• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کے قحط زدہ ضلع تھرپارکر میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، مقامی انتظامیہ ،فوج اور سرکاری و فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں کے باوجود تقریباً ڈھائی ہزار دیہات میں رہنے والے غریب لوگوں تک تاحال خوراک اور ادویہ نہیں پہنچ سکیں جس کی وجہ سے وہاں بھوک، پیاس اور جان لیوا بیماریوں کا دور دورہ ہے۔ مزید دس بچے غذائی قلت کی وجہ سے دم توڑ گئے ہیں اور جانیں بچانے کیلئے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی جاری ہے۔ ایسے میں تاخیر سے ہی سہی، وزیراعظم نواز شریف، سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کا ایک ساتھ دورہ قحط کے مارے ہوئے لوگوں کے لئے جینے کی نئی امید کا پیغام لایا ہے۔ وزیراعظم نے پیر کو دربار ہال مٹھی میں اعلیٰ حکام کی بریفنگ کے دوران اس بات پر شدید ناراضی کا اظہار کیا کہ وافر مقدار میں گندم موجود ہونے کے باوجود قحط زدہ لوگوں میں تقسیم کیوں نہیں کی گئی۔ انہوں نے صوبائی وزیراعلیٰ کو ہدایت کی کہ اس بے رحمانہ غفلت کی تحقیقات کی جائے اور خوراک کی قلت اور علاج معالجے کی سہولتیں بروقت فراہم نہ کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے متاثرین کیلئے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا اور یہ ہدایت بھی کی کہ جو لوگ علاج کیلئے تھرپارکر سے باہر نہیں جا سکتے موبائل ہیلتھ یونٹس کی مدد سے انکے گھروں تک طبی امداد پہنچائی جائے۔ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں اس معاملے میں صوبائی حکومت سے مکمل تعاون کریں گی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس موقع پر کہا کہ قحط ایک قدرتی آفت ہے۔ صوبائی حکومت نے متاثرین کے لئے گندم بھجوائی تھی لیکن اس کی تقسیم میں کوتاہی ہوئی جس کی وجہ سے یہ انسانی المیہ پیش آیا۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ تھر ایک بے آب و گیاہ صحرائی علاقہ ہے جہاں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور اکثر وہاں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ علاقہ وسیع و عریض اور فاصلے طویل ہونے کے باعث علاج معالجے کی سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب غذائی قلت پیدا ہو جائے تو دور دراز علاقوں میں خوراک اور ادویات کا پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال اکثر پیش آتی رہتی ہے۔ پھر قحط اچانک نہیں آتا۔ اس کے آثار بہت پہلے سے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں صوبائی حکومت، خصوصاً مقامی حکام حالات پر عقابی نظر رکھیں تو پیشگی اقدامات سے قحط کے اثرات پھیلنے سے روکے جاسکتے ہیں۔ اس وقت جو صورتحال ہے وہ سراسر حکام کی بے حسی اور غفلت کا نتیجہ ہے جنہوں نے بروقت حکومت کو خبردار نہ کیا اور قحط سے لوگوں کو بچانے کی کوئی پیش بندی نہ کی۔ یہ تو میڈیا ہے جس نے اس انسانی المیے کو نمایاں کیا تو حکومتیں ادارے اور مخیر حضرات متوجہ ہو گئے۔ تھر کے قریب ہی چولستان کا علاقہ ہے۔ دونوں کے طبعی حالات ایک جیسے ہیں مگر چولستان میں شاید حکام چوکس رہے۔ اس لئے وہاں سے کوئی بری خبر نہیں آئی۔ تھر میں بھی حکام صورتحال پر نظر رکھتے اور بروقت فیصلے کرتے تو نہ غذائی قلت پیدا ہوتی، نہ بیماریاں پھیلتیں اور نہ انسانی جانیں ضائع ہوتیں۔ حکومت کو اب موجودہ حالات سے موثر طور پر نمٹنے کے علاوہ مستقبل کے لئے دیرپا انتظامات کرنا ہوں گے۔اول تو آج کے ترقی یافتہ دور میں قحط آتے ہی کیوں ہیں؟ جدید تحقیق اور ٹیکنالوجی سے انہیں روکا کیوں نہیں جا سکتا۔ اس حقیقت سے جب تمام لوگ باخبر ہیں کہ تھر بنیادی طور پر مفلوک الحال کسانوں کا علاقہ ہے جن کا ذریعہ معاش ریتلی زمینوں میں اناج اگانا اور مال مویشی پالنا ہے اور خشک سالی یہاں معمول کی بات ہے تو مقامی حکام کو ہمہ وقت خبردار رہنا چاہئے۔ حکومت بھی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا یہاں مستقل دفتر قائم کیا جائے، محکمہ صحت کو مزید فعال بنایا جائے، جگہ جگہ بیسک ہیلتھ یونٹس قائم ہوں اور غلہ پہنچانے کا معقول بندوبست کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ غریب لوگ غذائی قلت اور مہلک امراض کا شکار ہوتے رہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کا ایک ساتھ متاثرہ علاقے کا دورہ مستقبل میں ایسے المیوں کے موثر تدارک کا ذریعہ ثابت ہونا چاہئے۔
روپے کی قدر میں حیرت انگیز اضافہ
ملکی کرنسی کی قدرقومی معیشت کی کارکردگی کو جانچنے کا ایک قابل اعتماد پیمانہ تسلیم کی جاتی ہے۔ پچھلے کئی سال سے پاکستانی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کا رجحان پایا جارہا تھا۔ اس کے نتیجے میں درآمدات کی قیمتوں اور قرضوں کی مالیت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطح تک پہنچ گئے تھے اوربیرونی قرضوں کی ادائیگی مشکل نظر آرہی تھی ۔ زرمبادلہ اور کاروبار ملک سے باہر منتقل ہورہے تھے۔اس طرح ایسا زنجیری عمل شروع ہوگیا تھا جس کی بناء پر معاشی صورت حال روزافزوں ابتری کا شکار تھی۔تاہم موجودہ حکومت نے بہتر معاشی حکمت عملی اپنا کر مایوسی کو امید سے بدلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لئے کی جانے والی کوششیں رنگ لارہی ہیں۔ ڈالر اور دوسری اہم بین الاقوامی کرنسیوں کے بیرون ملک منتقل ہونے کے رجحان میں تبدیلی آئی ہے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر بین الاقوامی سرمایہ کاری شروع ہورہی ہے ۔ چین، سعودی عرب، ترکی ، قطر اور دوسرے دوست ملکوں سے اس ضمن میں کئی بڑے معاہدے ہوچکے ہیں اور ان میں سے بعض عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے اورامکان ہے کہ ماہ رواں کے آخر تک ان کی مالیت دس ارب ڈالر سے زیادہ ہوجائے گی۔یورپی یونین سے پاکستانی درآمدات کو ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دلانا قومی معیشت کو بحران سے نکالنے کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی ہے۔ معیشت کی بحالی کے لئے کی جانے والی ان ہمہ جہت کوششوں کے نتیجہ خیز ہونے کا ایک واضح ثبوت ڈالر کے نرخ میں پچھلے چند ہفتوں کے دوران مسلسل کمی کا واقع ہونا ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ 111 روپے تک پہنچ جانے والا ڈالر کھلے مارکیٹ میں 99.70روپے تک نیچے آگیا ہے۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں یہ اضافہ قرضوں کے بوجھ کو بھی کم کرنے کا سبب بنے گا اور درآمدات کے نرخوں میں کمی کا بھی جس سے معیشت میں مزید بہتری متوقع ہے۔ محض نو ماہ میں یہ کارکردگی یقینا امید افزاء اور ملک کے روشن مستقبل کی ضامن ہے۔

مذاکرات کا نیا دور
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ نئی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان دو تین روز میں کردیا جائے گا جو طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے گی۔ جیو کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ابھی یہ طے کیا جائے گا کہ مذاکرات کہاں ہوں گے تاہم مولانا سمیع الحق کی کمیٹی نے پہلے بھی مثبت کردارادا کیا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ طالبان سے رابطہ کے لیے وہ کمیٹی قائم رہے۔ حکومت کامیابی سے امن مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ اگرچہ طالبان کی جانب سے پہلے ہی ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کر کے امن مذاکرات کا عندیہ دیا گیا تھا اور حکومت نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فضائی حملے روک دیئے تاہم طالبان کی جانب سے نئی مذاکراتی کمیٹی کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا اور نہ ہی مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی رابطوں کے لئے کسی کو نمائندہ نامزد کیا گیا ہے۔ جبکہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے اس حوالے سے طالبان کو صوبہ میں عارضی رابطہ دفتر قائم کرنے کی تجویز دی تھی جس پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ طالبان سے پہاڑوں پر تو مذاکرات نہیں ہوسکتے اس کے لئے قطر کی طرز پر یہاں بھی ان کا سیاسی دفتر کھلنا چاہئے۔ لیکن ہم وفاق سے مشاورت کے بغیر طالبان کا دفتر نہیں کھولیں گے۔ یہ مناسب اور درست بات بھی ہے لیکن یہ بھی تو ضروری ہے کہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کے نئے دور کے آغاز کے لئے کسی سے کوئی رابطہ بھی ہونا چاہئے۔ یہ عارضی دفتر کی صورت بھی ہوسکتا ہے یا ایسے بھی جیسے کہ وزیر داخلہ نے تجویز دی ہے کہ طالبان کی جانب سے مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں جو کمیٹی قائم کی گئی تھی اسے رابطہ کے لئے برقرار رکھا جائے۔ تاکہ مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانےمیں سہولت ہواور حکومتی کمیٹی طالبان کے نمائندوں سے براہ راست رابطے میں رہے۔ اس بارے میں دونوں جانب سے باہمی مشاورت کے بعد طریق کار طے کیا جاسکتا ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبان کی جانب سے انتہائی مثبت رویہ کا اظہار کیا جائے!!
تازہ ترین