• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اچانک وہاں کسی بیماری کے آسیب نے قیام کرلیا۔
پہلے موروں نے اپنے رنگین پر سمیٹے، رقص چھوڑا، پھرآخر کو موت کی وادی میں چلے گئے۔
اب ہرنوں اوربھیڑوں کی باری تھی!
ہرنوں نے بھی چوکڑیاں بھر کے برق رفتار دوڑ کے حسین فاصلوں سے منہ موڑ لیا۔ بھیڑوں کی ایک ہی لمحے میں، ایک ہی لے پر ،وہ عجیب سی لذت آگیں ممیاہٹیں ختم ہوتی چلی گئیں جن کے صوتی آہنگ میں فطرت کے مدھر پیغامات صاف سنائی دیا کرتے ہیں۔ یہ دنیا کے بڑے صحرائوں میں سے ایک پاکستانی صحرا ’’تھر‘‘ کا تذکرہ ہے۔ دستیاب مردم شماری کے مطابق جس کی آبادی اس وقت قریب قریب 11لاکھ انسانوں پر مشتمل ہے۔ بھارتی حدودمیں اس صحرا کو راجستھان ، خیرپور میں نارا اور بہاولپور میں چولستان بھی کہا جاتا ہے!
اور یہ بھی اسی پاکستانی تھر کا وقوعہ ہے کہ ’’قحط سالی کے باعث (گزشتہ) تین ماہ میں ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال لائے گئے 121بچے جاں بحق ہوئے۔ حکومت نے امداد کے لئے 60ہزار بوری گندم متاثرہ علاقے میں پہنچائیں جو متعلقہ محکموں نے تقسیم ہی نہیں کیں..... ‘‘وزیرخوراک مہتاب ڈہر کا فرمان ہے کہ ’’گندم فراہم کردی، متاثرین تک پہنچانا میری ذمہ داری نہیں!‘‘ بچوں کی اموات کا سلسلہ تین ماہ سے جاری تھا، کسی کو خبر نہ ہوسکی۔ افسوس! عاجز کے عقیدے کےمطابق ملک و قوم کے لئے زیادہ تر نقصان دہ’’فیکٹر‘‘ میڈیا کی تعریف کرنا پڑ رہی ہے کہ سب سے پہلے وہی جاگا، پھر سپریم کورٹ نے ا زخود نوٹس لیا، حکومت سندھ کی ہڑبڑاہٹ میں گھبراہٹ کا پہیہ گھومنے لگا۔
اور ایک مستند محقق رپورٹر نے یہ بھی بتایا کہ آئینی لحاظ سے حکمرانوں ہی کی طرح ان کے برابر کا پاکستانی ہونے کے باوجود، ان کے لئے فراہم کئے گئے ریاستی تعاون یا ریاستی امداد میں دو تین افراد نے نہایت قابل اعتراض کردار ادا کیا۔ جس کی تفصیلات درست ثابت ہونے پر انہیں قانون کی سخت ترین تعزیر ی قید خانے میں رگڑ رگڑ کر مرنے یا موت سے زیادہ اذیت ناک زندگی بتانے کے تجربے سے بھی گزارا جاسکتا ہے۔ رپورٹر کا کہنا ہے ’’تھرپار کر کے بے رحم صحرا میں موت کا شکار ہونے والے بچوں کے بارے میں پتہ چلا تو دو لوگ میرے ذہن میں آئے۔ پہلے سابق وزیر اسحاق خاکوانی جنہوں نے 2005-6 میں وزیراعظم شوکت عزیز سے مطالبہ کیاتھا کہ چولستان کے صحرا میں بھوک اورپیاس سے مرنے والے 32بچوں اور ان کی مائوں کے قتل کا مقدمہ اس وقت کے چیئرمین پلاننگ ڈویژن اکرم شیخ، خشک سالی پروگرام کے پراجیکٹ ڈائریکٹر محمدانور اوردیگر اسٹاف کے خلاف درج کیاجائے جنہوںنے چولستان کے فنڈز میں سے کروڑوں کی گاڑیاں خرید لی تھیں اور اپنے دفاتراورباتھ روم میں ان فنڈز سے ٹائلیں لگواتے رہے تھے۔ دوسرا نام پیپلزپارٹی کی سابق ایم این اے روبینہ قائم خانی کا آیا جنہوں نے پہلے د ور میںملنے والے ترقیاتی فنڈز تھرپارکر میں خرچ کرنے کی بجائے لکی مروت کے ٹھیکیداروں کو بیچ دیئے تھے۔ ایک اور خاتون کا نام نہیں لکھتے، جنہوں نے چکوال کی بجائے اپنے دوکروڑ روپے لکی مروت شفٹ کردیئے تھے کہ وہاں زیادہ ضرورت تھی کیونکہ وہ پہلے ہی مجھ سے شدید ناراض ہیں۔ جب خاتون سے پوچھا گیا تھاتو انہوں نے فرمایا ’’انہیں اپنا پرانا قرض چکانا تھا۔‘‘
یہ رپورٹ کچھ اور بھی یاد دلاتی ہے۔ گو وہ شخص اس میں فریق نہیں لیکن یہ وہی شخص ہے جس نے لال مسجد کے پیداکردہ ریاستی بحران کے لہو میں غرق گھڑیوں کے عین درمیان کہا تھا ’’میں اپنی اہلیہ کے ساتھ قلفی کھانے جارہا ہوں‘‘ تکلیف دہ حد تک اس شخص کی ایسی جاں سوز قومی مصیبت کے وقت اپنی پھولی ہوئی زبان سے اس قسم کی اخلاق باختہ فرمانروائی کے اظہارپر کوئی مقدمہ درج ہوا؟کیا کبھی اس شخص کی وطن واپسی پر کوئی اس کے گریبان کے ساتھ لٹک سکتا ہے؟ اسے پاکستانیوں کے قومی تشخص کی اس قدر برہنہ لاپرواہی کے ساتھ تذلیل کرنے پر کسی ازخود نوٹس کے تحت اس کی اصل ذہنی حیثیت کی نقاب کشائی کی جاسکتی ہے؟ ہم جو زیرزمین کوئلوں کے ذخیروں کے انباروں سے تھر کےباسیوں کی پیاس کا احساس دلاتے ہیں شاید طبعاً اور ذہناً بیمار، لاغر اوربے جہت ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین پر طاقت ا ور دولت مجموعی طور پر کسی قسم کے اجتماعی خوف اورشرم و حیا سے سو فیصد سے بھی کہیں زیادہ آزاد ہوچکی ہیں۔ان کےسارے اظہاریئے اپنے سے درجہ بدرجہ کمزور انسانوں کے لئے درجہ بدرجہ درندگی اور بے حیائی کے مظاہر سے بھرپور ہوتے ہیں۔کسی نے اسے بلا کر اس غریب قوم کے ساتھ اپنے ایسے قابل مذمت شوخ مذاق پر ندامت پر مجبور کیا؟
پورے ملک، بے حد خاص طور پر اولاً پنجاب، ثانیاً سندھ، ثالثاً خیبرپختونخوا، رابعاً بلوچستان میں طاقت اور دولت کی ایسی درندگیوں اور بے حیائیوں سے اس دھرتی کا سینہ شق ہو چکا ہے۔ وہ پارلیمنٹرین یا سنیٹر ابھی تک اس ملک کی دھرتی پر دندنا رہا ہے جس نے بلوچستان میں زندہ دفن کی جانے والی بیبیوں کے متعلق ’’یہ ہماری غیرت کا مسئلہ ہے‘‘ کے الفاظ کہے تھے! ہم اپنی بیمار ، لاغر اور بے جہت دماغی حالتوں میں حل بڑے پیش کرتے ہیں۔ مقدمے درج کرانے کابھی ہمیں بہت شوق ہے، جیسا کہ ایک برادر نے فوراً ہی سندھ حکومت کے خلاف ’’یہ غفلت نہیں قتل ہے‘‘ کا فتویٰ جاری کیا۔ ایسا ہی فتویٰ وفاق کے خلاف کیوں نہیں؟ سندھ حکومت یقیناً ناقابل معافی ہے۔ کم از کم اس کے وزیر خوراک مہتاب ڈہر کی گردن قانون کے طاقتور طوق میں جکڑی جانی چاہئے۔ لیکن اس سے پہلے وفاق پر مقدمہ کیوں نہیں؟ پاکستان کے شب و روز پر اپنی آنکھ بیدار رکھنے کی کلیتہً ذمہ داری اسی کی ہے اس کا نام کیوں نہیں لیتے؟
پاکستانی عوام کی اکثریت یاد رکھے، غربت اور کمزوری،
O .....علم کا نوحہ،
O .....تاریخ کا سماجی کینسر،
O .....انسانیت کی دیمک،
O .....صلاحیتوں کے لئے ملیریئے کی تپش،
O .....روح کی بلبلاہٹ،
O .....تہذیب کا زندہ جنازہ،
O .....شریفوں کی پردہ دری،
O .....رذیلوں کے لئے حملہ آوری کا بہانہ،
O .....کردار پر لٹکتی ننگی تلوار،
O .....امیدوںکا قتل اور قسطوں میں موت،
O .....غریب اور کمزور لوگ، چٹ کپڑے فراڈیوںکا لذیذ چارہ، نودولتئے،اٹھائی گیروں کا سامانِ تعیش، ظالموں کےقہقہے،
O .....حسد غربت کا باپ، لوبھ غربت کی ماں اور لالچ غربت کی اولاد،
O .....غربت مکافات ِ عمل کا وہم، حسرتوں کا ٹڈی دَل اور حوصلے کی کمی،
O .....غربت لوفروں کو برداشت کرنے، جاہلوں کی تعلیم تسلیم کرنے،کم ظرفوں کے سامنے خاموش رہنے اور چغل خوروں کو فصیح کہنے کا نام ہے۔
O .....غربت قد آوروں کو ٹھگنا، خود داروں کو سوال بردار اور مقربین ِ انسانیت کو ناقابل التفات بنا دیتی ہے،
O .....غربت ، اندھیرے کا قیام، سحر کا انتظار، مقدر پر سوالیہ نشان، قدرت کے فیصلوں کا استعجاب،
O .....حرام خور، ہڈحرام، نسلی چور، پوتڑوں سے خراب.......امیروں کی لغت میں غربت کے مختلف نام،
O .....غربت کارل مارکس سے ’’داس کیپٹل‘‘ اور پریم چند سے ’’کفن‘‘ لکھواتی اوراقبالؒ سے یہ شعر کہلوا دیتی ہے:
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مردہ
پوشیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے!
پاکستان کا ’’تھر‘‘ اپنی وسعت میں اور پاکستان کے بلامبالغہ کروڑوں غریب، کمزور، سفید پوش عوام الناس اس غربت اور کمزوری سے زیادہ اس بے اعتنائی اور بے عزتی کے ہاتھوں روزانہ زندہ مرتے ہیں جب موت، بھوک اوربیماریوں کے سمندروںکاسامنا کرتے ہوئے ’’دوپہر کاکھانا غریبوں کو دینے‘‘ کی دردمندی کے دوش پرہمیں ’’ہاتھی کھانے اور کیڑوں سے پرہیز‘‘ کا محاور ہ عملاً یاد دلاتا ہے، کوئی تھر کی ریت میں ٹائلیں لگوا کر ،کوئی اس ملک کو اپنے ’’باپ ‘‘ کی جاگیر سمجھ کر ہمارا پیسہ کھاتا ہے۔ کوئی ہماری اموات اور بھوک کے بعد بڑے بڑے سرکار ی اشتہارات کے ذریعے ہمیں ’’قیمتی ہے زندگی‘‘ کی انمول یاد دلاتے اور کوئی ’’پیٹ کاٹ کر بچوں کا پیٹ بھرنے‘‘ کے لافانی آدرش کے پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ تھر میں کوئی قیامت نہیں آئی، ضعیفی کی مرگ ِ مفاجات کا کھیل رچایا گیا ہے۔ طاقت اور دولت نے غربت اور کمزوری کی گردن پر ایڑی رکھی ہے۔ کبھی کبھی قلمکار اپنے ضمیر کے سوئے ہوئے خلیوں کو جگا دیتا ہے۔ یاد آ جاتا ہے آخرت میں جواب دہی مالکِ حشر کے سامنے ہے۔ ’’بادشاہ‘‘ اور ان کی اولادیں تو وہاں خود ہماری ہی طرح خوار و زبوں ہوں گی۔
تازہ ترین