• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے حال ہی میں ملک میں مروم شماری میں مسلسل تاخیر پر ازخود نوٹس لے کر ایک ایسے آئینی تقاضے کی تکمیل کیلئے قدم اٹھایا ہے جس کے بغیر قومی زندگی کے کسی بھی شعبے اور انسانی وسائل کی تعمیر و ترقی کیلئے درست منصوبہ بندی ممکن نہیں۔مردم شماری کے بغیر ملک کے مختلف حصوں کی آبادی کی معاشی، سماجی اور تعلیمی ضروریات کا تعین ہوسکتا ہے نہ سیاسی و جمہوری عمل درست طور پر جاری رہ سکتا ہے کیونکہ اس کیلئے درست انتخابی حلقہ بندیاں لازمی ہیں جن کی بنیاد مردم شماری ہے۔مردم شماری کی یہی اہمیت ہے جس کی بناء پر دنیا کے بیشتر ملکوں میں عموماً ہر دس سال کے بعد اس کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں بھی ایسا ہوتا رہا تاہم 1998ء کے بعد سے اب تک ملک میں کوئی مردم شماری نہیں ہوسکی ہے۔ دس سال کی مدت کے حساب سے2008ء میں مردم شماری کرائی جانی چاہیے تھی لیکن امن وامان کی ابتر صورت حال اس میں رکاوٹ بنی رہی۔ تاہم موجودہ حکومت کی جانب سے امن وامان کی بحالی کیلئے مؤثر اقدامات کے بعد مارچ کے مہینے میں وزیر اعظم کے زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ رواںسال مردم شماری کرالی جائے گی لیکن نہ صرف یہ کہ اس حوالے سے مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ یہ اطلاعات سامنے آئیںکہ مردم شماری کواگلی مدت کیلئے ملتوی کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جس کی بناء پر چیف جسٹس نے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل، الیکشن کمیشن اور سیکرٹری شماریات سمیت تمام متعلقہ اداروں کو ماہ رواں کی پندرہ تاریخ کو عدالت میں طلب کرلیا ہے۔چیف جسٹس نے معاملے کی کھلی عدالت میں سماعت کا فیصلہ کیا ہے اور فریقین سے وضاحت مانگی ہے کہ ملک میں اٹھارہ سال سے مردم شماری کیوں نہیں ہوئی اور اب اسے مزید مؤخر کیوں کیا جارہا ہے ۔
تازہ ترین