بہت تلخ یادیں وابستہ ہیں، ایک سیاہ ترین دن کے ساتھ جب 5 جولائی 1977ء کی شب جنرل ضیاء الحق نے شب خون ماراتھا۔ ایک منتخب اور مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نہ صرف حکومت کا تختہ الٹا گیا بلکہ مذہب کے نام پر منافقت کا ایسا بازار گرم کیا گیا کہ اللہ کی پناہ۔ بھٹو کے خلاف امریکہ سرگرم تھا تو اندرون ملک مذہبی اور بازار کی قوتوں نے جنرل ضیاءکی شہ پر پاکستان قومی اتحاد (PNA) کے پلیٹ فارم سے نظام مصطفےٰ کے قیام کی جو تحریک چلائی اس کا اصل مقصد بھٹو کو اقتدار سے فارغ کرنا تھا۔ مذہب کا سیاست میں ایسا خوفناک استعمال پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا۔ بظاہر PNA کا احتجاج چند نشستوں پہ ہونے والی زور زبردستی کے خلاف تھا لیکن بڑھتے بڑھتے اس نے نہایت رجعتی ردعمل کی صورت لے لی۔ معاملہ اگر اپوزیشن کے مطالبات سے ٹلنے والا ہوتا تو ٹل جاتا اور بھٹو نے یہ بھاپنتے ہوئے کہ دال میں کچھ کالا ہے قومی اتحاد کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے۔ معاہدہ ہوگیا، بس دستخط باقی تھے کہ وزیراعظم کو حفاظتی تحویل میں لے کر ملک پر مارشل لا مسلط کردیا گیا۔ وعدہ تو 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا کیا گیا مگر عزائم، اقتدار پر دائمی قبضے کے تھے۔ بھٹو کی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر، جنرل ضیاء اور اس کے رفقاء نے عدلیہ کے بڑے حصے کو ساتھ ملایا اور بھٹو کا عدالتی قتل کردیا گیا اور جس عزم و استقلال اور جوانمردی کا بھٹو نے ثبوت دیا، آج بھی ان کی یاد کروڑوں دلوں میں جاوداں ہے
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے
اورزندہ ہے بھٹوزندہ ہے کاثبوت اس سے بڑا کیا ہوگا کہ گڑھی خدا بخش میں بھٹو کا مزار برصغیر کا سب سے بڑا سیاسی مزار بن گیا جبکہ جنرل ضیاء الحق کی لحد پر کوئی پھول چڑھانے والا نہیں۔ لیکن یہ عجب ماجرا ہے کہ بھٹو تاریخ میں انمنٹ ہوگئے لیکن جنرل ضیاء الحق کی نظریاتی چھاپ ابھی بھی چھائی ہوئی نظر آتی ہے اور اس کے دور میں تیار کی گئی دہشت گردوں کی فصلیں چاروں طرف پھیل گئی ہیں، فرقہ وارانہ جنگ اور دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
قومی اتحاد کی بنائی زہریلی انتہا پسندانہ مذہبی فضا میں جنرل ضیاء الحق نے PNA کی ان تمام قوتوں کو ساتھ ملایا جو کسی طرح سے بھٹو کے خلاف محاذ آرا تھیں۔ مذہبی جماعتیں، تجارتی مراکز، غلہ منڈیوں کے تاجر اور چھوٹے بڑے سرمایہ داروں کا جم غفیرجو بھٹو کے عوامی اصلاحاتی ایجنڈے اوربھٹو کی عوام دوست اور روشن خیال فکر سے نالاں تھا سب جنرل ضیاء کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ وہ جنہیں زندہ بھٹو کے ہوتے ہوئے انتخابی امکان نظر نہیں آتا تھا وہ سب سے بڑھ کر پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ لگا کرسامنے آئے اور یوں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت انتخابات کو ملتوی کردیا گیا لیکن جنرل ضیاء الحق کا ستارہ نو ستاروں کی حمایت کے باوجود چمکنے والا کہاں تھا۔ اس کا اندازہ ضمانت پر رہا ہونے پر بھٹو صاحب کے لاہور میں عظیم الشان استقبال سے لگایا جاسکتا تھا۔ لہٰذا زندہ بھٹو جنرل ضیاء الحق کیلئے بڑا خطرہ بن گیا، لیکن بھٹو کے حریفوں کو یہ اندازہ نہ تھا کہ شہید بھٹو کئی دہائیوں تک اپنی قبر سے غریبوں کے دلوں پر حکمرانی کرتا رہے گا۔ علاقائی حالات میں دو بڑی تبدیلیوں یعنی شہنشاہ ایران کا تختہ الٹنے اور افغانستان کے انقلاب ٹور (اپریل) نے جیسے سرد جنگ کے زمانے کی سب سے بڑی محاذ آرائی کے اسباب فراہم کردیئے او ر یوں آمر ضیاء سوویت یونین اور کمیونزم کے خلاف مغربی دنیا کا سب سے بڑا مہرہ بن گیا۔ جونہی سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں امریکہ کو بھولا ہوا روایتی اتحادی (پاکستان) اچانک یاد آگیا اور جنرل ضیاء کی نفرت انگیز آمریت کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی۔ پھر کیا تھا جنرل ضیاء نے ریاست و معاشرت کی جہادی کایا پلٹ کا بیڑا اٹھایا، ہر طرح کے جمہوری و شہری حقوق کو پامال کیا، ہزاروں جمہوری کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا، تشدد کا نشانہ بنایا، عدلیہ کو معطل کیا، اخبارات پر ایسا سنسر لگایا کہ بھٹو یا جمہوریت کا ذکر نا ممکن ہوگیا۔ فوجی عدالتیں لگیں اور ہر طرف وحشت اور دہشت کا بازار گرم کردیا گیا۔ ایک طرف پی این اے کی رجعتی مذہبی لہر اور دوسری جانب امریکہ کا کمیونزم کے خلاف جہاد، جنرل ضیاء الحق نے دونوں کو اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے استعمال کیا۔
مسلم دنیا، خاص طور پر عرب دنیا سے ہزاروں تکفیری اور انتہا پسند درآمد کیے گئے۔ پاکستان اور اس کے سرحدی علاقے امریکہ کے شروع کئے گئے نام نہادجہاد کا مرکز بن گئے۔ افغانستان اور ملک بھر سے رضاکار بھرتی کئے گئے، فرقہ واریت کو ہوا دی گئی، جہاد میں بھرتی کے دفاتر کھول دیئے۔ مدارس کو پیسہ اور اسلحہ دیا گیا اور ان سب کو امریکی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ ملک کا سماجی و سیاسی نقشہ بدل گیا اور مملکت کا کعبہ درست کرنے کے نام پر مذہبی و فرقہ وارانہ انتہا پسندی کو ہر جانب پھیلا دیا گیا۔ افغانستان کو سوویت یونین کا ویت نام بنانے کے زعم میں امریکہ نے ایسی خوفناک انتہا پسند قوتوں کو فروغ دیا جن کا اسلام کی میانہ روی، امن و ایثار اور انسانی بھائی چارے اور بھلائی کی اعلیٰ اقدار سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ بدقسمتی سے طاقت اور پیسے کو دیکھتے ہوئے ہمارے چند مذہبی رہنما بھی اس خوفناک دھارے میں بہہ گئے۔
جو بات میں آج بھی سمجھنے سے قاصر ہوں وہ یہ کہ پاکستان کے مروج قومی سلامتی کے نظریاتی کے اصل خالق بھٹو صاحب ہی تھے۔ مسلم امہ اور آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (OIC)، ایٹم بم، بھارت سے محاذ آرائی اور افغانستان میں تزویراتی گہرائی یہ سب بھٹو کے تخلیق کردہ جارحانہ قوم پرست نظریات تھے جو آج بھی کم و بیش جاری ہیں تواسی بھٹو کو اسٹیبلشمنٹ نے کیوں نشان عبرت بنایا۔ غالباً اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ بھٹو نے لوگوں کو سوچنا اور بولنا سکھایا اور سیاست کو عوام کی طاقت بنا دیا جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ بھٹو کی شہادت پر بھلے ہمالیہ نے آنسو نہ بہائے ہوں پر (حالانکہ گلیشئر پگھل ضرور رہے ہیں) لیکن جنرل ضیاء نے لاکھوں گھروں کو اجاڑ دیا اور ملک و قوم کو دہشت گردی اور فرقہ پرستی کی آگ میں ایسا دھکیلا کہ جان چھوٹنے کو نہیں۔ درسی کتب اٹھالیں، آئین پر نظر ڈال لیں، عدلیہ کا اضافی شرعی بازو دیکھ لیں، جہادی اور انتہا پسند مذہبی و فرقہ وارانہ نظریات کا پھیلائو جانچ لیں اور ریاستی اداروں پر چھا ئے غالب نظریات کا تجزیہ کرلیں، آپ کو ہر طرف جنرل ضیاء ہی نظر آئے گا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کیاگئی اور امریکی مداخلت کیا ہوئی کہ پھر سے انتہا پسندوں کو نئی زندگی ملی اورکرتے کرتے یہ دہشت گردی تقریباً تمام مسلم دنیا میں پھیل گئی۔ جلتی پہ تیل کا کام امریکہ و برطانیہ کے عراق، لیبیا اورشام میں جنگی جرائم نے کیا۔ ہرطرف آگ ہی آگ اور اس میں جھلستے ہوئے بیچارے معصوم مسلمان جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔
جنرل ضیاء کی حادثاتی موت اور افغانستان پر ہونے والے جنیوا معاہدے نے پھر سے جمہوریت کی راہ کھولی جس کیلئے بے بہا قربانیاں دی گئیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی گئیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو آدھی مدت والی حکومتوں نے جمہوری قدروں کو بحال تو کیا لیکن جنرل ضیاء کی باقیات نے انہیں چلنے نہ دیا، میاں نوازشریف نے جنرل ضیاء کے جانشین ہوتے ہوئے بھی آمریت کے دور سے قطع تعلق تو کیا لیکن انہوں نے پی این اے والا حلقہ انتخاب برقرار رکھا۔ جنرل مشرف نے گو آزاد خیالی کو فروغ ضرور دیا لیکن وہ ریاست و معاشرت پر چھائے جنرل ضیاء الحق کے نقوش نہ مٹا سکے۔ آج فوج یقیناً وہ فصل کاٹ رہی ہے جو جنرل ضیاء نے بوئی تھی۔ یہ خیال غلط تھا کہ دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل راحیل شریف نے ایک حد تک یہ کر دکھایا ہے اور اس کا مکمل صفایا بھی کیا جاسکتا ہے جس کے بغیر پاکستان آگے چل پانے والا نہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بھی درسی کتب، بعض مدارس، کالعدم تنظیموں، جہادی جتھ بندیوں اور آئین میں موجود جنرل ضیاء کی غیر جمہوری ترامیم کی صورت میں مرحوم آمر کی باقیات موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان باقیات کی نظری وحربی بندوقوں کا رخ آج اسلام آباد کی طرف ہے۔ جب تک جنرل ضیاء کی باقیات ختم نہیں ہوتیں مملکت خداداد میں امن و آتشی اور خوشی و خوشحالی کے پھول کھلنے سے رہے۔