• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نائن الیون کے بعد وطن عزیز میں بم دھماکوں میں ہزاروں شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ دوسری طرف یہی وہ دورانیہ ہے جس میں غربت کا عفریت پوری بربریت و سفاکیت سے کروڑوں پاکستانیوں کو زندہ درگور کرنے کا باعث بنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بم دھماکے کرنے والوں اور عوام کے معاشی قتل میں مصروف عناصر کا ماسٹر مائنڈ ایک ہی ہے!! آپ نے یقیناً اس امر پر غور کیا ہو گا کہ گزشتہ دس گیارہ سالوں میں دو دھاری تلوار سے جسمانی اور معاشی قتل کا جو سلسلہ دراز ہے اس نے متوسط طبقے کو ختم کر کے رکھ دیا ہے، باالفاظ دیگر ملک میں جہاں غریب، متوسط اور بالائی طبقہ ہوتا تھا، اب معروضی صورتحال کے نتیجے میں مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر وجوہ کی بنا پر متوسط طبقے میں شامل لوگ یا تو خطِ غربت نیچے آ جانے سے نچلے یعنی غریب طبقے کا حصہ بن گئے ہیں یا پھر ملک میں جسمانی و معاشی قاتلوں کے ساتھ مل کر بالائی طبقے میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایسا جائز طریقے سے دولت آ جانے سے بھی ہو سکتا ہے لیکن ملک میں ان ماہ و سال میں جس طرح دولت کی ریل پیل نظر آئی ہے، بمشکل وہ کسی حلال کمانے والے کا مقدر بنی ہوئی ہو گی۔ کیا یہ نکتہ قابل غور نہیں کہ اس دورانیے میں متعدد بار اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھائی گئیں لاکھوں ملازمین کو بے روزگار کر دیا گیا لیکن یہ تمام مظالم بم دھماکوں کے شور میں دب کر رہ گئے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہشت گردی کے واقعات استحصالی سرمایہ داروں کیلئے خوف کا باعث بنتے لیکن انہوں نے اس کے برعکس ان واقعات کی آڑ لیکر سیم وزر کے انبار لگانا شروع کر دیئے۔ جہاں ہمارا استدلال یہ ہے کہ بے قصور کا قتل حرام ہے بالکل اسی طرح دو نمبر طریقے سے کسی کا معاشی قتل بھی جائز نہیں، اسلام نے قتل کی دونوں اقسام کو فساد کہا ہے۔ قرآن مجید 19ویں پارے سورہ الشعراء میں ہے ’’ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو‘‘ ترازو سے کسی بھی لین دین میں ڈنڈی کی ممانعت مراد ہے یعنی کسی بھی حوالے سے کسی کا حق کھانا یا استحصال کرنا فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ اب اگر بم دھماکے کرنے والے قتل و فساد پھیلانے کے جرم میں قابل گرفت ہیں تو معاشی قتل کے ذمہ دار استحصالی سرمایہ دار فساد پھیلانے کے جرم میں آئے روز معزز و محترم کیوں بنتے جا رہے ہیں۔ آپ مجھ طالب علم کی یہ کہہ کر گرفت کر سکتے ہیں کہ بم دھماکے کرنے والوں کی کہاں گرفت ہو رہی ہے؟ ہم یہاں بالکل آپ سے اتفاق کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ یہ عرض بھی کریں گے کہ یہی تو ہمارا کہنا ہے کہ دونوں کا ماسٹر مائنڈ ایک ہے اور وہ اتنا طاقتور ہے کہ ہر دو فسادی کھلے عام دہشت روا رکھے ہوئے ہیں؟...ہاں یہ سوال ضرور ہے کہ جتنا شور بم دھماکے کرنے والے فسادیوں کے خلاف برپا ہے اتنا معاشی قتل میں ملوث فسادیوں کے خلاف کیوں نہیں !! آپ کہہ سکتے ہیں کہ بم دھماکے کرنے والے خود ہی ذمہ داری قبول کرتے ہیں جبکہ استحصالی سرمایہ دار تو’’ شرفاء ‘‘ہیں۔ اب شرفاء پر ہاتھ کیونکر ڈالا جا سکتا ہے؟… قارون کا نام ہم سب کو یاد ہے اور یہ واقفیت محض قرآن مجید پڑھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں کئی قارون موجود ہیں اور بیچارے بے بس عوام اپنے نوحوں میں ایسے پاکستانی قارونوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جنہوں نے انہیں اس مقام پر لاکھڑا کر دیا ہے۔ قرآن عظیم میں قارون کا ذکر ہے وہ بنی اسرائیل میں تورات کا سب سے بڑا قاری تھا یعنی ہمارے ہاں کے کسی بھی قارون سے زیادہ عالم، فاضل... لیکن جب اس نے مال کے خزانے بنائے اور اس پر سانپ بن کر بیٹھ گیا تو رب العالمین نے سورہ قصص کے مطابق یہ تنبیہ کی’’اور زمین میں فساد کی خواہش نہ کر، بے شک خداوند تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا، وہ بولا جو کچھ میرے پاس ہے وہ تو مجھے میرے علم سے ملا ہے‘‘ مفسرین کے مطابق اسے خداتعالیٰ نے تانبے سے سونا بنانے کا علم دیا تھا اس لئے وہ اسے اپنا کمال سمجھ بیٹھا…ہمارے ہاں کے قارونوں کے پاس تو ایسا کوئی علم بھی نہیں ہے !!
کیا یہ مقام افسوس نہیں کہ جن دو گروہوں کو قرآن عظیم نے فسادی کہا ہے وہ ’’اسلام کے قلعے‘‘ میں محفوظ ہیں اور امن کے متلاشی غریب عوام لُٹ اور مر رہے ہیں...سورہ قصص ہی میں ہے کہ ’’ہم نے کتنے ہی ایسے شہر ہلاک کر دیئے جو اپنے عیش (دولت) پر اترا گئے تھے اور ہم شہروں کو ہلاک نہیں کرتے مگر جب ان کے ساکنان ستم گرہوں‘‘ اب جس ملک کا سب سے زیادہ شراب پینے والے ملکوں میں آٹھواں نمبر ہو، تو کیا اس ملک میں ستم گر موجود نہ ہوں گے! تو پھر ستم گروں کے خلاف توانا آواز کیوں موجود نہیں؟اور تو اور ہمارے مذہبی رہنما ارتکاز زر کے مسئلے پر خاموش کیوں ہیں؟ اگر کوئی لانگ مارچ یا شارٹ مارچ ممکنات میں سے نہ بھی ہو تو کم از کم وہ آیات قرآنی کی طرف تو ایسے ستمگروں کی توجہ مبذول کرا سکتے ہیں۔ سورہ توبہ آیت نمبر34 میں ہے اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں اس درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے جس دن ان کا سونا جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا اب اس کا مزہ چکھو ‘‘ ہمارے سرمایہ دار غریبوں پر خرچ کیا کریں گے کہ یہ تو کماتے ہی استحصال کے ذریعے سے ہیں۔ سورہ الشعرا میں ہے۔ حضرت صالح نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ’’تم مہارت سے پہاڑوں میں گھر تراشتے ہو، کیا تم باغوں، چشموں، کھیتوں میں یونہی چھوڑ دیئے جائو گے ؟ اور ایسے لوگوں کے کہنے پر نہ چلو جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں‘‘۔
کاش ہمارے مذہبی رہنما اسلام آباد سمیت ایسے تمام اہل زر جنہوں نے اس نوع کے محلات بنا رکھے ہیں، سے مخاطب ہو کر ان تک قرآن پاک کا یہ کھلا پیغام پہنچا دیتے تو شاید استحصال کی وہ شکل ہمیں دیکھنے کو نہ ملتی جو اس وقت موجود ہے لیکن کیا کیا جائے ان صاحبان کو تو اپنی اپنی جماعتوں کا پیغام پہنچانے سے ہی فرصت نہیں!! نبی کریم ؐ کے میٹھا کھانے کی سنت کا بلاشبہ بعض مولوی صاحبان بار بار ذکر کریں اور حلوہ سے لطف اندوز بھی ہوں لیکن پیٹ پر پتھر باندھنے کے نبی کریمؐ کی سنت کو بھی تو کبھی زندہ کیا جائے...خود بھی اس پر عمل کریں اور اُنہیں بھی اس کی ترغیب دیں جو اپنے محلات کی افتتاحی تقریب میں قرآن خوانی اور دعا کے لئے بلائیں۔
تازہ ترین