• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے ماضی میں بالعموم بیرونی خطرات ہی سے نمٹنے کا اہتمام کرنا ہوتا تھا ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور دیگر تنازعات کے باعث پائی جانے والی کشیدگی اس کی بنیادی وجہ تھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے علاوہ باقاعدہ جنگیں بھی ان ہی اسباب کا نتیجے میں ہوتی رہیں۔ ان حالات میں اپنے دفاع کے لئے حسب ضرورت فوجی سازوسامان، روایتی ہتھیار اور فوجی نفری پاکستان کی ناگزیر ضرورت رہی۔ لیکن دونوں ملکوں کے جوہری صلاحیت حاصل کرلینے کے بعد نہ صرف باقاعدہ جنگ کا خطرہ کم ہوگیا بلکہ روایتی ہتھیار اور بھاری فوجی نفری کی بھی پہلے کی طرح ضرورت نہیں رہ گئی۔ ان حالات میں ہر قسم کے ہتھیار لے جانے والے مختلف فاصلوں کے میزائلوں کی تیاری پر توجہ دی گئی اور اس میدان میں پاکستانی سائنسدانوں ،دفاعی ماہرین اور سیاسی و عسکری قیادت نے باہمی تعاون سے نہایت حوصلہ افزاء کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دفاعی لوازمات میں اس تبدیلی کے منطقی نتیجے کے طور پر دفاعی بجٹ میں کمی کے بارے میں سوچا جانے لگا تاکہ قومی وسائل عوام کے حالات بہتر بنانے اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے استعمال کیے جاسکیں۔تاہم ساڑھے بارہ سال پہلے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد رونما ہونے والی صورت حال میں پاکستان میں ایسے متعدد منظم گروہ وجود میں آگئے جن کا اصل مقصد تو بیرونی افواج کے مقابلے میں افغانستان کے عوام کی تحریک مزاحمت میں شرکت تھا لیکن جب انہیں پاکستانی حکومت نے بین الاقوامی قانون کے تقاضوں کی بناء پر ایسا کرنے سے روکنا چاہا اور اس کے لئے ملک کے دفاعی اداروں کو استعمال کیا تو ان گروپوں نے اپنی کارروائیوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر دہشت گردی ، بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان خوں ریز اور ہلاکت خیز کارروائیوں سے ملک کا کوئی چپہ محفوظ نہیں رہا۔ کئی بار بات چیت کے ذریعے ان گروپوں کودہشت گرد ی کا سلسلہ بند کردینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایسی اکثر کوششیں ناکام ہوتی رہیں۔ موجودہ حکومت بھی مذاکرات کے ذریعے ملک میں قیام امن کی آخری حد تک کوشش کررہی ہے ۔ مگراس کے باوجود اب بھی کئی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث کئی گروپ بات چیت کے اس عمل کے علی الاعلان مخالف ہیں اور کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان کے آئین ، پارلیمنٹ ، عدلیہ اور پورے نظام کو غیراسلامی قرار دیتے ہیںاور ان کے نزدیک پاکستان کے اندر ان کی دہشت گرد کارروائیاں جہاد فی سبیل اللہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لئے طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں بھی ملک کے اندر سے ملک کی سلامتی کے لئے ابھرنے والے اس خطرے کے ابھی غیرمتعین مدت تک باقی رہنے کا امکان ہے۔ ظاہر ہے کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے جس سازوسامان اور جن وسائل کی ضرورت ہے وہ بیرونی خطرے سے تعلق رکھنے والے وسائل سے مختلف ہوں گے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں داخلی خطرات سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لئے جس طرح کے آلات، اسلحہ، گاڑیاں اور دوسرا سامان استعمال کیا گیا ہے، ہماری افواج کو بھی اس کی ضرورت ہوگی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں گزشتہ روز آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار کے درمیان ملاقات ہوئی۔ بعض اطلاعات کے مطابق اس موقع پرملکی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطرافواج پاکستان کو درکار وسائل کی فراہمی کے لئے دفاعی بجٹ میں پندرہ سے بیس فی صد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کی رو سے وزیر خزانہ نے عسکری قیادت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ سیکوریٹی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر فوج کی تمام دفاعی ضروریات پوری کی جائیں گی اور ملکی سلامتی کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔اندازہ کہ ان اضافی وسائل کی فراہمی سے موجودہ مالی سال کا دفاعی بجٹ 625 ارب سے بڑھ کر 700 ارب روپے یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہوجائے گا۔ تاہم دفاعی بجٹ میں یہ اضافہ ملکی سلامتی کا ناگزیر تقاضا ہے۔
اکاون فیصد کے حقوق
صدر ممنون حسین نے ہفتہ کے روز خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کوسماجی، سیاسی اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں اور پاکستان ہر فورم پر خواتین کے خلاف امتیاز کے خاتمے کے لئے خلوص نیت سے جدوجہد کر رہا ہے اور وزیر اعظم یوتھ لون سکیم اور بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام میں خواتین کے لئے 50فیصد اور وفاقی و صوبائی ملازمتوں میں خواتین کے دس فیصد کوٹے کا تعین انہیں عملی طور پر بااختیار بنانے کی جانب اٹھایا جانے والا اہم قدم ہے۔ وطن عزیز میں خواتین کی آبادی اب اکاون فیصد کے قریب ہے۔ ملک کی نصف سے زائد اتنی بڑی آبادی کو ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق سے محروم کر کے انہیں محض امور خانہ داری کی انجام دہی کے لئے وقف کر دینا درحقیقت اقتدار و اختیار کے میدان میں ان کی شرکت کو روکنے کے لئے اختیار کیا جانے والا ایک قبائلی اور جاگیردارانہ رویہ ہے حالانکہ قرآن حکیم میں حقوق میراث کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات کریمہ میں خواتین کے اکتساب کی ذیل میں آنے والے اموال کو ان کا ایک ناقابل تبدیل حق قرار دیا گیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد گرامی میں وہ نہ صرف تجارتی و تعلیمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں بلکہ میدان جنگ میں زخمی ہونے والے صحابہ کی مرہم پٹی کا فریضہ بھی انجام دیتی رہی ہیں لیکن پھر قرون اولیٰ کے بعد انہیں آہستہ آہستہ ان سارے میدانوں سے ہٹا دیا گیا جو نہ صرف تعلیمات اسلامی کی روح کے منافی ہے بلکہ معاشرے کی تیز رفتار ترقی کی راہ میں بھی ایک بڑی روک ہے۔ اس امر سے بھی کوئی باشعور انسان انکار نہیں کر سکتا کہ اگر آج کی خواتین اور کل کی مائیں تعلیم کے زیور سے آراستہ اور معاشی اعتبار سے اپنے پائوں پر کھڑی ہوں گی تو اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بہتر انداز میں انجام دے سکیں گی۔خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے وفاق و صوبائی کی سطح پر قانون سازی ناگزیر ہے جس کے بغیر یہ سارے دعوے محض دعوے ہی رہیں گے۔

کرکٹرز ۔جیت یا ہار!
قومی کرکٹ ٹیم اگرچہ بنگلہ دیش میں ایشیاکرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں سری لنکا کی ٹیم سے5 وکٹوں سے ہار گئی ہے، تاہم اس کے باوجود پاکستانی ٹیم کی کارکردگی نہ صرف قابل ستائش بلکہ بہت بہتر رہی ہے خصوصاً مایہ ناز کھلاڑی شاہد آفریدی نے اس ٹورنامنٹ میں چھکوں کی بارش کرکے اسے یادگار بنادیا ہے۔ فائنل میچ میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے قومی ٹیم نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر260 رنز بنائے۔ فواد عالم نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے114 رنز بنائے اور ناٹ آئوٹ رہے۔ کپتان مصباح الحق نے65 اور عمر اکمل نے56 رنز سکور کئے جبکہ سری لنکن بائولر ملنگا نے56 رنز کے عوض5 کھلاڑی آئوٹ کئے اور اس طرح مین آف دی میچ قرار پائے۔ سری لنکا کی ٹیم نے ہدف 5۔46 اوورز میں حاصل کرلیا ،اس ٹورنامنٹ کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ میزبان بنگلہ دیش ٹیم کسی بھی میچ میں کامیابی حاصل نہ کرسکی اور سری لنکا کی ٹیم پانچوں میچوں میں فاتح رہی جبکہ پاکستانی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں اپنے روایتی حریف بھارت کی ٹیم کو ایک وکٹ سے شکست دی جس میں شاہد آفریدی نے آخری اوور میں دو یادگار چھکے مار کر پاکستانی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کردیا تھا اور اس کے بعد بنگلہ دیش کی ٹیم نے بھاری ہدف کے مقابلے میں شاہد آفریدی کی بیٹنگ سے نہ صرف پاکستانی ٹیم کو کامیابی دلائی بلکہ کرکٹ کے شائقین نے اپنی ٹیم اور شاہد آفریدی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم ہارٹ فیورٹ تھی اور امید یہ تھی کہ چمپئن کا تاج پاکستان کے حصہ میں آئے گا مگر پہلے ہی تین وکٹیں گر جانے سے پاکستانی ٹیم دبائو میں آگئی۔ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے اعتراف کیا ہے کہ ناقص فیلڈنگ شکست کی اہم وجہ تھی، جب دو ٹیمیں آمنے سامنے ہوں تو ایک نے ہی کامیاب ہونا ہوتا ہے اور یہ کھیل ہے جس میں ایسا ہوتا ہے لیکن پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی قابل تعریف ہے اور یقین ہے کہ آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 چمپئن شپ میں پاکستانی ٹیم بہتر اور شاندار کھیل کا مظاہرہ کرے گی۔
تازہ ترین