• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی جولائی سے ستمبر2013ء کی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے باعث پہلی سہ ماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے، کو حکومتی قرضوں اور مہنگائی میں اضافہ اور روپے کی قدر میں 6% کمی ہوئی ہے لیکن اب روپے کی قدر مستحکم ہوکر ڈالر کے مقابلے میں 105کی سطح سے نیچے آگئی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ حکومتی اقدامات کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے سے روپے کی قدر مزید مستحکم ہوگی۔ اقتصادی جائزے کے مطابق پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی گروتھ 5% رہی جو گزشتہ سال اسی دورانئے میں 2.9% تھی لیکن رواں مالی سال کے اختتام تک جی ڈی پی کی شرح 4.4% متوقع ہے۔ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 1.1% گرگیا ہے جو گزشتہ سال 2.1% تھا۔ حکومتی قرضوں میں 10 کھرب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ افراط زر یا مہنگائی کی شرح بھی گزشتہ سال 5.6%سے بڑھ کر 8.1% تک ہوگئی ہے۔ ملکی ترسیلات زر ریکارڈ اضافے سے 2014ء میں 15.1 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ نجی شعبے کے قرضوں میں بہتری آئی ہے اور رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں یہ 231 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں یہ صرف 53 ارب روپے تھے۔ اسٹیٹ بینک کی جائزہ رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت نے توانائی کے بحران کے لئے ٹھوس قدم اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے صنعتی شعبے میں توانائی کے متبادل ذرائع استعمال کرنے سے بڑے درجے کی صنعتوں نے 4% ہدف کے مقابلے میں 6.3% گروتھ حاصل کی۔ صنعتی شعبے کے ساتھ سروس سیکٹر میں بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کی کارکردگی بھی بہتر رہی ہے لیکن پانی کی کمی کے باعث زرعی شعبے کی کارکردگی حوصلہ افزا نہیں رہی۔ ایف بی آر نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں 1.2 کھرب روپے وصول کئے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے کے مقابلے میں 17.2% زیادہ ہیں جس پر چیئرمین ایف بی آر اور اُن کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ صنعتی شعبے کی بحالی سے درآمدات میں اضافہ ہوا ہے جس میں پیٹرولیم، خام مال اور مشینری شامل ہیں۔ مشینری کی امپورٹ میں 26% اضافہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کیونکہ اس سے صنعتکاری اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 600 ملین ڈالر رہا۔ ملکی ایکسپورٹس میں بھی معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن یکم جنوری 2014ء سے یورپی یونین سے بغیر کسٹم ڈیوٹی جی ایس پی پلس کی سہولت سے ملکی ایکسپورٹ بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر میں رواں مالی سال خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے حکومت کو میرا مشورہ ہے کہ وہ نئے قرضوں کے حصول کے علاوہ 3G لائسنس کی جلد از جلد نیلامی کردے جس سے تقریباً ایک ارب ڈالر، پی ٹی سی ایل کے ذمہ پاکستان کے 800 ملین ڈالر کے بقایا جات کی وصولی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی پاکستان کو اخراجات کی مد میں ایک ارب ڈالر کے واجبات کی ادائیگی کو جلد از جلد حاصل کرے تاکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ حکومت مالی سال کی دوسری ششماہی میں 3.3 بلین ڈالر کے یورو بانڈز کے اجراء کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے ماضی میں 2 بار جاری کئے گئے یورو بانڈز زیادہ منافع کی وجہ سے نہایت کامیاب رہے تھے اور حکومت پاکستان باقاعدگی سے ان کے مارک اپ کی ادائیگی کررہی ہے جن سے بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹ میں ان بانڈز کی قیمت مستحکم ہے جس کی وجہ سے امید کی جارہی ہے کہ نئے یورو بانڈز کا اجراء بھی کامیاب رہے گا جبکہ حکومت نجکاری کے ذریعے جون 2014ء تک تقریباً 150 ارب روپے اسٹاک مارکیٹ پر پبلک لسٹڈ کمپنیوں کی حصص کی فروخت سے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
آئی ایم ایف کی جائزہ مشن کے سربراہ جیفری فرینک نے پاکستان کی معاشی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ موجودہ حکومت کے دور میں KSE100انڈیکس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انڈیکس 25780 کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جو سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر ہے لیکن میرے خیال میں صرف اسٹاک مارکیٹ حقیقت میں ملکی معاشی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتی۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ ملکی معیشت کا صرف 10% ہے جس میں لوگ قلیل مدت کیلئے سرمایہ کاری کرتے ہیں اور منافع کماکر جلد نکل جاتے ہیں کیونکہ ہماری اسٹاک مارکیٹ افواہوں کی بنیاد پر اتار چڑھائو کا شکار رہتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کی کچھ کمپنیاں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر اپنے شیئر ہولڈرز کو متواتر منافع دے رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے منشیات و جرائم کے اندازے کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی تقریباً 34 بلین ڈالر سالانہ ہے جو ملکی معیشت کا تقریباً 20% ہے جس کا اہم سبب ہماری غیر دستاویزی معیشت ہے۔ ایشیاء میں جاپان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 28.3%، انڈیا 17.7%، سری لنکا 15.3%، چائنا 12% اور بنگلہ دیش 8.5% ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں برطانیہ 39%، روس 37%، یورپی یونین 35.7% اور امریکہ 27% ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح صرف 9% ہے جسے 5 سالوں میں خطے میں دوسرے ممالک کی طرح بڑھاکر 15%تک کرنا ہوگا۔حال ہی میں اسلام آباد میں ایف بی آر میں چیئرمین طارق باجوہ، ممبر سیلز ٹیکس اشرف خان اور ممبر ریونیو پالیسی شاہد حسن سے ملاقات کے دوران یہ بات زیر بحث آئی کہ ریونیو کے حصول میں اضافے کے لئے آنے والے بجٹ میں بے شمار ایسے رعایتی ایس آر اوز ختم کئے جارہے ہیں جو ماضی میں کسی خاص سیکٹر یا گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لئے جاری کئے گئے تھے۔ مجھے امید ہے کہ ان ٹیکس ریفارمز کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کے علاوہ وزیر تجارت خرم دستگیر نے کراچی میں بزنس کمیونٹی کو بتایا کہ آنے والے بجٹ کے لئے ان کی وزارت نے ایکسپورٹ کے ذریعے گروتھ اور علاقائی تجارت کے فروغ کے لئے وزارت خزانہ کو ایف بی آر کے لئے کئی اہم اقدامات تجویز کئے ہیں جن سے ملکی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کی توقع ہے۔
اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی کے مطابق رواں مالی سال کے آخر تک مالی خسارہ جی ڈی پی کا 6% سے 7% تک رہے گا لیکن گزشتہ مالی سال یہ مالی خسارہ 8% تک پہنچ گیا تھا جبکہ آئی ایم ایف نے اپنے نئے قرضوں کے معاہدے میں مالی خسارے کو کم کرنے کا ہدف دیا ہے۔ وزیر خزانہ نے حال ہی میں اپنے بجٹ فریم ورک میٹنگ میں مالی خسارے کو آئندہ 3 سالوں میں کم کرکے 4% تک لانے کا اعلان کیا ہے۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے معاشی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے میری حکومت کو تجویز ہے کہ جلد از جلد اُن حکومتی اداروں جو دخل اندازی، کرپشن، اضافی بھرتیوں، اقرباء پروری اور میرٹ کے خلاف تعینات کئے گئے سربراہان کی وجہ سے آج خسارے کا شکار ہیںاور اُنہیں چلانے کیلئے ہر سال عوام کے ٹیکسوں کے 500 ارب روپے جھونکے جارہے ہیں، کی ری اسٹرکچرنگ یا نجکاری کرکے سالانہ 500 ارب روپے بچائے جائیں۔ وزیراعظم پاکستان نے لاہور میں بزنس مینوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ان کی حکومت آئندہ ڈیڑھ سال میں گیس اور 3 سالوں میں بجلی کے بحران پر قابو پالے گی جس سے ہماری صنعت کا پہیہ رواں دواں رہے گا جو ملکی جی ڈی پی گروتھ میں اضافی 2% گروتھ کا سبب بنے گا۔پوری قوم پرامید ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات نتیجہ خیز ہوں تاکہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور ملک میں نئی صنعتکاری اور معاشی ترقی کے لئے راہ ہموار ہو۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے اسٹریٹجک محل وقوع کی وجہ سے دونوں ممالک کے مفاد میں پاکستان میں توانائی اور انفرااسٹرکچر کے اہم منصوبوں میں 20 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے لئے اس نے PPR سے استثنیٰ مانگی ہے۔ گزشتہ ہفتے 21 سنچری بزنس اینڈ اکنامک کلب کے تھنک ٹینک کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے کراچی میں اہم کارپوریٹ اداروں کے سربراہان سے ملکی معیشت پر خطاب کیا۔ مجھ سمیت تقریب میں شریک کارپوریٹ لیڈرز کے خیال میں اسٹیٹ بینک کے اقتصادی سروے کے مطابق ہماری معاشی کارکردگی کو شاندار نہیں کہا جاسکتا لیکن انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملکی معاشی صورتحال جو جمود کا شکار تھی، اب بہتری کی جانب گامزن ہے۔
تازہ ترین