• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کے صحرائے تھر سے ایک بار پھر خشک سالی اور قحط کے باعث انسانی ہلاکتوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 100 سے زائد بچے دوائیں نہ ملنے کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ خشک سالی اور پانی کی قلت کی وجہ سے مال مویشی بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا میں خبریں آنے کے بعد ہی حکومت متحرک ہوتی ہے اور نمائشی اقدامات شروع کر دیئے جاتے ہیں۔ بھوک اور غذائی قلت سے ایک ایسے صوبے میں اموات ہو رہی ہیں، جس کے بارے میں حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ یہ صوبہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد گندم برآمد کر سکتا ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اسی صوبے میں بھوک سے اموات ہو رہی ہیں۔ تھر میں قحط سالی سے متعلق سندھ ہائی کورٹ بار کے ارکان کی جانب سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو جو خط لکھا گیا ہے اسے چیف جسٹس نے آئینی درخواست میں تبدیل کردیا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ 121 بچے بھوک اور غذائی قلت سے ہلاک ہو چکے ہیں ۔ درخواست میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تھر کے لئے حکومت سندھ نے 60 ہزار بوریاں گندم بھیجی تھیں لیکن یہ گندم لوگوں میں تقسیم نہیں ہوئی اور گوداموں میں پڑی سڑ رہی ہے۔ اکیسویں صدی کے اس عہد جدید میں اس طرح کی خبروں پر جس قدر افسوس کیا جائے، کم ہے۔
اگر پورے ملک میں غذائی قلت کا مسئلہ درپیش ہو تو یہ پھر تھر جیسی صورت حال سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور غذائی اجناس میں خود کفیل ہے ۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اور سندھ حکومت کے پاس اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے وسائل بھی موجود ہیں لیکن سارا مسئلہ گڈ گورننس نہ ہونے کا ہے اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ گڈ گورننس کے حوالے سے سندھ حکومت پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہی ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ خشک سالی اور قحط کی صورت حال ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی ہے۔ علاقے کی انتظامیہ کو زمینی حقائق کا علم ہوتا ہے لیکن کسی کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ اس سے پوچھ گچھ ہو سکتی ہے یا اس کا احتساب ہوسکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے میڈیا پر خبریں آنے کے بعد تھر کا دورہ کیا۔ دوسرے دن چیف منسٹر ہائوس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ دوائیں نہ ملنے کے باعث بچوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سرکاری طور پر انہیں 41 بچوں کی ہلاکت کی رپورٹ دی گئی ہے جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ تھر کے لئے بھیجی جانے والی گندم کی صحیح تقسیم نہیں ہوئی ہے اور ریلیف کے اداروں نے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے مجرمانہ غفلت پر تھر کے ڈائریکٹر ہیلتھ اور مٹھی سول اسپتال کے ایم ایس کو نہ صرف برطرف کردیا ہے بلکہ مجرمانہ غفلت پر ان کی گرفتاری کے بھی احکامات جاری کئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی تھر کو بھی تبدیل کردیا ہے جبکہ اس صورتحال کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے خشک سالی اور قحط کے متاثرہ لوگوں میں گندم مفت تقسیم کرنے اور اسپتالوں میں دوائیں فراہم کرنے کے پیکج کا بھی اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے یہ اقدامات اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن ان میں تاخیر بہت ہو چکی ہے۔ اس صورتحال کی تمام تر ذمہ داری صرف ضلعی انتظامیہ پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ سندھ حکومت بھی مکمل طور پر اس کی ذمہ دار ہے۔ تھر میں اس طرح کی صورت حال پہلی مرتبہ پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ہر چند سال کے بعد وہاں کے لوگوں کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ضلع تھر کے 166 دیہہ میں سے صرف 9 دیہہ بیراج کے کمانڈ ایریا میں ہیں۔ باقی علاقوں میں پانی کی فراہمی کا کوئی مستقل انتظام نہیں ہے۔ وہ صرف بارشوں پر انحصار کرتے ہیں۔ سالہا سال کے تجربے کے بعد حکومت سندھ کے اداروں کو ایسی صورت حال کی مانیٹرنگ اور اس سے نمٹنے کے لئے ایک مستقل حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوتی ہے۔ لوگوں کو اس طرح بے بسی سے مرنے دینا انتہائی گھنائونا اور مجرمانہ فعل ہے۔ اس کی کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہوسکتی۔
آفات سے نمٹنے کے لئے حکومت سندھ کے تین ادارے متوازی طور پر کام کرتے ہیں ان میں ایک محکمہ ریلیف ہے دوسرا محکمہ بحالیات ہے اور تیسرا ادارہ پراونشل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے نام سے کام کرتا ہے۔ ان تینوں اداروں کے پاس خاطر خواہ بجٹ ہے اور ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مسلسل پیدا ہونے والی ایسی صورت حال کی مانیٹرنگ کریں اور پیشگی اقدامات کرکے کسی بڑے انسانی المیے کو جنم نہ لینے دیں۔ خشک سالی اور قحط کو کنٹرول کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی صوبوں کے ساتھ مکمل رابطوں میں ہوتی ہے۔ علاقے کے منتخب نمائندوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ حالات کیا ہیں۔ ضلعی انتظامیہ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے۔ غیر سرکاری ادارے بھی تھر میں مسلسل کام کررہے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب سیکڑوں بچوں کی ہلاکت کے المیے کے بعد میڈیا میں شور شرابا ہوا تو حکومت کو خیال آیا۔ اس غفلت مجرمانہ میں سب شریک ہیں۔ مجموعی طور پر سندھ حکومت کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ صرف تھر میں قحط کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ حکومت سندھ کے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے 71 فیصد خاندان ’’فوڈ ان سیکورٹی‘‘ یعنی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان میں سے 34 فیصد کم درجے کی اور 17 فیصد شدید بھوک کا شکار ہیں۔ جن خاندانوں کو فوڈ سیکورٹی حاصل ہے، ان میں بھی زیادہ تر بچے غذائی قلت سے ہونے والی بیماریوں کا شکار ہیں۔ سندھ کے ساحلی علاقے انتہائی غریب علاقے تصور کئے جاتے ہیں۔ اس طرف سندھ حکومت نے کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے گزشتہ پانچ سال کے دوران سندھ میں ترقیاتی کاموں پر 500 ارب روپے سے زیادہ رقم خرچ کی گئی ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہے لیکن تھر کے لوگ چیخ رہے ہیں کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے اور وہ دوائیں کہاں سے لیں۔ سرکاری اسپتالوں کی صورت حال یہ ہے کہ وہاں لوگوں کو ایک چار آنے کی گولی بھی نہیں ملتی ہے۔ تھر میں سیکڑوں بچے دوائیں نہ ملنے کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اگر سرکاری ریکارڈ میں دیکھا جائے تو دوائوں کی خریداری پر سالانہ اربوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سندھ کے آثار قدیمہ کو بچانے کے لئے اربوں روپے سندھ فیسٹیول میں اڑا دیئے گئے لیکن معصوم بچوں کو بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے جو تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے ،اس کمیٹی کو چاہئے کہ وہ اس انسانی المیے کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لئے دیانتداری سے اپنی رائے کے بارے میں حکومت کو آگاہ کردے۔
تازہ ترین