• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوازشریف حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کی کوششیںبالآخر ثمر آور ثابت ہوئیں اور قوم کو دوطرفہ جنگ بندی کی نوید ملی۔یہ بلاشبہ اعصاب شکن مرحلہ تھا مگر حکومت اور طالبان دونوں نے نیک نیتی سے معاملات کو آگے بڑھنے دیا۔ اسلام آباد اور لنڈی کوتل میں دہشت گردی کے واقعات اور قبائلی علاقوں میں ’’سرجیکل آپریشن‘‘ کے باوجود حکومت اور طالبان نے تحمل و بردباری سے کام لیکر مذاکرات کو سبوتاژ نہیں ہونے دیا۔ دوطرفہ جنگ بندی سے مذاکرات مخالف ’’آپریشن فوبیاعناصر’’سٹپٹا‘‘کررہ گئے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا؟وہ تو شمالی وزیرستان میں ’’فوجی آپریشن‘‘کی آس لگائے بیٹھے تھے۔بہرکیف دوطرفہ جنگ بندی سے پاکستان کے عوام نے سکھ کاسانس لیا ہے ۔اب یہ امید بندھ چلی ہے کہ اگلے مراحل میں حالات مزید بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ مذاکرات مخالف قوتوں کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہوگا بلکہ حالات دوطرفہ جنگ بندی کی طرف جارہے ہیں۔ فریقین نے فہم وفراست کاثبوت دیکر پہلا مشکل مرحلہ سرکرلیا ہے۔اب حکومت کوفراخدلی سے اگلے مرحلے کو فیصلہ کن بنانا چاہئے۔دوطرفہ جنگ بندی کسی ایک فریق کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی کامیابی ہے۔اگرایک ماہ کی جنگ بندی کے دوران فریقین نے حکمت وتدبر سے کام لیا تو آئندہ کچھ دنوں میں حالات سنبھلنے کی قوی امید ہے۔وزیراعظم نوازشریف نے حکومتی کمیٹی سے ملاقات کے بعد اعلامیے میں اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ امن ہماری ضرورت ہے۔ مذاکراتی عمل جاری رہنا چاہئے۔ حکومتی کمیٹی کے اجلاس میں طالبان کمیٹی سے رابطے اور مذاکرات جاری رکھنے کابھی فیصلہ کیا گیا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ مذاکرات مخالف قوتوں کے باوجود نواز شریف حکومت نے مذاکراتی عمل کو ہی ترجیح دی۔طرفہ تماشایہ ہے کہ کچھ جماعتیں موقع کی تاک میں لگی رہتی ہیں کہ کہیں دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہو تو ملک میں’’ آپریشن‘‘کےلئے’’ ہاہاکار‘‘ مچائی جائے۔اب اسلام آباد میں دہشت گردی کے واقعہ کوہی لے لیجئے طالبان نے اس سے اظہارلاتعلقی کااعلان کیا مگر پھر بھی اسے اس واقعہ کیساتھ نتھی کیا جارہا ہے۔یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔2014ء کے اختتام تک امریکی و نیٹو فورسز کے انخلاء سے’’امریکی جنگ‘‘اپنے اختتام پر ہوگی۔افغانستان سے بیرونی فوجوں کے چلے جانے سے استحکام کی جانب بڑھے گا اور اس کا یقیناً اچھا اثر پاکستان پر بھی ہوگا۔ موجودہ پاکستانی حکومت اسی تناظر میں ملکی سطح پر فیصلے کررہی ہے۔طالبان سے جاری مذاکراتی عمل اور قبائلی علاقوں میں امن وامان کاقیام اسی حکمت عملی کا نقطہ آغاز ہے۔ امریکہ افغانستان پر مسلط کی ہوئی اپنی شر کی جنگ سے خود گلوخلاصی چاہتا ہے مگر کچھ پارٹیاں اور چند دانشورنجانے آخر کیوں اس پر فریفتہ ہورہے ہیں؟اگلے ماہ اپریل میں افغانستان میں صدارتی الیکشن ہونے والاہے۔امریکہ سکیورٹی معاہدہ کرکےافغانستان سے جان چھڑاناچاہتا ہے۔بھارت اس سارے منظرنامے میں امریکی ونیٹوفورسز کے افغانستان سے رخصت ہونے کے بعد وہاں ایک نئی پراکسی جنگ شروع کرنا چاہتا ہے۔پاکستان کی قیادت کو ان بھارتی عزائم کوناکام بناناہوگا۔وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے بھی طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کو مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ مئی2013ء سے زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد سے موجودہ حکومت نے قبائلی علاقوں میں باقاعدہ فوجی آپریشن نہیں کیاہے۔محدود فوجی کارروائی صرف ردعمل میں کی گئی ہے۔طالبان اور حکومت دونوں کی طرف سے دوطرفہ سیز فائر حوصلہ افزا ہے۔اس سے امن مذاکرات کی کامیابی کا راستہ نکلے گا۔ طالبان کی ایک ماہ کی جنگ بندی کے بعد حکومت کی طرف سے قبائلی علاقوں میں فضائی حملے روکنے کے اعلان کوملک کے سنجیدہ قومی وسیاسی حلقوں میں سراہاگیا ہے۔ایک طویل عرصہ کے بعد گزشتہ ہفتے کے دوران قوم کو مسرت اور شادمانی کے لمحات میسر آئے ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھی بھارت کو بنگلہ دیش میں شکست دیکرقوم کی خوشیوں کودوبالاکردیا ہے۔شاہد آفریدی کے چھکوں نے آخری لمحات میں میچ کاپانسہ پلٹ دیا اور بگ تھری بھارت کو ہزیمت کاسامنا کرناپڑا۔اس میچ کی اہم بات یہ تھی کہ بنگلہ دیشی شائقین نے بھی بھارت کے مقابلے میں پاکستانی کھلاڑیوں کو زبردست سپورٹ کیا اور پورا شیر بنگلہ اسٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمیشہ ہی میچ کانٹے کے ہوتے ہیں مگر اس بار بنگلہ دیش میں بھارتی شکست نے عوام کے جذبات کو گرمادیاہے۔
بھارت کے مقابلے میں بنگلہ دیشی سپورٹرزنے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاکے دوقومی نظریہ از سرنو زندہ کردیا ہے۔انہوں نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ آج بھی (سابقہ مشرقی پاکستان) بنگلہ دیش کے عوام کے دل پاکستان کیساتھ دھڑکتے ہیں ۔بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم نے پاکستان کیخلاف 326رنز کیے۔پاکستانی کھلاڑیوں احمد شہزاد،فواد عالم اور شاہد آفریدی کی دھواں دار بیٹنگ نے اس بڑے ہدف کو بھی عبور کرلیا۔شاہد آفریدی صرف25گیندوں پر59رنز بناکر مین آف دی میچ قرار پائے۔بدلتے ہوئے حالات میں ملکی افق پر ہونے والی خوشگوار تبدیلیاں اور قومی کرکٹ ٹیم کی زبردست کارکردگی نے پاکستانی قوم کو نیاجذبہ ،ولولہ اور حوصلہ عطاء کیاہے۔انشاء اللہ ہر محاذ پر کامیابی کایہ سفر جاری رہے گا۔حکومت پاکستان اس اہم مرحلے میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے چھڑواکر وطن واپس لے آئے تو یہ پاکستانی عوام کیلئے حقیقی خوشی ہوگی۔وزیراعظم نواز شریف کا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فیملی سے کیا گیا وعدہ پوراکیا جائیگا تو حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔اس کار خیر میں تو اب دیر نہیں کرنی چاہئے۔امریکی صدراوباماکے ساتھ ملاقات میں وزیر اعظم نوازشریف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کامطالبہ کیا تھا مگر صدر اوبامانے جواباًڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنیکی بات کرکے اس معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ ڈاکٹر عافیہ سے الگ تھلگ ہے اس کوآپس میںجوڑا نہیں جاسکتا۔عافیہ صدیقی پر امریکی عدالت میں استغاثہ جرم ثابت نہیں کرسکااس مظلوم پاکستانی خاتون کو بغیر جرم ثابت ہوئے 86سال کی بدترین سزاسنا دی گئی۔اس فیصلے پر انسانی حقوق کی نام نہاد پاکستانی اور مغربی این جی اوز خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیںجبکہ پاکستان میں چھوٹا ساواقعہ بھی ہوجائے تو یہ آسمان سرپر اٹھالیتی ہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے اوباماحکومت پر بھرپور دبائوڈالے اور ان کی رہائی کوجلد ممکن بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے یہ نوازشریف حکومت کا اولین فرض ہے۔اسے اس فرض کی ادائیگی کی بھی فکر کرنی چاہئے۔وزیر اعظم نوازشریف کو مذاکراتی عمل کوبامقصد،بامعنی اور تیزتر کرنے کیلئے اس میںبراہ راست خود شامل ہونا چاہئے اور اس کی قیادت کرنی چاہئے تاکہ لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے آگاہی بھی ہوسکے اور مناسب وقت پر موزوں فیصلے کرکے حالات کو بہتر بنایا جاسکے۔اسلام آباد کے واقعہ سے طالبان کا اظہار لاتعلقی کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد اور لنڈی کوتل کے واقعات میں کون ملوث ہے؟۔وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی نشاندہی کی ہے کہ یہ واقعات غیر ملکی ایجنسیوں کی کارستانی ہوسکتی ہے۔ماضی میں وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے دہشت گردی کے کئی واقعات میں بھارت اور دوسری بیرونی قوتوں کے ملوث ہونے کے ثبوت میڈیا کوپیش کیے تھے۔ریمنڈ ڈیوس بھی تو آخر امریکی جاسوس ہی تھا ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حسین حقانی کے دور سفارت میں امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کے بے شمار لوگ امریکی ویزوں پر پاکستان آئے جو مشکوک سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے۔ان میں سے کئی ایک ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پشاور، لاہور اور اسلام آباد سے پکڑے اور ان کے ثبوت حساس اداروں کے پاس ہیں۔ اب حکومت کایہ کڑا امتحان ہے کہ وہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں ملوث اس’’تیسری قوت‘‘کاسراغ لگاپاتی ہے کہ نہیں؟
تازہ ترین