• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتوار کی دوپہر سی پی این ای کے صدر جناب مجیب الرحمن شامی نے جناب عرفان صدیقی کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا تو لاہور کے صحافیوں اور کالم نگاروں کی بڑی تعداد ان کی آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ گفتگو سے مستفید ہوئی مابعد ناچیز نے صدر مجلس سے پوچھا کہ اگر اجازت ہو تو ایک سوال حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ شامی صاحب بولے آپ کو بھلا اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے بے دھڑک پوچھئے۔ عرض کی کہ جناب صدیقی صاحب ابھی آپ نے حکومت اور طالبان میں مذاکرات کی بڑی ستائش کی ہے اور فریقین کی فائر بندی پر بھی بڑی خوشی و مسرت کا اظہار کیا ہے میرا سوال یہ ہے کہ اگر کل ہی کوئی خودکش حملہ ہو گیا یا دہشت گردی کی کوئی واردات ہو گئی اور مجھے یقین ہے کہ ایسے ہو گا اس وقت طالبان نے یہ کہنا ہے کہ ہم نے تو یہ حملہ نہیں کیا۔ یہ تو کسی تیسرے کا کیا دھرا ہے ایسی صورت میں مذاکرات کا مستقبل کیا ہوگا ؟ حکومتی چیف مذاکرات کار فرمانے لگے ۔’’یہ تو آپ ایک مفروضے پر بات کر رہے ہیں ابھی تو ہر دو اطراف سے امن کے اعلانات ہوئے ہیں ان حالات میں آپ کا سوال محض ایک خدشہ ہے لہٰذا اس کا میں کیا جواب دوں جب ایسی کوئی بات ہو گی تو میں آپ کو جواب بھی دوں گا ۔‘‘ ہماری بدقسمتی قابل ملاحظہ ہے ابھی اس گفتگو کو بیس گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ اسلام آباد کچہری کا اندوہناک سانحہ وقوع پذیر ہو گیا جس میں نہ صرف گیارہ بے گناہ شہری مارے گئے بلکہ دوسروں کو انصاف دینے والا ایک فاضل جج بھی ابدی طور پر انصاف کا متلاشی و ملتجی بن گیا۔ اگر ہم نے اب بھی اس خوفناک مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو ہمارا گمان ہے کہ ایک روز ہماری پارلیمینٹ اور دیگر اعلیٰ اختیاراتی ادارے بھی آگ و خون میں نہا جائیں گے۔ اب ایلیٹ کلاس کو چوٹ لگی ہے تو شاید ہمارے حکمران اس کا کچھ احساس کریں ورنہ بے چارے غریب بے وسیلہ عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح برسوں سے مر رہے ہیں اور ایلیٹ کلاس دو دن اظہار افسوس کے بعد اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں مگن ہو جاتی ہے یا مذاکراتی ڈول ڈال کر شلغموں سے مٹی جھاڑ دیتی ہے اس نااہلی کے حوالے سے ہم حکومت کو کیا الزام دیں جبکہ خود کو سب سے بڑی اپوزیشن قرار دینے والا اور اپنے تئیں خود کو قذافی جیسا انقلابی خیال کرنے والا تیس مار خاں یہ کہہ رہا ہے کہ ’’شمالی وزیرستان میں آپریشن ہونے والا تھا شکر ہے کہ آپریشن رک گیا‘‘ ۔ خودکش حملے نہیں رکتے تو نہ رکیں ہماری بلا سے یہ تو امریکہ کا مسئلہ ہے جب پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف خودکش حملے ہو رہے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہ ہوں۔ بلکہ ہمارے جہادی بھائیو! آئو ابھی تو تم نے غیر شرعی قانون کی چھوٹی عدالت پر حملہ کیا ہے ذرا آگے بڑھو بڑی عدالت بھی تمہاری دسترس میں ہو گی تمہارے امیر کے سسر صاحب یہ فرما چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کافرانہ نظام کی علمبردار غیر شرعی و غیر اسلامی عدالت ہے جب ہم کفر پر مبنی انگریزی عدالتی نظام ہی کو نہیں مانتے تو ان کی سپریم عدالت کو کیسے مان لیں۔
خان صاحب کا اگلا بیان بھی قابل ملاحظہ ہے ’’پاکستان میں اس وقت تک امن کا قیام ممکن نہیں جب تک امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نہیں نکالتا۔‘‘ کیونکہ اس کے بعد افغانستان میں دوبارہ طالبان کی حکومت قائم ہو جائے گی یوں وہ طالبانی حکومت پاکستانی طالبان کی پیٹھ بھی ٹھونکے گی اور جب وہ مزید مضبوط ہونگے تو پھر امن ہی امن ہو گا --ہمارے کسی لیڈر نے خان صاحب کا نام طالبان خاں رکھ دیا اور محترمہ عاصمہ جہانگیر نے انہیں طالبان کا جاسوس قرار دے دیا جبکہ ہم ان کی خدمت میں گزارش کرتے ہیں کہ انسان کو جھوٹ بولتے ہوئے کچھ تو خدا خوفی کرنی چاہئے ۔ یہ معصوم قوم پہلے ہی کیا کم کنفیوز ہے جو آپ نے اسے مزید کنفیوز کرنے اور بیوقوف بنانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے ۔وطن عزیز میں جو جہادی اسلام آپ کی برکت سے آج نافذ ہونے جارہا ہے افغانستان میں یہ جدوجہد 1979ء سے جاری و ساری ہے تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ 12دہشت گرد حملوں میں 29افغان شہری جنت کو سدھارے ہیں اور پچھلے محض دس برسوں میں 13729 سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں اس سے سویلین ہلاکتوں کی ریشو نکالی جا سکتی ہے اب ذرا امریکیوں کو جالینے دیں جہادی برکت سے افغانی خون میں نہائیں گے اور اسلامی خانہ جنگی ان کی اگلی نسلوں تک جائے گی لیکن کوئی بات نہیں اگر افغانیوں کی موجودہ نسل پکی سچی مسلمان نہ بن سکی تو جہاد کی برکات سے اگلی نسل ضرور بن جائے گی۔ بھارت کے ایک مذہبی عالم سے کسی نے پوچھا کہ بھارت سے ہندو مسلم منافرت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے ۔ مسلمان عالم دین کی مذہبی درد مندی قابل ملاحظہ ہے فرمایا ’’ بڑا آسان حل ہے سارے ہندو اسلام قبول کر لیں یا قتل کر دیئے جائیں تو ہندو مسلم تنازع خودبخود ختم ہو جائے گا ۔‘‘ اس لئے ہم بھی امن کیلئے ایک تجویز پیش کرتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان میں امن کیلئے نہ صرف یہ کہ امریکہ خطے سے نکل جائے بلکہ ہمارے راسخ العقیدہ پکے سچے مسلمان طالبان بھائی نفاذ شریعت کا جو مطالبہ کرتے ہیں وہ مان لیا جائے تو راوی امن کے سوائے اور کیا لکھے گا کیونکہ بدامنی کی تحریک لکھنے والا کوئی لکھاری بچے گا تو ہی کچھ لکھے گا۔اسلام آباد کچہری پر ہونیوالے خودکش حملے نے بلاشبہ تمام اہل وطن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے یہ خونی ڈرامہ کس نے رچایا ہے اور کیوں رچایا ہے ؟ اسکی نشاندہی ہونی چاہئے کیونکہ طالبان نے تو کہہ دیا ہے کہ انہوں نے یہ سب نہیں کیا قومی اسمبلی میں پی پی کے اپوزیشن لیڈر طالبان سے اس کی نشاندہی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد جیسا ایک متقی پرہیز گار باریش شرعی انسان آخر کیسے جھوٹ بول سکتا ہے انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ’’اس میں را کا ہاتھ ہو سکتا ہے یا پھر کوئی اور غیر ملکی ایجنسیاں بھی ہوسکتی ہیں بہرحال ہماری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم پس پردہ ہاتھوں کو تلاش کرتے پھریں پھر بھی اگر ہمارا کوئی گروپ اس میں ملوث ہوا تو اس سے باز پرس کریں گے۔‘‘ استاذ العلماء و طالبان حضرت مولانا سمیع الحق نے بھی عمران خاں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی اس کا مورد الزام ٹھہرایا ہے جب ایسے اکابرین یہ کہہ رہے ہیں تو بھلا بات کیسے غلط ہو سکتی ہے طالبان بھائیوں کا بچھڑا ہوا نووارد گروپ ’’احرار الہند‘‘ بھی تو آخر اسلامی جذبے سے سرشار ہے اب دین کیلئے ان کی تڑپ کو ہم امریکہ یا بھارت کے کھاتے میں کیوں ڈالیں۔ انہوں نے موت کو گلے لگانے والے اس ’’کارنامے‘‘ کے ساتھ ہی اعلان فرما دیا ہے کہ ’’پاکستان میں غیر شرعی نظام نافذ ہے اور ہم نفاذ شریعت تک اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔‘‘ مذاکرات کرنے والے مذاکرات کریں اور جہاد کرنے والے جہاد، جب وہ مذاکراتی اسکیم کا حصہ نہیں ہیں تو ان پر اس حوالے سے شرعی پابندی بھی لاگو نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کو بھی چاہئے کہ کسی بھی منہ پھٹ صحافی کو یہی شرعی جواب دیں۔
تازہ ترین