دے چکا ہوتا۔ انہیں احساس ہونا چاہئے کہ طالبان صرف وقت گزاری کیلئے مذاکرات کا ڈھونگ رچانا چاہتے ہیں۔ ان ظالموں نے ساتھ ساتھ اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
اسلام آباد کچہری کے واقعہ کے بعد چیف جسٹس نے حکم صادر فرمایا ہے کہ اسلام آباد اور پنڈی کی تمام عدالتوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں۔ چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں سے دہشت گردی نہیں رکتی کیونکہ پاکستانی شہروں میں دہشت گردی کا مظاہرہ کرنے والے خود کو اڑا دیتے ہیں۔ یہ آپریشن کا وقت ہے، ان عسکریت پسندوں کیخلاف آپریشن ہی ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے دھرتی ماں کو لہولہان کردیا ہے۔ میں شہید ہونے والے کسی ایک شخص کا نام نہیں لکھنا چاہتا کہ ہر پاکستانی اہم ہے۔ ہمیں پاکستانیوں اور پاکستانی سرزمین کے تحفظ کیلئے شدت پسندوں کیخلاف سخت ترین آپریشن کرنا چاہئے۔
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کا شکریہ کہ انہوں نے اپنے فرمودات کی وضاحت کردی ہے، انہوں نے نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسینؓ سے عقیدت کا اظہار کردیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے مولانا مودودی کی کتاب ’’خلافت اور ملوکیت‘‘ کا مطالعہ کرلیا ہے۔ جماعت اسلامی شعبہ اطلاعات کے معتدل آدمی شمسی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنے امیر سے یہ بھی کہیں کہ وہ شدت پسندوں کو شہید نہ کہا کریں بلکہ اصل شہیدوں کو شہید کہا کریں۔
آج کل کرکٹ کا موسم عروج پرہے۔ شاہد آفریدی بھرپور فارم میں ہیں۔ انہوں نے پہلے ہندوستان کو سرنگوں کیا، پھر بنگال کے جادو کا توڑ کیا، خیال ہے کہ اس روز بنگالیوں نے اپنے سارے جادوگر گرائونڈ میں بٹھا رکھے تھے، وقتاً فوقتاً ان کی شکلیں بھی دکھائی جاتی رہیں مگر پاکستانی بلے بازوں کے سامنے جادوگر ناکام ہوگئے، وہاں کی عورتوں نے بھی رونا شروع کردیا تھا۔ جادو کا اثر شاہد آفریدی کی ٹانگ پر ضرور ہوا مگر وہ اس وقت تک کام کرچکے تھے۔ رحمٰن پر بھی جادو نظر آیا۔ عمر اکمل مشکل سے بچے۔ قوم کو مبارک ہو کہ دہشت گردی کے موسم میں پاکستانیوں کو کرکٹ ٹیم خوشی کی خبریں سنارہی ہے۔ ایک زمانے میں اسلام آباد میں پانچ پیاروں کا تذکرہ ہوتا تھا اب پانچ صاحبزادوں کا ہوتا ہے۔ تذکرے ٹھیک ہیں مگر اس کوفہ نما شہر میں لوگوں کا تحفظ کون کرے گا۔ شہزاد بیگ کا شعر ہے
منافقت سے مجھے اس لئے بھی نفرت ہے
یہ میرے شہر میں ہر وقت رقص کرتی ہے
تازہ ترین