• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے قابل فخر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ سماجی کارکن عبدالستار ایدھی نے اپنی ساری زندگی جس طرح انتہائی سادگی کے ساتھ رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے کسی امتیاز کے بغیر آخری سانس تک خدمت خلق میں گزاری اور مرنے کے بعد بھی اپنی آنکھیں دو نابینائوں کی بصارت کی بحالی کے لئے عطیہ کردیں ، ایسے ایثار و قربانی کی مثالیں ہمارے معاشرے میں اتنی خال خال ہیں کہ انہیںالشاذ کالمعدوم کے زمرے میں ہی شمار کیا جاسکتا ہے۔ عبدالستار ایدھی کی زندگی بھر کی بے مثال قربانیوں کا ہی یہ ثمر ہے کہ پوری دنیا نے انہیں نہ صرف بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے بلکہ غیر ملکی میڈیا نے تو انہیں پاکستان کا ’’فادر ٹریسا‘‘ قرار دے دیا ہے ، یہ توقع بھی کی گئی ہے کہ جس طرح’’مدر ٹریسا‘‘ کی وفات کے 19سال بعد بھی ان کے قائم کردہ ادارے اپنی آب و تاب کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح عبدالستار ایدھی کے ہاتھوں سے تشکیل پانے والے اداروں کو بھی ایسی شکل دی جائے گی کہ وہ نہ صرف پھولتے پھلتے رہیں بلکہ حکومتی انتظامات کے تحت ایسے مزید فلاحی ادارے بھی قائم کئے جائیں عبدالستار ایدھی نے تن تنہا سماجی شعبے میں جو خدمات انجام دی ہیں اس میں حکمرانوں کے لئے ایک سبق ہے کہ وہ بھی اگر اپنا شاہانہ جاہ و جلال چھوڑ کر سادگی اختیار کریں اور قومی اموال کی پائی پائی عوام کی بہبود کے لئے خرچ کریں تو ان کی دنیااور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔چیئرمین سینٹ رضا ربانی ،سابق صدر پرویز مشرف اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے عبدالستار ایدھی کو ان کی غیر معمولی خدمات کی بناء پر بعد از وفات نوبل انعام دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ پوری پاکستانی قوم ان کے اس مطالبے کی تائید کرتی ہے، غیر ممالک میں مقیم پاکستانی اور حکومتی ادارے بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اور اگر ان کی جدوجہد سے عبدالستار ایدھی کو بعد از مرگ نوبل انعام دیا جاتا ہے تو یہ ان کی خدمات کاایسا عالمی اعتراف ہوگا جس سے سماجی شعبے میں کام کرنے والے افراد اور اداروں کونیاحوصلہ ملے گا۔
تازہ ترین