• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے ہفتے کالم میں راقم نے برف سے ڈھکی جھیل پر کینیڈا میں مچھلی کے شکار کا اپنا ذاتی تجربہ سے قارئین کو آگاہ کیا تھا۔بہت سے پاکستانی جو کینیڈا، امریکہ، برطانیہ میں گزشتہ 30چالیس سالوں سے رہتے ہیں اکثریت اس مچھلی کے برفانی شکار سے بالکل آشنا نہیں تھی ایک پاکستانی قاری نے تو مجھے یہ لکھ کر حیران کر دیا کہ وہ خود اس جھیل ورجینیا کے قریب گزشتہ 40سال سے رہتے ہیں انہوں نے صرف سن رکھا تھا کہ گرمیوں میں اس جھیل پر کینیڈین اور دیگر سیاح آکر مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں مگر سردیوں میں جب جھیل برف سے ڈھک جاتی ہے تو پھر بھی اس کے اندر شکار جاری رہتا ہے وہ بھی بہت عجیب سائٹیفک طریقے سے جھیل پر کمرے بنا کر گیس کے سلنڈروں کی مدد سے بیٹریوں کی مدد سے بجلی پیدا کر کے عوام کو یہ تفریح فراہم کی جاتی ہے ایک بات اور بتاتا چلوں کہ کینیڈا میں مچھلیوں کی افزائش و نسل کو قائم و دائم رکھنے کیلئے بھی کینیڈین حکومت نے بہت سخت قوانین بنا رکھے ہیں مچھلی کے شکار کا لائسنس ہر سال لینا پڑتا ہے اور صرف 3 مچھلیاں پکڑنے کی اجازت ہوتی ہے ساتھ ساتھ چھوٹی مچھلیاں نہیں پکڑ سکتے اور جال سے بھی مچھلیاں پکڑنا منع ہے اس پر سخت قوانین لاگو ہوتے ہیں اگر کوئی جال سے مچھلی پکڑتا ہوا پکڑا جائے تو اس پر کئی لاکھ ڈالرز جرمانہ ہو سکتا ہے۔ میرے ساتھ ایک مرتبہ یہ ہو چکا ہے ٹورنٹو (کینیڈا) میں اس جھیل پر شکار کر رہا تھا مگر مچھلیاں نہیں آرہی تھیں میں نے کنارے پر دیکھا کوئی 10پندرہ کلو کی مچھلیاں Solmanسولمن نسل کی بڑے آرام سے 5,5سات سات آدھے فٹ پانی میں آتی جاتی تھیں مگر میرے کانٹے کی طرف بالکل نہیں آرہی تھیں نہ کانٹے کا چارہ کھا رہی ہیں میں نے مچھلی پکڑنے کا جال لے کر پانی میں اتر کر پکڑنے کی کوشش کی تو ایک عمر رسیدہ مچھلی کے شکاری نے مجھے باآواز ِ بلند وارننگ دی تم اس طرح مچھلی پانی میں اتر کر جال سے نہیں پکڑ سکتے صرف کناروں پر بیٹھ کر ہی کانٹے سے پکڑ سکتے ہو اس نے یہ بھی بتایا کہ سالمن مچھلی کانٹے میں نہ مچھلی، جھینگا ، آٹا یا گوشت کھاتی ہے یہ صرف کانٹے میں مچھلی کے انڈے لگے کانٹے کی طرف راغب ہوتی ہے جو تم نے نہیں لگایا اس نے مجھے سالمن مچھلی کا مصنوعی پلاسٹک انڈے کا گول پیلے رنگ کا انڈہ دیا وہ میں نے اپنے کانٹے میں لگایا تو واقع ایک بڑی سالمن مچھلی اس میں پھنس گئی میری خوشی کی انتہا نہیں رہی کہ کینیڈا میں اتنی بڑی مچھلی کا شکار ایک کارنامہ ہو سکتا ہے اور جب اس 10بارہ کلو کی مچھلی کو لے کر گھر پہنچا تو معلوم ہوا یہ بڑی مچھلیاں جو صرف جھیل کے کنارے تیرتی ہیں ان کا گوشت چربی نما ہوتا ہے اس میں وہ پھرتیلی مچھلیوں جیسا ذائقہ نہیں ہوتا اس لئے مچھلیوں کے شکاری جھیل کے اندر جا کر ہی مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں یہ بھاری بھاری مچھلیاں خود اپنا وزن بڑھا لیتی ہیں اور جھیل کے اندر جانے کی مدافعت کھو بیٹھتی ہیں اب دوسری طرف بھی آنا ضروری ہے کینیڈا کی سخت ترین سردی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی میرے ایک بہت بے تکلف دوست جن کا تعلق پاکستان آرمی سے بھی رہا وہ ہمیشہ امریکہ یا اس سے ملحق خوبصورت جزیروں پر لے جاتے ہیں اس دفعہ انہوں نے میکسیکو کے ایک دنیا کے سب سے بہترین جزیرہ کو میرے لئے دریافت کیا اس کا نام کین کُن تھا۔ میکسیکو کا دنیا کے سب سے بہترین یہ ساحل جہاں درجہ حرارت دھوپ وہ بھی چمکتی ہو صرف 24Cیعنی منفی 40کے سامنے وہ بھی سمندر کے کنارے وٹامن ڈی کی کمی کو دور کرنے کا سرد ممالک کے لوگوں کیلئے بالکل ایسا ہے جب ہمارے ملک میں بارش کا سماں ہو جائے اس میکسیکو کے بیچ پر آکر مرد و خواتین صرف تین کام ضروری سمجھتے ہیں۔ نمبر1اس دھوپ کو سینکیں، خوب دھوپ میں سمندری پانی میں تیراکی کریں اور کتابوں کا مطالعہ کریں وٹامن ڈی جو ہماری جسمانی کمزوریوں کیلئے بہت ضروری ہے ہم آج کل اس طرف سے غافل ہو چکے ہیں ہمیں تو دھوپ بری لگتی ہے اس سے بھاگتے ہیں ہمارے ڈاکٹر صاحبان وٹامن ڈی کے انجکشن لگا کر اس کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہاں بچہ بچہ ، خواتین ، مرد حضرات ہڈیوں کی مضبوطی کو اپنی زندگی کا لازمی جزو سمجھتے ہیں اور جیسے ہی دھوپ نکلتی ہے وہ سمندر، پارکوں کی طرف ہماری طرح بارش میں انجوائے کرنے کیلئے باہر نکل پڑتے ہیں خیر ہم میکسیکو شہر کے اس سمندری ساحل پر 4دنوں کیلئے پہنچے ہمارا ہوٹل سمندر کے بہت بڑے ساحل پر واقع تھا اگرچہ یہاں بھی مسلم کھانا ناپید تھا ہم نے اپنے ساتھ پیکٹ میں امریکہ، کینیڈا میں بنے پیکڈ کباب کھانے کیلئے رکھ لئے ۔بہترین نیم گرم موسم کو سمندر کی لہروں میں انجوائے کیا یہاں کے لوگ آج سے 30چالیس سال پہلے صرف امریکہ جانے کی کوشش کرتے تھے اس زمانے میں ہمارا خود کفیل معیشت والے ملکوں میں شمار ہوتا تھا میکسیکو غریب ترین ملکوں میں سمجھا جاتا تھا مگر آج ہم کسی بھی کیٹیگری میں نہیں آتے مگر اب میکسیکو نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ میکسیکن امریکہ سے واپس میکسیکو آنے پر ترجیح دے رہے ہیں جس طرح بھارتی گلف سے واپس اپنے ملک کو ترجیح دے رہے ہیں UK، امریکہ ، کینیڈا میں ابتدا میں جانے والے بھارتی باشندے آج بھارتی پاسپورٹ کو ترجیح دیتے ہیں ان کے ملک میں دہری شہریت کی اجازت نہیں ہے وہ بھارت کے پاسپورٹ کو ہی بہتر سمجھتے ہیں اگر وہ غیر ملک کا پاسپورٹ لیں تو ان کو اپنی بھارتی شہریت اور پاسپورٹ جمع کرانا پڑتا ہے بہرحال میکسیکو میں4 دن بہت ہی زبردست گزرے کین کن بہت ہی خوبصورت ساحل ِ سمندر ہے جو تقریباً 20کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور ہوٹلز کی بھرمار ہے لوگ بہت خوش اخلاق ہیں ایک ڈالر میں جب ہم کو 5روپے ملتے تھے تو وہاں ایک ڈالر میں 20پیسے (Pyico) ان کی کرنسی کا نام ہے، ملتے تھے ۔آج ایک ڈالر میں 12(پیسو) ملتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ساحلوں کو ترقی دے کر اپنی معیشت کو مضبوط بنا لیا ہے انہیں آج امریکہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے البتہ امریکہ کو میکسیکن عوام کی ضرورت ہے۔ دنیا کے نقشے میں اس سمندری ساحل کو دیکھیں کین کن ایک جنت فریب نظارہ ہے مگر آج ہمارے کھلے سمندر کا ساحل دیکھیں تو وہاں باریک مٹی خوبصورت دھوپ، سیاحوں کا حقیقی جنتی نظارہ آج سب کچھ بھول چکا ہے۔ کاش ہمارے حکمران دوبارہ پاکستان کو پاکستان بنا دیں تو ہم باہر کے ملکوں میں در بدر کیوں گھومیں پھریں۔ ہمارے پاس تو 2سمندر ہیں دنیا کی سب سے اونچی چوٹی K2کے ساتھ ساتھ ہمارے شمالی علاقے سرسبز و شاداب ہیں مگر سب سیاحوں سے خالی ہیں۔
تازہ ترین