• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میڈیا پر آپ نے وہ دردناک مناظر ضرور دیکھے ہوں گے کہ کس طرح تھرپارکر میں بچے بھوک، پیاس اور بیماری سے مر رہے ہیں۔ یہ بھوک، پیاس اور قحط ایک دن میں پیدا نہیں ہوا، پچھلے تین ماہ سے وقفے وقفے سے اخبارات میں خبریں آتی رہی ہیں اور تین ماہ کے دوران 200سے زیادہ بچے بھوک اور بیماری سے مرچکے ہیںاور ڈھائی ہزار سے زیادہ لوگ بیمار ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ چکے ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ ایک طرف تو حکومت کی غفلت کا اعتراف کررہے ہیں اور دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ اس سال سردی بہت پڑی اور بچے نمونیا سے مر گئے۔ یعنی بھوک اور پیاس سے بچے نہیں مرے۔ چلیں کچھ دیر کو ہم قائم علی شاہ کی اس بات کو مان بھی لیتے ہیں کہ بھوک اور پیاس کی بجائے بیماری سے مرے ہیں تو وزیراعلیٰ کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ جب بچے غذائی کمی کا شکار ہوتے ہیں تو ان پر مختلف بیماریاں حملہ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ جب انسانی جسم میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے تو بچے اور بڑے بھی مختلف بیماریوں کے قابو میں آجاتے ہیں۔ اب کوئی یہ تو بتائے کہ اتنے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کو کیوں تین ماہ تک بیوروکریسی، مٹھی ہسپتال کے ایم ایس نے ڈائریکٹر صحت اور سیکرٹری صحت نے آگاہ نہیں کیا ؟ جب بھیڑ، بکریاں مر رہی تھیں تو ڈائریکٹر اینیمل ہسبنڈری کیا خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا؟ بی بی سی کے مطابق چارہ اور خوراک دستیاب نہ ہونے کے باعث مور بیماری کا شکار ہوئے اور پھر ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ اور بکریاں مر گئیں اور روزانہ جانور، چرند، پرند مر رہے ہیں۔ ملکی میڈیا میں سوائے ایک دو چینل کے کسی نے اس مسئلے کی سنگینی کو نہیں سمجھا۔بریکنگ نیوز ویسے تو بھینس گٹر میں گر جائے چل پڑتی ہے، حاملہ عورت رکشے میں بچے کو جنم دے تو بریکنگ نیوز آجاتی ہے۔ مگر تھرپارکر اور مٹھی کے بارے میں کس نے بریکنگ نیوز دی؟ سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے بھی تھرپارکر کی سنگین صورتحال پر موجودہ چیف جسٹس تصدیق جیلانی کو خط لکھ دیا۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ جب سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیںتب اعلیٰ عدالتیں کسی مسئلے میں کود پڑتی ہیں، اور حکومت کو خیال آتا ہے۔ کیا سندھ فیسٹیول منانے والوں کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ تھرپارکر میں لوگ مر رہے ہیں اور تم سندھ فیسٹیول منا رہے ہو۔ کتنے دکھ اور شرم کی بات ہے اور پھر تھرپارکر کا مسئلہ آج کا تو نہیں، یہ مسئلہ تو برس ہابرس سے چل رہا ہے۔ لیکن جمہوریت، روٹی، کپڑا اور مکان کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے کبھی کچھ نہیں کیا۔ کیا پچھلے سال میں جب سندھ اور مرکز میں پی پی کی حکومت تھی تو کیا اس وقت تھرپارکر میں قحط، بھوک، پیاس اور علاج کی سہولیات اور جانوروں کی غذا کیلئے کسی نے کوئی پلاننگ کی۔ سندھ کی ثقافت دکھانے والے یہ تو دکھائیں کہ کس طرح تھر کی سرزمین پر انسانوں اور جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے اپنی حکومت کی غفلت کا اعتراف کرلیا ہے اور جب کوئی انسان اپنی غفلت، غلطی، لاپرواہی اور غلط منصوبہ بندی کا اعتراف کرے تو اسے پھر کیا کرنا چاہئے یہ تو خود قائم علی شاہ ہی بتائیں گے۔ کتنی دلچسپ اور دکھ بھری بات ہے کہ مٹھی کے دورے کے دوران جب قائم علی شاہ، سرکاری ہسپتال میں زیرعلاج بچوں کی عیادت کرنے گئے تو ہر بیمار بچے کو 2 ہزار روپے دے آئے۔ ارے بھائی وہ بیمار بچے ان 2 ہزار روپوں کا کیا کریں گے۔ پتہ نہیں کون صاحب عقل وزیراعلیٰ کو اس قسم کے مشورے دیتا رہتا ہے۔ جہاں کھانے کو کچھ نہیں، پینے کو پانی نہیں، علاج کیلئے ادویات نہیں، وہاں پر آپ دو دو ہزار روپے دے رہے ہیں۔ مٹھی کے فوڈ انسپکٹر نے ٹی وی پر بتایا کہ 60 ہزار گندم کی بوریاں تین مختلف سنٹروں میں پڑی ہیں لیکن وہ تب تک تقسیم نہیں کر سکتے جب تک ڈی سی او / ڈپٹی کمشنر یا حکومت کا کوئی اعلیٰ افسر انہیں حکم نہیں دے گا۔ کیا حکومت سندھ نے ان افسران کو بلایا جو گندم کی تقسیم کا حکم نہیں دے رہے۔ آخر کس وجہ سے انہوں نے گندم کی تقسیم کو روکا ہوا ہے؟ پھر یہ بھی کہا گیا کہ حکومت نے گندم پہنچانے والے ٹرانسپورٹرز کے 6 کروڑ روپے ادا نہیں کئےلیکن سندھ فیسٹیول پر اربوں روپے ضائع کر دیئے ۔ دوسری طرف اس ملک کے اشرافیہ نے 65 کھرب ٹیکس نہیں دیا۔ ان اشرافیہ کی تعداد ایک کروڑ ہے جس میں سیاست دان، وڈیرے، بڑے بڑے کاروباری افراد ہیں۔ پھر آپ یہ دیکھیں کہ سول ہسپتال مٹھی میں 161ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ پچھلے دو سال سے اگر مٹھی کے ہسپتال میں سیاست دانوں کے بچوں کا علاج ہو رہا ہوتا تو کبھی بھی یہ آسامیاں خالی نہ ہوتیں۔ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دبئی میں بیٹھ کر کیا جانیں کہ غربت کس چڑیا کا نام ہے؟ سندھ فیسٹیول کے بارے میں بار بار میڈیا پر پیغام دینے والوں کو یہ نہ معلوم ہو سکا کہ جنوری اور فروری میں مٹھی کے سول ہسپتال میں 60 بچے بھوک، بیماری اور ادویات نہ ملنے کے باعث مر گئے۔ جنوری گزر گیا، فروری گزر گیا اور مارچ کا بھی دوسرا ہفتہ شروع ہو چکا پھر حکومت کو خیال آیا۔ کتنا ظلم ہے اور کیا اس مجرمانہ غفلت اور ظلم کا روز قیامت کو بڑی بڑی مہنگی گاڑیوں میں گھومنے والے یہ سیاست دان اور اپنی تقریروں میں قائداعظمؒ کے اقوال اور علامہ اقبالؒ کے اشعار پڑھنے والے کیا جواب دیں گے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ دریائے دجلہ کے کنارے اگر کوئی جانور بھی بھوک سے مر گیا تو روز قیامت ان کو حساب دینا ہو گا۔ آج تو سینکڑوں انسان اور جانور بھوک اور پیاس سے مر گئے اور ہمارے حکمران صرف دورے کرتے رہتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور وفاقی حکومت تھرپارکر کے لوگوں کی مدد کرنے کو تیار ہیں مگر سندھ حکومت مدد لینے کو تیار نہیں۔ یہ کیسی انا اور ضد ہے کہ لوگ مر رہے ہیں اور اپنے ہی ہم وطنوں سے مدد نہیں لینا چاہتے۔ یہ تھرپارکر ہے جہاں پر پانچ ہفتے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر تھرکول پراجیکٹ کا افتتاح کیا تھا۔ تب بھی وہاں پر قحط اور خشک سالی شروع ہو چکی تھی لیکن کسی نے انہیں آگاہ نہ کیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں خشک سالی مستقل مسئلہ ہے۔ جہاں 1961، 1966، 1973، 1974، 1984، 1987، 1991، 1994، 1997 پھر 2002، 2004، 2007، 2009اور پھر اس سال خشک سالی اور قحط پیدا ہو ا۔ یہ علاقہ معدنی دولت سے مالامال ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے کوئلے سے پانچ سو برس تک بجلی اور توانائی حاصل کی جا سکتی ہے مگر یہ علاقہ پینے کے صاف پانی،غرضیکہ صحت و صفائی کی تمام سہولیات سے محروم ہے۔ جب یہ معدنی دولت زمین سے نکلنے لگے گی تو پھر کئی ہائوسنگ سکیموں والے اور پلاٹ مافیا وہاں پہنچ جائے گا۔ لیکن وہاں کے لوگ غربت کا ہی شکار رہیں گے اور اسی طرح مرتے رہیں گے۔ وہ آلودہ پانی جس سے ایلیٹ کلاس نہانا تو دور کی بات اس پانی سے اپنی دیگر ضروریات اور واش روم بھی دھونا پسند نہ کرے یہ پانی وہاں کے لوگ پی رہے ہیں۔ بیمار نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا۔ حامد علی بیلا نے بڑا خوبصورت پنجابی کا ایک گیت گایا ہوا ہے جس کا ایک مصرع یہ ہے :
دکھاں دی روٹی سولوں دا سالن
بقول جاں نثار اختر
بکھر گیا کچھ اس طرح آدمی کا وجود
ہر ایک فرد سانحہ لگے ہے مجھے
تازہ ترین